کنگنا کے نام کھلا خط: اگر ماڈرن انڈیا نے ذات پات کو مسترد کر دیا ہے، تو اعلیٰ عہدوں  پر دلت کیوں نہیں ہیں

گزشتہ اتوار کو کنگنا رناوت نے ٹوئٹر پر ہندوستان میں ذات پات، ریزرویشن اورامتیازی سلوک کو لےکرتبصرہ کیا تھا۔

گزشتہ اتوار کو کنگنا رناوت نے ٹوئٹر پر ہندوستان  میں ذات پات، ریزرویشن  اورامتیازی سلوک  کو لےکرتبصرہ کیا تھا۔

کنگنا رناوت(فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@TeamKanganaRanautOfficial)

کنگنا رناوت(فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@TeamKanganaRanautOfficial)

ڈیئرکنگنا رناوت،

امید کرتی ہوں کہ آپ بالکل اچھی ہوں گی۔ کل میرے سامنے آپ کا ایک ٹوئٹ آیا، جس کو پڑھ کر بہت افسوس  ہوا۔میں شروعات میں آپ کوبےحد پسند کرتی تھی اور آپ کی تقریباًتمام فلمیں دیکھتی تھی۔ آپ کا چلبلا پن، ایکٹنگ، فلموں کا موضوع  کئی بار مجھے پسند آیا، لیکن شاید اصل زندگی میں آپ اس سے بالکل الگ ہیں۔

د ی پرنٹ کےبانی شیکھر گپتا نے اتوار کو ایک ٹوئٹ کیا تھا، جہاں انہوں نے سینئرصحافی دلیپ منڈل کا ایک مضمون شیئر کیا تھا۔ مضمون  میں اوپرا ونفرےکے ذریعے امریکہ کے 100 سی ای او کو ذات پات پر کتاب بھیجے جانے اور ہندوستان کے تناظر میں بات کی گئی تھی۔

آپ نے اس پرجواب دیتے ہوئے تین باتیں لکھی ہیں؛ پہلی، جدید ہندوستانیوں(ماڈرن انڈینس)نے ذات پات کے نظام(کاسٹ سسٹم)کو مسترد کر دیا ہے۔دوسری، گاؤں قصبوں میں بھی سخت قانون کے تحت کاسٹ سسٹم ناقابل قبول ہے…اور تیسری  اور سب سے ضروری بات آپ نے کہی کہ ہمارے آئین  نے ریزرویشن  کو پکڑا ہوا ہے۔

میں آپ سے انہیں باتوں  کے ارد گرد بات کروں گی۔ کنگنا جی، میں بھی دلت سماج سے آتی ہوں۔ اپنی فیملی ہی نہیں بلکہ خاندان کی پہلی لڑکی ہوں، جس نے ایم فل تک پڑھائی کی۔میرے گھر میں پڑھائی کا ماحول ہی نہیں تھا۔ میرے پاپا ممی مزدور تھے۔ ممی تو آج بھی مزدوری کرتی ہیں، چلچلاتی دھوپ میں سر پر مٹی پتھر کے تسلے اٹھاتی ہیں۔

دونوں ہی پڑھے لکھے نہیں تھے۔ لیکن ہمیشہ سے اپنے بچوں کو پڑھا لکھا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ جو کام انہوں نے کیا ہے، وہ کام ان کے بچوں کو نہ کرنا پڑے۔باوجود اس کے انہوں نے کبھی پڑھائی کے لیے فورس نہیں کیا۔کبھی ڈنڈا لےکر ہمارے پیچھے نہیں دوڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ پڑھائی کے لیے خود میں لگن ہونی چاہیے۔

ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔دھیرے دھیرے سب نے پڑھائی چھوڑ دی لیکن میں نے پڑھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ بچپن میں اپنے آپ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ جب تک پڑھائی کی سیڑھی ختم نہیں ہوگی، تب تک پڑھتی جاؤں گی، چاہے بالکل پاسنگ مارکس ہی کیوں نہ آئے۔لیکن اس وقت خود سے وعدہ کرتے ہوئے بھول گئی تھی کہ کتنا بھی پڑھ لوں، آگے چل کر ان سیڑھیوں میں دلت ہونے کی وجہ سے کانٹیں بچھے ہوئے ملیں گے۔

آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آج جو تعلیم میں حاصل کر پائی ہوں، وہ سب صرف ریزرویشن  کی وجہ سے ہی ممکن  ہو پایا ہے۔میں دہلی جیسے شہر میں پلی بڑھی ہوں، اس لیےریزرویشن کی اہمیت کو سمجھ پائی، اسی لئے اپناحق بھی لے پائی۔لیکن آج بھی لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو دلت/پسماندہ کمیونٹی کی وجہ سے پڑھنا تو دور اپنی بات بھی مبینہ اشرافیہ کے آگے نہیں رکھ پاتے ہیں۔ انہیں نہیں پتہ ریزرویشن اورتعلیم  ان کا بنیادی حق ہے۔

آپ نے یہ بھی کہا کہ جدید ہندوستانی ذات پات  کو مسترد کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں دہلی میں پلی بڑھی ہوں اور آپ کو شاید جان کر حیرانی ہوگی کہ میں نے ایک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ  میں نوکری کی، جہاں مجھے نسل پرست پروگریسو لبرل اور آپ کے مطابق  ماڈرن انڈینس ملے، جن کی وجہ سے میں اپنی نوکری کھو چکی ہوں کیونکہ میں ایک دلت ہوں۔

وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں ان کے برابر میں بیٹھ کر کام کروں اس لیے انہوں نے مجھے نکالنا ٹھیک سمجھا۔یہ صرف اس ادارے کی بات نہیں ہے بلکہ ہر جگہ، ہر شعبہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کہیں بھی آپ کو دلت او بی سی آدی واسی سماج کے لوگ اعلیٰ عہدوں  پر نہیں ملیں گے۔

ہاں، اگر کچھ جگہ ملیں گے تو وہ سرکاری اعدادوشمارہوگا، جہاں آج بھی ریزرویشن ہے اور ان کی مجبوری ہے ہمارے سماج کے لوگوں کو رکھنا کیونکہ ان کے لیے سیٹ ریزرو ہوتی ہے۔ وہاں بھی کئی بار چالاکی کر دی جاتی ہے، لیکن اس پر ابھی بات نہیں۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ ریزرویشن کا غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا آئین  کی وجہ سے ریزرویشن کے تحت آنے والے سماج نے اسے زبردستی پکڑ کر رکھا ہوا ہے، تو میں آپ سے جاننا چاہتی ہوں کہ کیا وجہ  ہے کہ سپریم کورٹ کے 31 ججوں میں میں آج بھی دلت سماج سے صرف ایک جج ہے، او بی سی کے دو اور ایس ٹی کا تو ایک بھی نہیں ہے۔

کیا وجہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں ایک بھی مدیر دلت سماج سے نہیں ہے۔

آپ نے کہا کہ ریزرویشن کی وجہ سے میریٹ والے ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ وغیرہ  کو کافی نقصان ہوتا ہے، لیکن کیا ان اعدادوشمار پر آپ کو غصہ نہیں آتا!اگر ہم سنیما کی ہی بات کریں، تو مجھے سنیما میں بھی کوئی بڑا نام یاد نہیں آتا جو اس سماج سے ہو۔ اب آپ اور آپ جیسےنسل پرفخر کرنے والے یہاں کہیں گے کہ کیا سنیما میں بھی ریزرویشن نافذ کروا دیں!

تو میں یہاں کہنا چاہوں گی کہ میں بھی چاہتی ہوں کہ ریزرویشن ختم ہونا چاہیے لیکن اس سے پہلے آپ اور آپ جیسے اشرافیہ  اپنی نسل  پر فخر کرنا تو چھوڑیں۔وہ لوگ، جو اپنی نسل پر فخر کرتے ہیں اور دوسروں کی نسل کو گالی بنا دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے نہ سلمان خان، شلپا شیٹی، سوناکشی سنہا اور یوراج سنگھ جیسے ماڈرن انڈینس ‘بھنگی’ جیسا دکھنا نہیں چاہتے۔

ان کے لیے بھنگی سماج کے لوگ آج بھی گالی بنانے کے کام آتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے جتنے نام میں نے گنائے ہیں وہ آپ کے مطابق ماڈرن انڈینس تو ہوں گے ہی…!اسی ذات پات  کی وجہ سے محکمہ جاتی قتل  ہو جاتے ہیں، جو سب کی نظروں میں خودکشی  ہوتی ہیں، لیکن اصل میں تو وہ اشرافیہ  کے ذریعے مرڈر کیا جاتا ہے، جیسے روہت ویمولا، پائل تڑوی… ان میں ایک نام میرا بھی ہونے جا رہا تھا۔

یہی‘ماڈرن انڈینس’ اس سماج کو پریشان کرنے میں کوئی موقع نہیں چھوڑتے، جو دلت اور پسماندہ ہیں۔آپ نے کہا کہ اب کاسٹ سسٹم قابل قبول نہیں ہے لیکن اسے بھی آپ تب سمجھ پاتی ہیں جب اپنے راجپوت ہونے پر فخر کرنا بند کر دیتیں۔ کیونکہ آج امتیاز کا طریقہ بدل گیا ہے۔

یہی فخروگھمنڈمیں غرق  رہنے والا سماج اس سماج کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، کھاتا پیتا ہے لیکن اس کے ساتھ اور اس کے نیچے کام نہیں کرنا چاہتا۔اگرغلطی سے کوئی وہاں تک پہنچ بھی جاتا ہے تو اسے نکالنے کی پوری سیاست شروع کر دی جاتی ہے۔کنگنا جی، کیا آپ نے کبھی پتہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیور صاف کرنے والوں کی ذات کیا ہوتی ہے؟

ویسے تو پتہ کرنے کی آپ کو یہاں ضرورت نہیں کیونکہ وہ سب ایک ہی سماج کے ہیں، لیکن کیا آپ کے من میں کبھی یہ سوال نہیں آیا کہ وہ سب ایک ہی سماج کے کیوں ہیں، کسی دوسرے سماج یا کسی اشرافیہ سماج کے کیوں نہیں؟کیوں ان کی موت پر بھی اس ماڈرن انڈیا اور ماڈرن انڈینس کے بیچ چپی رہتی ہے؟

اگر یہاں بھی آپ کو کچھ نظر نہیں آتا تو، آپ کو ایک بار اتر پردیش اور بہار گھوم کر آنا چاہیے۔ شاید آپ نے ڈوم سماج کا نام سنا ہو۔آج بھی ڈوم سماج کے لوگ گاؤں سے باہر رکھے جاتے ہیں۔ وہ گاؤں کے اندر تک نہیں آ سکتے، پھر کسی سے ملنا، بیٹھنا، کھانا پینا تو دور کی بات ہے۔

کیا وہ آج کے ماڈرن انڈیا میں فٹ نہیں بیٹھتے؟ ان کا کھانا پانی سب الگ ہوتا ہے۔اگر آپ نے تھوڑا سا پڑھا ہو اور اس سماج کو جاننے کی دلچسپی رہی ہوگی، تو آپ نے دیو داسی روایت کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ آپ ملاکرم (بریسٹ ٹیکس) کے بارے میں جانتی ہوں گی۔

ان میں پسماندہ کمیونٹی کی خواتین کو مندر میں بھیج دیا جاتا تھا اور وہاں ان کاجنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ملاکرم میں پسماندہ کمیونٹی کی عورتوں  کو اپنی چھاتی ڈھکنے کی اجازت نہیں تھی۔اگر کوئی خاتون  اسے ڈھکتی، تو اسے ٹیکس دینا ہوتا تھا۔ غور کیجئے، یہ سب اسی سماج سے آنے والی خواتین  کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔

حال ہی میں میں نے بابا صاحب امبیڈکر کی‘ویٹنگ فار اَ ویزا’ کتاب کی کہانیاں پڑھیں، جہاں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ان کی ذات کی  وجہ سے ان کی ڈگریوں، تجربے، قابلیت اورتعلیم، سب کو طاق پر رکھ دیا گیا۔لوگوں کو یاد رہی، تو صرف ان کی ذات، جس کی وجہ سے انہیں ایک نہیں بلکہ کئی بار ہراساں  کیا گیا۔ کیا آپ کو ان کی قابلیت پر بھی شک ہے؟

انہوں نے یہ سب بہت قریب سے دیکھا، تبھی وہ آئین میں ریزرویشن کا اہتمام کرکے گئے، نہیں تو آج جہاں تہاں جو ان کے سماج کے لوگ تعلیم  اور ریزرویشن کی وجہ سے دکھ بھی جاتے ہیں، وہ کبھی نا دکھ پاتے۔آپ نے کہا کہ گاؤں قصبوں میں سخت قانون کے تحت کاسٹ سسٹم  قابل قبول نہیں ہے۔

ویسے تو کافی کچھ اس بارے میں اوپر بتا ہی دیا ہے لیکن اگر آپ کو اب بھی یقین نہ ہو کہ ذات کی کھائی اس ملک میں کتنی گہری ہے تو یہ جاننے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی ہے۔آپ کو بس روزانہ کوئی بھی ایک اخبار اٹھاکر پڑھنا ہے۔ آپ کو روز کوئی ایک خبر تو مل ہی جائےگی کہ ذات کی وجہ سے کہیں کسی کو مار دیا، تو کہیں کسی کا ریپ کر دیا، کہیں ماب لنچنگ کر دی، تو کہیں مرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

میں نے ایسی کئی رپورٹ بھی کی ہیں، اگر آپ کہیں گی تو ان کے لنک آپ کو بھیج دوں گی کہ آپ دیکھیں کہ ذات  کی وجہ سے کسی کو کیا کیا کھونا پڑتا ہے۔جس سماج سے میں آتی ہوں، وہاں رہ کر تو یہی لگتا ہے کہ ہمیں اونچے سپنے دیکھنے کا کوئی حق نہیں۔میں بھی پڑھ لکھ کر اچھی جگہ نوکری کرنا چاہتی تھی۔ کچھ کرنا چاہتی تھی، لیکن مجھے اپنی ذات کی وجہ سے نوکری گنوانی پڑی۔

سب کے سامنے سچ بولنے کی ہمت کی، تو کہیں بھی نوکری نہیں مل رہی۔ پھر بھی میں نے آج بھی سچ کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔باوجود ان سب کے میں بابا صاحب کے آئین  پر یقین رکھتی ہوں کہ آج نہیں تو کل ضرور اچھا ہوگا۔ امیدکرتی ہوں کہ یہ سب جاننے کے بعد آپ اپنا نظریہ بدلیں گی۔

باتیں تو بہت ہیں، جو آپ کو بتانا چاہتی ہوں لیکن آج بس اتنا ہی۔ شکریہ۔

(مضمون نگار آزاد صحافی  ہیں۔)