آج کے فرنج کل کے بڑے لیڈر ہیں …

نوپور شرما اسی طرح کھیل رہی تھیں جس طرح انہیں سکھایا گیا تھا۔ ماضی میں انہیں یا بی جے پی کی جانب سے بولنے والے ان کے کسی بھی ساتھی کو کبھی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد تبصروں کے لیے سرزنش نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کی نظر میں آنے کا اچھا طریقہ رہا ہے۔

نوپور شرما اسی طرح کھیل رہی تھیں جس طرح انہیں سکھایا گیا تھا۔ ماضی میں انہیں یا بی جے پی کی جانب سے بولنے والے ان کے کسی بھی ساتھی کو کبھی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد تبصروں کے لیے سرزنش نہیں کی گئی۔  ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کی نظر میں آنے کا اچھا طریقہ رہا ہے۔

نوپور شرما کی گرفتاری کے سلسلے میں  کولکاتہ میں منعقد ایک مظاہرہ ۔ (تصویر: رائٹرس)

نوپور شرما کی گرفتاری کے سلسلے میں  کولکاتہ میں منعقد ایک مظاہرہ ۔ (تصویر: رائٹرس)

نوپور شرما نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ آخران سے کیا خطا ہوئی ؟ ایک دوستانہ  چینل پر، وہ اپنے جانے پہچانے اور جارحانہ انداز میں تھیں۔ اس وقت بھی جب الگ رائے رکھنے والوں کی  اینٹ سے اینٹ بجا رہی تھیں، اور اس وقت بھی جب انہیں لگا کہ مسجد کے اندر مبینہ طور پرملے شیولنگ کو محض ایک فوارہ  کہے جانے سے ‘مہادیو’ (ہندو دیوتا شیو) کی توہین ہوئی ہے۔

انہوں نے وہی کیا جو کسی اور بی جے پی ترجمان نے کیا ہوتا – اسلام کے بانی اور پیغمبر محمد پر حملہ۔

کسی اور وقت نہلےپر دہلا مارنے کے لیے انہیں مبارکباد دی جاتی۔ ٹیلی ویژن پر اپنے بیان کے چند دن بعد، جب تک کہ سفارتی ردعمل سامنے نہیں  آئے تھے، انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ بی جے پی ہائی کمان نے ان کے ساتھ کھڑے رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے، شرما نے بتایا کہ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے انہیں فون کیا اور کہا کہ، بیٹا فکر نہ کرو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

اس صورتحال میں وہ اپنی معطلی پر حیران ہو سکتی ہیں۔

اپنے اوپر شک کرنا ان لوگوں کی خصوصیت نہیں ہوتی ،جن  کو اپنے مقاصد کی پاکیزگی پر یقین ہوتا ہے اور مسلمانوں کے تئیں نفرت میں ڈوبے ہوئے ہندوتوادی  تعصب کے عروج پر  ہوتے ہیں۔ اسی لیے شرما نے جو معافی مانگی، وہ بھی  ان کے بگڑے بول کو جائز ٹھہرانے والی تھی۔ بی جے پی کو بھی اپنے بیان میں ‘اسلام’ یا ‘پیغمبر’ لفظ کا استعمال کرنا کچھ زیادہ ہی مشکل لگا۔ اس کے بجائے پارٹی نے بس ان سے اور نوین جندل سے جان چھڑا لی۔

نوپور کے تذبذب کو سمجھا جا سکتا ہے – وہ صرف وہی کھیل کھیل رہی تھیں جو انہیں سکھایا گیا تھا اور ماضی میں انہیں یا بی جے پی کی جانب سے بولنے والے ان کے کسی بھی ساتھی کو کبھی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد تبصروں کے لیے کبھی سرزنش نہیں کی گئی۔ اصل میں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کی نظر میں آنے کا اچھا طریقہ رہا ہے۔ہو بھی کیوں نہ  کہ  ماضی میں  وزیراعظم تک نے شمشان اور قبرستان کی بات کی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اس سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔

اسٹوڈنٹ لیڈر رہیں نوپور شرما، جو اروند کیجریوال کے خلاف اسمبلی الیکشن میں اتری تھیں  اور اس کے بعد جنہیں قومی ترجمان بناکر میڈیا کا اسٹار بنا دیا گیا،  کو بھی ایسا ہی یقین رہا ہوگا۔ اب انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے، اور فرنج قرار دیا گیا ہے۔یہ یقینی طور پر تکلیف دہ  بات ہے۔

لیکن ایک بات ہے، جو انہیں اور ان  کی حمایت کرنے والے ہر شخص کو سمجھنی چاہیے۔ اس ملک کے بے سہارا مسلمانوں پر حملہ کرنا اور بات ہے جنہوں نے اپنی بڑی آبادی کے باوجود غلامی کو قبول کر لیا ہے اور اسلام کی سب سے محترم شخصیت کے بارے میں توہین آمیز کلمات ادا کرنا بالکل دوسری بات ہے۔

پہلی صورت میں، عربوں سمیت عالمی برادری مداخلت نہیں کرے گی، چاہے وہ اسے بالکل ناپسند کیوں نہ کریں، کیونکہ یہ ہندوستان کا ‘اندرونی معاملہ’ ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب یا قطر کے  ایک بیان کو بھی ہندوتوا گروپس لپک لیں گے اور ہندوستانی مسلمانوں کو بیرون ملک سے مل رہی حمایت کے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے۔

لیکن پیغمبر کے خلاف شخصی طور پرتبصرہ کرنا لکشمن ریکھا کو پار کرنے والا ہے جسے دنیا کا کوئی مسلمان برداشت نہیں کرے گا۔ پھر یہ داخلی معاملہ نہیں رہ جاتا، لیکن ایک تہذیبی سوال کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اگر یہ محض ایک شخص کا بیان ہوتا تو اہل عرب اس سے ناراض ہونے کے باوجود اسے زیادہ طول نہ دیتے۔ لیکن جب بیان دینے والا حکمران جماعت کا کارکن ہو، وہ بھی ترجمان کے عہدے پر ہو، تو یہ سفارتی جہت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے میں ان کا ردعمل بالکل بھی حیران کن نہیں تھا۔

بی جے پی اور اس کے مغرور لیڈروں کو اس بات سے صدمہ ضرور پہنچے گا کہ سفارتی طور پر رد عمل ظاہر کرنے والا پہلا ملک چھوٹا ساقطر تھا۔ اس سے قبل وہاں کے شہریوں نے ٹوئٹر پر اپنے غصے کا اظہار کیا تھا اور کچھ سپر مارکیٹوں نے ہندوستانی مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ اس وقت ہندوستان کے نائب صدر وینکیا نائیڈو قطر کے دورے پر تھے اور ان کے دورے کے دوران ہی ہندوستانی سفیر کو طلب کیا گیا تھا۔ یہ واضح طور پر انتہائی  توہین آمیز تھا۔

سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا، جلد ہی انڈونیشیا اور مالدیپ جیسے ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے۔ یہ ایک بہت بڑے بحران میں تبدیل  ہوگیا – اور یہ سب بی جے پی کے ترجمان کے ایک غیر سنجیدہ تبصرہ کی وجہ سے ہوا۔

یہ معاملہ انتہائی  اہم سوال اٹھاتا ہے – کہ اگر مغربی ایشیائی ممالک بہت شدید لہجے میں احتجاج نہ کرتے تو کیا بی جے پی اس وقت بھی نوپور شرما اور نوین جندل کو معطل کر دیتی، یا ان کے کان کھینچ لیتی؟

کیا ہوتا اگر ان کے تبصرے خلیجی ممالک کے علم میں نہیں  آتے اور اس پر وہاں کوئی ردعمل سامنے نہ آتا! کیا بی جے پی اس بات کی پرواہ کرتی کہ ان الفاظ سے کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو تکلیف پہنچی ہے اور اس کے لیے نوپور شرما کو خبردار کرتی؟ یا وہ ان  کی تذلیل پر خوش ہوتی؟

ماضی میں بی جے پی کے ریکارڈ کو دیکھیں تو اس نے شاید ہی ہندوستانی مسلمانوں کے ناراض یا غمگین ہونے کی پرواہ کی ہوتی۔ یہ اس کا بنیادی مقصد ہے اور نوپور شرما کو ان کے کام کو اچھے طریقے سے انجام دینے پر مبارکباد دی گئی ہوتی۔

 ماضی میں نفرت کے کاروباریوں کو ترقی کی سوغات  دی گئی  ہے۔ تیجسوی سوریہ اورمبینہ غداروں کو ‘گولی مارو’ کا نعرہ دینے والے انوراگ ٹھاکر اس کی اچھی مثال ہیں۔ ٹھاکر کو وزارتی عہدے کا انعام ملا۔ دیپیکا پڈوکون کو ایک فلم میں ان کےکردار کے لیے سر قلم کرنے کا فتویٰ دینے والے سورج پال امو ترقی پا کر ہریانہ بی جے پی کے ترجمان بن گئے۔

یہ سب زیادہ  بڑے اور بہتر مقام پر پہنچ چکے ہیں۔گزشتہ کل کےفرنج   ناگزیر طور پر آج اور آنے والے کل کے رہنما بنتے ہیں۔ نوپور شرما کے کیریئر کا سفر بھی زیادہ آسان ہو سکتا تھا۔ لیکن اس کے بجائے وہ آنکھوں کی کرکری  بن گئی ہیں۔

عین اسی وقت، ہندوتوا کے کارخانے کے کچھ طبقوں، جیسے وشو ہندو پریشد، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ماؤتھ آرگن  دی ویکلی آرگنائزر اور ٹرول اور مذہبی محافظوں کی ایک بڑی تعداد میں نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ ایسے بہت سے آن لائن گروپس ابھرے ہیں جہاں ان کی کھل کر حمایت کی جارہی ہے اور نریندر مودی کو عربوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر لعنت ملامت کی گئی ہے۔

اگر ان تنظیموں اور افراد کو اس معاملے کو زندہ رکھنے کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس سے ہدایات مل رہی تھیں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی عوامی طور پر شرما سے دوری اختیار کرنے میں ایماندار نہیں تھی۔ اگر شرما کی حمایت کرنے والے عناصر اپنے طور پر کام کر رہے ہیں اور وہ آزاد کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں، تو یہ سنگھ کی قیادت کے لیے بڑی تشویشناک  بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ایسی آزاد طاقتوں یعنی نان اسٹیٹ ایکٹرس کا ظہور ہوگیا ہے، جو بی جے پی سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت ان کے لیے ایندھن کا کام کررہی ہے اور انہیں کوئی چیزنہیں روک سکتی۔ انہیں سفارتی تقاضوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور اگر وہ اسی طرح آگے بڑھتےرہے تووہ  ملک میں خلفشار کو جنم دے سکتے ہیں۔ بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوتوادی  پریوار نے جس نفرت سے بھرے شیطان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، وہ  اب اپنی زندگی کے لیے اس پر  منحصر نہیں رہے اور وہ اس کے قابو سے باہر ہے۔

(اس مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)