آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے کے بعددہلی پولیس نے کہا تھا کہ اس ویب سائٹ کے ذریعے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کی مبینہ خلاف ورزی کی جانچ کی جا رہی ہے۔ ادارے پر بیرون ملک سے چندہ حاصل کرنے کا الزام تھا، جس کی اس نے تردید کی تھی۔
نئی دہلی: آن لائن پیمنٹ گیٹ وے ریزر پے نے جمعہ کو کہا کہ فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز صرف گھریلو پیمنٹ والا چندہ ہی قبول کر سکتی تھی اور ایف سی آر اے کے بغیر غیر ملکی لین دین کی اجازت نہیں تھی۔
ریزر پے کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب دہلی پولیس نے گزشتہ ہفتے ایک عدالت کو بتایا تھاکہ اس ویب سائٹ کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف اپنی جانچ میں آلٹ نیوز کے ذریعے فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ (ایف سی آرے) کی مبینہ خلاف ورزیوں کی بھی تفتیش کر رہی ہے۔
سال 2018 میں کیے گئے ایک ٹوئٹ کے ذریعے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے الزام میں 27 جولائی کو زبیر کو دہلی پولیس نےگرفتار کیا تھا۔
گزشتہ 2 جولائی کو دہلی پولیس نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش اورثبوت کوضائع کرنے اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت نئے الزامات شامل کیے ہیں۔ یہ الزامات انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے لیے تحقیقات میں مداخلت کا دروازہ کھولتے ہیں۔
ریزر پے کے شریک بانی اور سی ای او ہرشل ماتھر نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ان کے پیمنٹ گیٹ وے نے آلٹ نیوز کیس میں جانچ کے دائرے والے ‘صرف خصوصی ڈیٹا’ ہی تفتیشی افسران کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔
آلٹ نیوز کا نام لیے بغیرماتھر نے کہا، مجھے چل رہی جانچ کی وجہ سے اس سلسلے میں کوئی اور معلومات شیئر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ متعلقہ کاروبار کو صرف گھریلو پیمنٹ ہی قبول کرنے اجازت تھی۔ یہ چندہ ایف سی آر اے کی اجازت کے بغیربین الاقوامی لین دین کی اجازت نہ دینے کی ہماری پالیسی کے مطابق ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوموار (4 جولائی) کو ایک مخصوص مدت کے لین دین کا ڈیٹا شیئر کرنے کے لیے ایک تحریری نوٹس ریزر پے کوموصول ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قانونی مشورے کے بعد پولیس کے ساتھ اس نوٹس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
محمد زبیر کی گرفتاری کے بعد آلٹ نیوز پر غیر ملکی فنڈز لینے کا الزام لگا تھا ۔گزشتہ 4 جولائی کو فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز اور اس کے ادارے پراودا میڈیا فاؤنڈیشن نے ایک بیان جاری کرکے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
بیان میں کہا گیاتھا،ہمارا پیمنٹ گیٹ وے جس کے ذریعے ہم چندہ حاصل کرتے ہیں، وہ غیر ملکی ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ہمیں صرف ہندوستانی بینک اکاؤنٹس سے ہی چندہ ملا ہے۔
خبر رساں ایجنسی
پی ٹی آئی کے مطابق،ریزرپے کی جانب سے شیئر کیے گئے ڈیٹا پر تشویش کے بیچ انہوں نے کہا کہ جانچ ایجنسیوں کی درخواست کا مخصوص دائرہ صرف یہ طے کرنا ہے کہ کیاکوئی غیر ملکی چندہ لیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، اور اسی لیے عطیہ دہندگان کا پین، پتہ، پن کوڈ وغیرہ شیئر نہیں کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ یہ تحقیقات کے دائرہ کار سے باہر تھے۔
ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی شکایت پر محمد زبیر کی گرفتاری کے بعد آلٹ نیوز کے چندے کی جانچ ہو رہی ہے۔
آلٹ نیوز کے یہ کہنے پر کہ جانکاری کے اشتراک سے پہلے ان سے رابطہ نہیں کیا گیا تھا، ماتھر نے کہا کہ ریزر پے نےان کے رجسٹرڈ موبائل نمبروں پر رابطہ کیا تھا، لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں ان کے لیے فون پر بات کرنا مشکل ہو سکتا تھا اور ہم دوسرے ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کر سکتے تھے۔
تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی فرم کو 4 جولائی کو ایک مخصوص مدت کے لیے لین دین کا ڈیٹا فراہم کرنے کے لیےتحریری نوٹس موصول ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہمارا طریقہ کار ہے، ہم نے اس پر کئی قانونی ماہرین سے مشورہ کیا اور متفقہ طور پر طے کیا کہ ہمیں نوٹس پر عمل کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ صارفین کے نقصان کو روکنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیےریزر پے نےآلٹ نیوز کے کامرشیل اکاؤنٹ کو عارضی طور پر غیر فعال کر دیا ہے اور وہ تحقیقات کے مقصد کے بارے میں وضاحت کا انتظار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی ہمیں یہ وضاحت ملی، ہم نے فوری طور پر اس کے اکاؤنٹ میں پیمنٹ کو دوبارہ فعال کر دیا۔
معلوم ہو کہ محمد زبیر کو آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام) اور 153 (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت دہلی پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کیا تھا۔
زبیر کی گرفتاری 2018 کے اس ٹوئٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی ، جس میں 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا۔
زبیر کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر میں کہا گیاتھا کہ، ہنومان بھکت نامی ٹوئٹر ہینڈل سے محمد زبیر کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئےایک ٹوئٹ کو شیئر کیا گیا تھا ۔ اس ٹوئٹ میں زبیر نے ایک تصویرپوسٹ کی تھی۔ جس میں سائن بورڈ پر ہوٹل کا نام ‘ہنی مون ہوٹل’ سے بدل کر ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ زبیر نے ‘2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل… 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل…’ لکھا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)