شمس الرحمن فاروقی کو ہی نہیں ایک اردو قاری کو بھی ابکائی آتی ہے جب ایک اردو روزنامہ انسانی حقوق کی مجاہدہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے بعد ایک مضمون اس عنوان کے ساتھ شائع کر تاہے قادیانی خاوند، عیسائی داماد خود مذہب بیزار عاصمہ جہانگیر ۔
4 مارچ کو غالب اکیڈمی میں شمس الرحمن فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو اخبارات کا معیار اتنا ابتر ہو گیا ہے کہ اب انہیں دیکھ کر متلی آتی ہے میں نہ خود اردو اخبار پڑھتا ہوں نہ کسی کو پڑھنے کی رائے دیتا ہوں۔ اس کے بعد ہی ان کے اس بیان پر چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ سامعین میں سے اکثریت ان کے اس بیان کے بین السطور کے اشارے کو سمجھتے ہوئے مطمئن تھی۔ مگر کچھ لوگوں نے ان کے بیان کا لفظی معنی نکال کر ان کو اردو اخبارات سے نفرت پر محمول کیا۔ قندیل نامی اردو ویب سائٹ پر ایک مضمون بھی اس تعلق سے پڑھنے کو ملا۔ پھر تو سوشل میڈیا پر بھی فاروقی صاحب کے بیان پر زبردست ردعمل شروع ہو گیا موافقت اور مخالفت کی اس افرا تفری میں لوگوں نے بیان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ فاروقی صاحب کے منشأ کو ہی مجروح کردیا۔
اردو صحافت کی حالت زار پر شمس الرحمن فاروقی کی بلا شبہ اتنی سخت اور کڑوی رائے کو زبان و ادب سے بیزاری پر محمول کرنا یا کسی قسم کا تنازعہ کھڑا کرنا مجھ جیسے عام اردو قاری کی سمجھ سے پرے کی بات نہیں ہے۔ عام قارئین جو اردو اخبار پڑھتے ہیں ہر صبح اردو اخبار اٹھاتے ہی ان کے الفا ظ شمس الرحمن فاروقی کے الفاظ سے کم سخت نہیں ہو تے۔ مگر ان کی مجبوری ہے کہ ان کو اردو کے علاوہ دوسری کوئی اور زبان نہیں آتی ہے اور یہ بھی کہ اردو کے نام نہاد علم برداروں نے اردو کی محافظت کا ذمہ ان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اردو کے اخبار نہیں خریدو گے تو اردو مٹ جائے گی اور اردو مٹ جائے گی تو اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔
میں ان باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ اردو اخبارات کے بہت سے مسا ئل ہیں۔ ان کے قارئین کی تعداد کم ہے انہیں وسائل کی قلت کا سامنا ہے یہاں کام کرنے والے لوگوں کی تنخواہیں بھی کم ہیں سرکاری اشتہارات بھی نہیں ملتے ہیں اور ایسے میں ان سے بہتر معیار کی توقع کرنا یقیناً مشکل کام ہے مگر نا ممکن بھی نہیں ہے۔ جی ہاں ٹکنالوجی کا استعمال بھی کیا جا تا ہے رنگوں کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ اسلامیات اور ادب کے صفحات کے ساتھ ساتھ رسائل تفریح اور کھیل کی خبروں کے لئے بھی مناسب جگہیں مخصوص ہیں۔ فاروقی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی شہرت کے پیچھے بھی اردو اخبارات کے احسانات ہیں۔ ہندوستان میں مسلم مسائل کو اٹھانے میں بھی اردو اخبارات کی کوششوں کا میں اقرار کرتا ہوں۔
مگر کیا سچ مچ ان باتوں کا خیال رکھ کر ہم اردو اخبارات کے گرتے ہوئے معیارات کو بہتر کرنے کے لئے مشورہ دینے کا حق نہیں رکھتے؟ کیا واقعی ہم اردو اخبارات کی خبروں سےصرف ان کو در پیش مسائل کی بناپر مطمئن ہوجائیں ؟ کیا اردو کا قاری زبان و بیان میں استناد اعتدال اور توازن کی شکایت کرنے کے حق سے صرف اس لئے دست بردار ہو جائے کیونکہ ہندی انگریزی اور عربی کے اخبارات میں بھی یہ غلطیاں ہوا کرتی ہیں؟ کیا تعصب اور طرفداری اور جانبداری عام ہوجانے کی وجہ کر جائز سمجھی جائے؟
جی ہاں فاروقی کو ہی نہیں ایک اردو قاری کو بھی ابکائی آتی ہے جب ایک اردو روزنامہ انسانی حقوق کی مجاہدہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے بعد ایک مضمون اس عنوان کے ساتھ شائع کر تاہے قادیانی خاوند، عیسائی داماد خود مذہب بیزار عاصمہ جہانگیر ۔ اور تب بھی مایوسی ہوتی ہے جب ایک اردو روزنامہ خبر چھاپتا ہے اردو کے فروغ کے لئے ایک انقلابی مہم کا آغاز۔ مگر پوری خبر پڑھنے کے بعد نہ انقلاب کا راستہ ملتا ہے نہ مہم کا پتہ۔
جو لوگ فاروقی صاحب کے حالیہ بیان کے حوالے سے اردو اخبارات اور اردو زبان کی حمایت کی آڑ لے کر ان سے اپنی عداوت کے درد کا درماں کر رہے ہیں۔ در اصل وہ اردو اخبار کے عام قارئین کی حمایت میں اٹھنے والی آواز کا گلا گھونٹنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھا نے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فاروقی مغرب زدہ، انگریزی زدہ اردو زبان کا دشمن ہے۔ اردو زبان کے نہیں بلکہ فاروقی پر اردو اخبارات کے احسانات ہیں۔ ہم قار ئین اردو کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فاروقی کو اردو اخبارات نے ہی شہرت دوام بخشا اور دیکھو یہ احسان فراموش نکلا۔
جہاں تک اس تنازعے میں شامل لوگوں کی رائے اور فاروقی صاحب کے خلاف مورچہ بند گروہ کی سوشل میڈیا پر توضیحات کا تعلق ہے فاروقی صاحب کے بیان کا ایک غیر علمی اور ان کی ذاتیات پر لا علم سا جائزہ ہے۔ ان میں مذمتی قسم کے الفاظ کی بھرمار کے ساتھ ساتھ اردو زبان، صحافت اور اردو ثقافت کے تئیں ان کے رویّے کو مشکوک ظاہر کرنے کی کو شش کی جارہی ہے۔ جو غیر معیاری اور نا مناسب زبان کے استعمال کا الزام ان پر لگایا جا رہا ہے اور کلیم عاجز صاحب کے اس شعر کے ذریعے گھیرنے کا کام کیا جا رہا ہے دراصل وہ خود اس کی زد میں ہیں:
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
کسی بھی بیان یا تقریر پر کوئی حتمی رائے دینے سے پہلے اس کے سیاق و سباق کی مناسبت سے اس کے پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ ساتھ مقرر کا موضوع کے ساتھ لگاؤ اور رشتے کو ضروری اہمیت دی جانی چاہئے۔ اور کسی گروہی منافرت میں سیاسی رویہ اختیار کرنے کی بجائے علمی جائزہ پیش کیا جانا چاہئے۔ میری سمجھ سے فاروقی صاحب کا بیان اردو اخبارات کی مخالفت میں نہیں ہے بلکہ اردو سے ان کی بے پناہ محبت و شفقت کا نتیجہ ہے کیونکہ ماضی میں بارہا انہوں نے نہ صرف اردو اخباروں کی زبان خبروں اور کالموں کے گرتے معیارات میں بہتری کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ اردو صحافت کو معیاری اور جدید صحافتی تقاضوں کے تحت استوار کرنے کے لئے صحافت کے اساتذہ و طلباء نیز اخبارات کے منتظمین سے بڑی مؤدبانہ گزارش بھی کی ہیں۔ جب اردو کے اس مجاہد کی گزارشات پر اردو صحافت نے اپنی ضد میں رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی تو انہوں نے اپنا فرض منصبی سمجھ کر اردو کے عام قارئین کو اس سے بعض رکھنے کے لئے یہ بیان دیا۔ انہیں بخوبی یہ معلوم تھا کہ کہ اردو صحافت کی تنقید میں جن الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ یقینا سخت اور کڑوے ہیں۔
پھر بھی انہوں نے اردو اخبارات کے عام قارئین کا خیال کرتے ہوئے اپنی طبیعت کو اس گرانی کی زحمت دی ہے۔ اور صحافت کے حل و عقد میں مرکزی کردار ادا کرنے والوں کو یہ موقع دیا ہے کہ اب بھی نہ سدھرے تو عام قاری اردو صحافت کی حفاظت کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکے گا۔ فاروقی صاحب کے ہم مشکور ہیں کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے۔ کیونکہ ہمارے پیسوں وقت اور توانائی کے عوض اردو میں مستند اور معتبر خبریں کالمز اور تجزیے پڑھنے کا ہمارا حق ہے۔
یہ مضمون پہلی بار 13جنوری 2018 کو شائع کیا گیا تھا۔