این ایس اے کے دعوے کے مطابق ،اگر آرٹیکل 370 پر کشمیر کے لوگ پوری طرح سے حکومت کے ساتھ ہیں، تو ان کے رہنماؤں کے بڑے جلسے کو خطاب کرنے کے امکان سے حکومت کو ڈر کیوں لگ رہا ہے؟
نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر(این ایس اے) اجیت ڈوبھال نے گزشتہ دنوں وزیر اعظم دفتر میں کشمیر کے حالات کے بارے میں میڈیا کو جانکاری دی۔ اس کو میڈیا کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس پروگرام سے جڑی خبروں میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ ان سے اگر سوال پوچھے بھی گئے، تو وہ کیا تھے اور کس کے ذریعے پوچھے گئے تھے۔دیگر چیزوں کے علاوہ این ایس اے نے یہ دوہرایا کہ جموں و کشمیر ریاست کو لےکر مرکز کے فیصلے’ایک انٹرنل سسٹم ‘ کا حصہ ہیں۔
یہ بات کسی سے چھپی نہیں رہ سکی کہ یہ میڈیا بریفنگ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے کشمیر میں’بڑے پیمانے پر لوگوں کو حراست میں لینے’کو لےکر تشویش کے اظہار کے ٹھیک بعد ہوئی۔ اس بیان میں امریکہ کے ذریعے حکومت ہند سے حقوق انسانی کے احترام کی بھی اپیل کی گئی۔یہ سوال پوچھا جانا بنتا ہے کہ ایک طرف جب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ کشمیر میں حالات ہمارا ‘اندرونی معاملہ ‘ہے، تب ایک طرح سے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بیان کے بعد وہ اپنی پوزیشن کو واضح کرنے کے لئے پریشان کیوں تھی؟
یہاں ایک تضاد توجہ کے قابل ہے۔ ایک طرف تو حکومت کشمیر کے حالات کا ‘نٹرنل سسٹم ‘ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے، دوسری طرف این ایس اے کا یہ کہنا ہے کہ کشمیر کے حالات اور اس کا مستقبل پوری طرح سے پاکستان کے رویے پر منحصر کرتا ہے۔سوال پوچھا جا سکتا ہے؛آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو حکومت یہ جرأت مندانہ دعویٰ کرے کہ اس نے پاکستان کو الگ تھلگ کر دیا ہے اور اس کی ہر طرح سے کمر توڑ دی ہے وہیں دوسری طرف حکومت ہند خودہی کشمیر کے حالات کو طے کرنے میں پاکستان کو فیصلہ کن رول دے؟
این ایس اے کا یہ دعویٰ ہے کہ کشمیر میں ‘اکثریت’پوری طرح سے آرٹیکل 370 کو کھوکھلا کرنے کے فیصلے کی حمایت میں ہیں۔ اگر ایسا ہے کہ تو سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کو بنا کسی الزام کے اتنے لمبے عرصے سے حراست میں رکھنے کی وضاحت کیسے دی جا سکتی ہے؟اگر کشمیری پوری طرح سے حکومت کے ساتھ ہیں، تو ان کے رہنماؤں کے بڑے جلسے کو خطاب کرنے کے امکان سے حکومت کو ڈر کیوں لگ رہا ہے؟ این ایس اے نے کہا، ‘ہم سیاستدانوں کو بڑے اجلاس کو خطاب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔
یہ بات بعید از فہم ہے کہ آخر جب ‘اکثریت’آرٹیکل 370 کو کمزور کرنے کی حمایت میں ہیں تو پھر کیسے’اس صورت حال کا استعمال دہشت گردوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے ‘؟ نہ ہی یہ دعویٰ بھی کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں نے پہلی بار ریاست میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کی ہے۔این ایس اے نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ‘کشمیری عوام کو 70 سالوں سے ان کے جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔’یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ جب حکومت ہند کے ذریعے اٹھائے گئے اقدام کو ‘اکثریت کی حمایت حاصل ہے ‘ تب کشمیریوں کے’جمہوری حقوق ‘کی بحالی کے اعلان کے ساتھ کشمیری سیاستدانوں، سیاسی کارکنان اور کاروباریوں کو اس طرح سے حراست میں لینے کی کیا ضرورت ہے۔
یہ بھی عجیب ہے کہ ایک طرف تو حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ‘اکثریت’آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے فیصلے کی’حمایت’میں ہے، لیکن دوسری طرف یہ حمایت اتنی نازک بھی ہے کہ حکومت کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ کشمیر کی تالابندی ختم کرنے اور حقوق انسانی کی بحالی کی صورت میں کشمیر کے اندر پاکستان بدامنی پھیلانے، اکسانے، ڈرانے اور دھمکانے کا کام کر سکتا ہے، جس سے اس کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔این ایس اے نے یہ صاف کیا ہے کہ ‘پبلک آرڈر اور شہریوں کی حفاظت کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ‘
ایسے میں یہ سوال اٹھنا ضروری ہے کہ آخر جب 70 سالوں کے بعد کشمیریوں کے ‘جمہوری حقوق کی بحالی کر دی گئی ہے، جس سے ان کو اب تک محروم رکھا گیا تھا اور پاکستان کی حیثیت میں گراوٹ آنے کا بار بار دعویٰ کیا جاتا ہے-جو ہندوستان کو چیلنج دینے یا عالمی رائےعامہ کو متاثر کرنے کی اس کی صلاحیت، دونوں سطحوں پر ہے-تب کشمیر کی تالابندی کی کیا ضرورت ہے؟این ایس اے نے میڈیا کو جو بتایا، اس سے یہی پیغام ملتا ہے کہ کہ ہندوستان کو پہلے کے کسی بھی وقت کے مقابلے میں آج پاکستان سے زیادہ خطرہ ہے-اور یہ اس پوائنٹ تک آ گیا ہے کہ حکومت کا کشمیر پالیسی پوری طرح سے پاکستان کے اچھے ‘سلوک’پر منحصر ہے۔
ریاست کی غیر معمولی تالابندی، اصل میں سرکاری اقدام کو کشمیریوں کی وسیع حمایت کے این ایس اے کے دعوے سے میل نہیں کھاتی۔ کشمیر کو لےکر پاکستان کے الزامات کا اس سے اچھا کوئی جواب نہیں ہو سکتا تھا کہ وہاں کے لوگوں اور سیاسی رہنماؤں کو بڑی تعداد میں باہر آکر ایک سُر میں آرٹیکل 370 کو کمزور کرنے کی حمایت میں کھلکر بولنے دیا جاتا۔اس سے ایک شفاف اور جمہوری ملک کے کام کاج میں مداخلت کرنے کے لئے پاکستان کو شرمندہ کرنے میں بھی مدد ملتی-ایسا کرکے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور یورپی یونین کے رہنماؤں کے ذریعے کشمیر کو ‘دو طرفہ معاملہ ‘ قبول کرنے کے بعد بھی، ظاہر کی گئی تشویش کو دور کرنے میں بھی مدد ملتی۔
غور طلب ہے کہ کشمیر کو ‘دو طرفہ معاملہ’قبول کرنے کے بعد بھی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور یورپی یونین نے اپنے اندرونی معاملے سے نمٹنے کے ہندوستان کے طریقے کے حقوق انسانی کو لےکر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کل ملاکر این ایس اے نے میڈیا کو جو بتایا، وہ ایسے تضادوں سے پُر ہیں جن کا جواب نہیں ہے اور اس سے وہ تشویش دور نہیں ہوئیں، جس کی امید ان کو رہی ہوں گی۔
ڈوبھال کا کہنا ہے کہ حالات جلدہی’نارمل’ہو جائیںگے۔ لیکن سوال بنتا ہے کہ جب لوگ اصل میں آرٹیکل 370 کو کمزور کئے جانے کی حمایت میں ہیں ہی، تو پھر کس حالت کو ‘نارمل’ کئے جانے کی ضرورت ہے؟اس سے بھی آگے، اگر صرف پاکستان ہی قصوروار ہے، تو حکومت ہند اپنے اس مشکل پڑوسی کو کتنی جلدی صحیح راستے پر لے آنے کی امید کر رہی ہے، تاکہ کشمیری آخرکار اس کی شیطانیت سے محفوظ ہو سکیں۔
لوگوں کے تحفظ کے لئے وادی کی تالابندی کچھ ایسی ہی ہے جیسے کسی ظالم و جابر حملہ آور کے ڈر سے شہر کی تمام عورتوں کو قید کر دیا جائے۔یہ بات کافی مشکوک ہے کہ کشمیر کی عوام-جن کے مرکز کے ذریعے ان پر، ان کی خودداری اور ہندوستان یونین میں ریاست کے انضمام کے دوران ان کے ساتھ کئے گئے قرار میں ان کے یقین پر، تھوپی گئی تبدیلیوں میں کوئی کردار نہیں تھا-وہ معاملے کو اسی نوآبادیاتی-پدری نظام کی روشنی میں دیکھتی ہے، جیسا محافظ کے کردار میں حکومت ہند ان کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
زیادہ تر خواتین کی طرح کشمیری بھی اپنے ‘ جمہوری ‘ اور دانشوارانہ حقوق کا استعمال کھلکر کرنا چاہیںگے، نہ کہ محفوظ جگہوں پر قید ہوکر رہنا۔ایسے میں جبکہ ہندوستان کی معیشت بحران نہ سہی، مگر ایک سُست دور کی طرف بڑھ رہی ہے-ایسا لگتا ہے کہ مانو جی ڈی پی 5 فیصد پر گرنے کے لئے 5 ٹرلین امریکی ڈالر کی معیشت کے ہدف کے اعلان کا ہی انتظار کر رہی تھی-حکومت لمبے عرصے تک کشمیر جیسے مسائل پر جرأت کے ساتھ ڈٹے رہنے میں پریشانی محسوسکر سکتی ہے۔
کشمیر ایک’انٹرنل ‘یا ‘دو طرفہ’ معاملہ ہو سکتا ہے، مگر دنیا کی اس پر نظر ہے اور نمائشی تصویروں سے ان کو رضامندی میں سر ہلانے کے لئے شاید ہی منایا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔)