دی کارواں کی رپورٹ میں مختلف صوبوں کے لوگوں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ 17 ستمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کی سالگرہ کے موقع پرکئی لوگوں کو کووڈ ٹیکہ کاری کاسرٹیفکیٹ ملا، جبکہ انہیں ٹیکہ پہلے لگا تھا۔ کئی لوگوں کو ٹیکے کی دوسری خوراک لینے کاسرٹیفکیٹ ملا جبکہ انہوں نے دوسری ڈوز لی ہی نہیں تھی۔
نئی دہلی: دی کارواں کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 17 ستمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کی سالگرہ کےموقع پر کوروناٹیکہ کاری میں ریکارڈ کے نام پر فرضی واڑہ کیا گیا۔
کارواں کے صحافیوں نے مختلف صوبوں کے لوگوں کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا کہ کئی لوگوں کو 17ستمبر کو کورونا ٹیکہ کاری کاسرٹیفکیٹ ملا جبکہ وہ ٹیکہ پہلے لگوا چکے تھے یا کئی لوگوں کو کورونا کی دوسری خوراک کا سرٹیفکیٹ ملا جبکہ اصل میں انہیں دوسری ڈوز لگی ہی نہیں تھی۔
اس سے پہلے ایسےالزامات کی جانچ اسکرول ویب سائٹ نے کی تھی۔ اسکرول نے خصوصی طور پر بتایا تھا کہ بہار میں کئی ٹیکہ کاری مراکز پر15 اور 16 ستمبر کو لوگوں کو ٹیکہ لگایا گیالیکن اس کے ڈیٹا کو 17 ستمبر کو کو-ون پورٹل پر اپ لوڈ کیا گیا۔
کو-ون پورٹل کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی سالگرہ کے موقع پر ملک میں2.5 کروڑ سے زیادہ کورونا کے ٹیکے لگائے گئے تھے لیکن 17 ستمبر سے اگلے سات دنوں کے اندر کورونا کے ٹیکے لگانے کی اوسط یومیہ تعداد کم ہوکر لگ بھگ 76 لاکھ ہو گئی۔ اس سے شبہ پیدا ہوا کہ 17ستمبر کو یا تو سپلائی یا پھر مانگ یا پھر دونوں میں کچھ گڑبڑ تھی۔
کارواں کے مطابق،حسین باجی کو 17 ستمبر کو کورونا ٹیکہ کاری کاسرٹیفکیٹ ملا جبکہ انہیں ٹیکہ لگایا ہی نہیں گیا۔ انہیں گجرات میں ان کے آبائی شہر داہود کے ایک ٹیکہ کاری مرکز سے سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔
باجی نے کہا، ‘یہ عجیب ہے۔ کیا مجھے دوسری ڈوز وڑودرا میں لگی تھی لیکن سرٹیفکیٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری ڈوز میرے آبائی شہر داہود میں لگی لیکن میں وہاں تھا ہی نہیں۔’
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جان پہچان والے سات سے آٹھ لوگوں کی بھی یہی حالت ہے۔
@pkumarias@Bhupendrapbjp@CMOGuj@InfoGujarat@JunagadhGog @collectorjunag
Dear sir,
To bring this at your knowledge while i was at my home yesterday i got two massages stating that -"dear sir your second dose of covishild has been successfully given on date 17.08.2021" conti. pic.twitter.com/vEQtBu5Oob— Tushar Vaishnav (@VaishnavTushar8) September 18, 2021
گجرات کے کیشود میں رہنے والے تشار ویشنو اور ان کی بیوی کو 17ستمبر کو رات آٹھ بجے ایک میسیج ملا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں کورونا کی دوسری ڈوز لگ چکی ہے۔
ویشنو نے کارواں کو بتایا،‘شروعات میں مجھے لگا کہ یہ غلطی سے ہوا ہوگا لیکن جب میں نے ہم دونوں کے نام سرٹیفکیٹ پر دیکھے تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔’
یہ سرٹیفکیٹ ان کے گھر سے لگ بھگ 25 کیلومیٹر دور ایک ٹیکہ کاری مرکز سے جاری کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اتنی دور ٹیکہ کاری مرکزپر جاکر ٹیکہ لگواناناممکن ہے۔
ویشنو نے بتایا کہ وہ انتظامیہ سے سوال وجواب کرنے 18ستمبر کو ٹیکہ کاری مرکز گئے تھے۔ وہاں پر اسی شکایت کے ساتھ پانچ دوسرے لوگ بھی آئے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘مرکز میں موجود ایک نرس نے ان کی شکایت پر کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ اس کے بجائے نرس نے مبینہ طور پر انہیں بیٹھنے کو کہا اور بنا کسی ڈیٹا انٹری اور ان کا آدھار کارڈ دیکھے انہیں کورونا ڈوز لگا دی۔’
ایک دوسرے معاملے میں بہار کے ہلسہ کے رہنے والے راجو کمار کو 15 ستمبر کوپرائمری ہیلتھ سینٹر سے فون آیا، جس میں کہا گیا کہ وہ اس ہفتے کسی بھی وقت آکر کورونا کی دوسری ڈوز لگوا سکتے ہیں، لیکن کارواں کے مطابق، 17 ستمبر کو دوپہر لگ بھگ 3.30 بجے کمار کو ایک نوٹیفیکیشن ملا کہ کامیابی کے ساتھ انہیں کورونا کی دوسری ڈوز لگ چکی ہے اور وہ اپنا سرٹیفکیٹ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
اس سے حیران راجو کمار نے جب ٹیکہ کاری مرکز کوفون کیا تو انہیں چپ رہنے اور جب چاہے ٹیکہ لگوانے کے لیےمرکز آنے کو کہا گیا۔
کارواں کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ ٹیکہ کاری مراکز کو ٹریک نہیں کر سکے اور نا ہی وزارت صحت نے ان کے سوالوں پر کوئی ردعمل دیا ہے۔
ان رپورٹوں پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو‘مطمئن’کرنےکے لیےمرکز اور ریاستی سرکاروں نے ڈیٹا میں ہیرپھیر کی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک دن میں کورونا ڈوز کی تعداد میں اضافہ اور بعد میں کورونا کے ٹیکوں کی تعداد میں غیرمتوقع گراوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فرضی ڈیٹا دکھانے کے لیےکورونا ڈوز کے ریکارڈ کی جمع خوری کی گئی۔
مثال کےطورپر21 جون کو انٹرنیشنل یو گا ڈےپر سرکاری افسروں نے ملک بھر میں 86 لاکھ کورونا ڈوز لگائی گئی لیکن بعد میں ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن سے پتہ چلا کہ بی جے پی مقتدرہ صوبوں میں کچھ دن پہلے ہی ٹیکہ کاری کی رفتار کوسست کر دیا گیا تھا تاکہ 21 جون کو اس میں غیرمتوقع اضافہ دکھائی جا سکے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)