تمل ناڈو پولیس نے کہا کہ ڈی ایم کے کے تھرونینراور آئی ٹی ونگ کے سوریہ پرکاش نے شکایت درج کرائی ہے کہ اوپ انڈیا ڈاٹ کا ویب سائٹ جھوٹی خبریں پھیلا رہی ہے اورتمل ناڈو میں رہنے والے دیگر ریاستوں کے مزدوروں میں خوف کا احساس پیدا کر رہی ہے۔
(تصویر بہ شکریہ: opindia.com)
نئی دہلی: تمل ناڈو پولیس نے دائیں بازو کی ویب سائٹ اوپ انڈیا کے سی ای او اورمدیرپور شرما کے خلاف ریاست میں دوسری ریاستوں کے مزدوروں کے بارے میں ‘جھوٹی خبر پھیلانے’ کے الزام میں کیس درج کیا ہے۔ یہ معاملہ دارالحکومت چنئی کے قریب واقع تھرونینراور پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔
دی ہندو کے مطابق، پولیس نے کہا کہ ڈی ایم کے کے تھرونینراور آئی ٹی ونگ کے سوریہ پرکاش نے شکایت درج کرائی ہے کہ اوپ انڈیا ڈاٹ کام ویب سائٹ جھوٹی خبریں پھیلا رہی ہے اور تمل ناڈو میں رہ رہے دیگر ریاستوں کے مزدوروں میں خوف کا احساس پیدا کر رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ مقامی لوگوں اور دوسری ریاستوں کے لوگوں کے درمیان تصادم کا اندیشہ تھا۔
شکایت درج کروانے والے نے کہا ہے کہ یہ ٹوئٹر سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بڑے پیمانے پر نشر کیا گیا ہے۔ اس سے عام لوگوں کے درمیان امن وامان کا ماحول خراب ہو سکتا ہے۔
انہوں نے پولیس سے سی ای او راہل روشن اور مدیر نوپور شرما اور اوپ انڈیا سے وابستہ لوگوں کے خلاف ایسی جھوٹی خبریں نشر کرنے اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ شکایت کی بنیاد پر کیس درج کرکے تحقیقات کی جارہی ہے۔
معلوم ہو کہ گزشتہ ایک ہفتے سےتمل ناڈو میں شمالی ہندوستانی تارکین وطن کے ‘قتل’، انہیں ‘دھمکی’ دینے اور ان کے ساتھ ‘بربریت’ کی من گھڑت افواہیں پھیل رہی ہیں۔
نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق، اوپ انڈیا نے فرضی خبروں کی دیگر مثالوں میں دعویٰ کیا تھاکہ ‘ہندی بولنے والے دوسری ریاستوں مزدوروں کے خلاف طالبان کی طرز پر حملے کیے جا رہے ہیں۔’
اس معاملے میں ریاستی بی جے پی کے سربراہ کےاناملائی کے خلاف بھی ‘جھوٹے پیغامات’نشر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اتر پردیش میں
دینک بھاسکر اور بی جے پی کے ترجمان
پرشانت پٹیل امراؤ کے خلاف ‘جھوٹی خبریں پھیلانے’ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ چوتھا معاملہ
محمد تنویرنامی ٹوئٹر ہینڈل کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
تروپور نارتھ پولیس اسٹیشن نے دینک بھاسکر کے مدیر پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 505 (آئی) (بی) [عوام میں خوف پیدا کرنے کا ارادہ] کے تحت الزام لگائے ہیں۔
تروپور سائبر کرائم پولیس نے محمد تنویر پر بھی ان ہی دفعات کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 56(ڈی) کے تحت الزام لگائے ہیں۔
توتوکوڑی سینٹرل پولیس نے بی جے پی کے ترجمان پرشانت پٹیل امراؤ کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 (فساد برپا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کراکسانا)، 153اے، 504 (امن وامان کی خلاف ورزی کرنےکے لیے جان بوجھ کر توہین کرنا) اور 505 (عوام میں فساد پھیلانے والے بیانات) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
دینک بھاسکر نے خبر دی تھی کہ 15 بہاری مزدوروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں۔ انہوں نے یہاں تک الزام لگایا تھاکہ بہاریوں کو صرف ہندی بولنے کی وجہ سے تمل ناڈو میں ‘طالبان جیسے’ حملوں کا سامنا ہے۔
امراؤ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ ہندی بولنے والے مہاجر مزدوروں پر کئی حملے ہوئے ہیں۔ ان کا ٹوئٹ
کئی فرضی یا غیر متعلقہ ویڈیوز اور پیغامات کا حصہ تھا، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔
تمل ناڈو حکومت، پولیس اور صنعت کاروں نے بعد میں بیانات جاری کیے اور تارکین وطن مزدوروں سے ملاقاتیں کیں تاکہ ان کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی جا سکے۔ بہار کی ایک
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کوئمبٹور میں مہاجر مزدوروں سے بھی ملاقات کی ہے۔
حال ہی میں، ایک
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں ایک شخص کو ٹرین کے ایک پرہجوم ڈبے میں ہندی بولنے والے مہاجر مزدوروں کے ساتھ زبانی اور جسمانی طور پر بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں، مذکورہ شخص ہجرت کی وجہ سے تمل ناڈو کے باشندوں کے لیے روزگار کے مواقع کی کمی کے بارے میں بات کرتا ہے اور مزدوروں کو گھونسے اور تھپڑ مارتا ہے۔ ریلوے پولیس نے ملزم کی شناخت کر کے اسے گرفتار کر لیا ہے۔
اس ایک واقعہ کی روشنی میں تمل ناڈو میں تارکین وطن مزدوروں پر حملوں کے حوالے سے
گمراہ کن اطلاعات پھیلنے لگیں۔ کئی گمراہ کن خبروں کے بعد بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا تھا کہ انہوں نے بہار پولیس کو معاملے پر نظر رکھنے کو کہا ہے۔
تمل ناڈو کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) سلیندر بابو نے بہار کے ڈی جی پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی تشدد نہیں ہو رہا ہے۔ 2 مارچ کو ڈی جی پی نے ایک بیان جاری کرکے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ مہاجر مزدوروں پر کوئی حملہ نہیں ہوا ہے۔