آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے مسلم کمیونٹی سے کہا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مقامی باشندوں (نیٹو) جیسا سلوک کیا جائے تو انہیں آسامی ثقافت پر عمل کرنا چاہیے۔ مقامی باشندہ ہونے کے لیے وہاں کے کلچر کو قبول کرنا ہوگا۔
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سوموار کو آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کی طرف سے مسلم کمیونٹی کے حوالے سے ان کے ‘مقامی باشندے’ (نیٹو/انڈیجینس) والے تبصرے کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ‘تعصب اورنسل پرستی کا کھلا مظاہرہ’ ہے۔
اویسی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ، ‘بنگالی بولنے والے مسلمان پہلے سے ہی ہندوستان کے ‘مقامی باشندے’ ہیں۔ وہ ان سے مسلسل وفاداری کا ثبوت مانگنے والے کوئی نہیں ہوتے۔ یہ محض ‘تعصب اور نسل پرستی کا کھلا مظاہرہ’ ہے۔
ہندوستان ٹائمز رپورٹ کے مطابق، اویسی کا تبصرہ ہمنتا بسوا شرما کے اس بیان کے ایک دن بعد آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کو خود کو مقامی کہنے والے سے کسی شخص سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، جب تک کہ وہ چائلڈ میرج پر پابندی نہیں لگاتے، ایک سے زیادہ شادی نہیں کرتے،اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیےان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس طرح کے دیگر اصول جو وسیع آسامی معاشرے کا حصہ ہیں۔’
شرما آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) ناگاؤں لوک سبھا امیدوار امین الاسلام کے ایک حالیہ بیان پر ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تقسیم سے قبل بڑی تعداد میں بنگالی بولنے والے مسلمان آسام میں بس گئےتھے اور انہیں صوبے کا مقامی باشندہ مانا جانا چاہیے۔
انہوں نے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مقامی باشندوں جیسا سلوک کیا جائےتو وہ آسامی ثقافت کی پیروی کریں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘میں نے ہمیشہ تارکین وطن مسلمانوں سے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو ان کے مقامی ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن انہیں دو یا تین بار شادی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ آسامی لوگوں کا رواج نہیں ہے… آپ کو 11-12 سال کی لڑکیوں کی شادی کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ آپ کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے لیے داخلہ کروانا چاہیے، نہ کہ کسی مدرسے میں۔ مقامی ہونے کے لیے یہاں کے کلچر کو قبول کرنا ہوگا۔’
ایک مثال دیتے ہوئے شرما نے کہا، ‘ہندو، مسلمان، آسامی ہندو، آسامی مسلمان – چاہے وہ شنکر دیو کی پیروی کریں یا نہ کریں، وہ سب ان کا احترام کرتے ہیں۔’
آسام کے مسلمانوں کے حوالے سے ہمنتا بسوا کے تبصرے پر اویسی بولے – تعصب اورنسل پرستی کا کھلا مظاہرہ
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے مسلم کمیونٹی سے کہا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مقامی باشندوں (نیٹو) جیسا سلوک کیا جائے تو انہیں آسامی ثقافت پر عمل کرنا چاہیے۔ مقامی باشندہ ہونے کے لیے وہاں کے کلچر کو قبول کرنا ہوگا۔
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سوموار کو آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کی طرف سے مسلم کمیونٹی کے حوالے سے ان کے ‘مقامی باشندے’ (نیٹو/انڈیجینس) والے تبصرے کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ‘تعصب اورنسل پرستی کا کھلا مظاہرہ’ ہے۔
اویسی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ، ‘بنگالی بولنے والے مسلمان پہلے سے ہی ہندوستان کے ‘مقامی باشندے’ ہیں۔ وہ ان سے مسلسل وفاداری کا ثبوت مانگنے والے کوئی نہیں ہوتے۔ یہ محض ‘تعصب اور نسل پرستی کا کھلا مظاہرہ’ ہے۔
ہندوستان ٹائمز رپورٹ کے مطابق، اویسی کا تبصرہ ہمنتا بسوا شرما کے اس بیان کے ایک دن بعد آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کو خود کو مقامی کہنے والے سے کسی شخص سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، جب تک کہ وہ چائلڈ میرج پر پابندی نہیں لگاتے، ایک سے زیادہ شادی نہیں کرتے،اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیےان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس طرح کے دیگر اصول جو وسیع آسامی معاشرے کا حصہ ہیں۔’
شرما آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) ناگاؤں لوک سبھا امیدوار امین الاسلام کے ایک حالیہ بیان پر ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تقسیم سے قبل بڑی تعداد میں بنگالی بولنے والے مسلمان آسام میں بس گئےتھے اور انہیں صوبے کا مقامی باشندہ مانا جانا چاہیے۔
انہوں نے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مقامی باشندوں جیسا سلوک کیا جائےتو وہ آسامی ثقافت کی پیروی کریں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘میں نے ہمیشہ تارکین وطن مسلمانوں سے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو ان کے مقامی ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن انہیں دو یا تین بار شادی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ آسامی لوگوں کا رواج نہیں ہے… آپ کو 11-12 سال کی لڑکیوں کی شادی کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ آپ کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے لیے داخلہ کروانا چاہیے، نہ کہ کسی مدرسے میں۔ مقامی ہونے کے لیے یہاں کے کلچر کو قبول کرنا ہوگا۔’
ایک مثال دیتے ہوئے شرما نے کہا، ‘ہندو، مسلمان، آسامی ہندو، آسامی مسلمان – چاہے وہ شنکر دیو کی پیروی کریں یا نہ کریں، وہ سب ان کا احترام کرتے ہیں۔’