رواں سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے شکار ریڈی میڈ کپڑوں کے تاجرنثار احمد نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر کے الزام لگایا ہے کہ پولیس ان کی شکایت پر مناسب کارروائی نہیں کر رہی ہے اور ملزمین کی جانب سے ان کو ڈرایا- دھمکایا جا رہا ہے۔
نئی دہلی: شمال-مشرقی دہلی فسادات کے شکارریڈی میڈ کپڑوں کے ایک تاجر نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکےالزام لگایا ہے کہ دہلی پولیس مناسب ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے اور ان پر شکایت واپس لینے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔تاجر کی شکایت میں مقامی بی جے پی کونسلر کنہیا لعل پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
رواں سال کے فروری مہینے میں دہلی میں ہوئے فسادات میں شرپسندوں نے بھاگیرتھی وہار کے نثار احمد کے دکان اور گھر کو لوٹ لیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے پولیس میں شکایت کی تھی، لیکن احمد کا الزام ہے کہ دہلی پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرنا چاہ رہی ہے۔
عرضی میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ احمد کے گھر کے آس پاس کس طرح دنگے بھڑکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مقامی لوگوں نے متنازعہ شہریت قانون کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اس علاقے میں مائیک اور اسپیکر لگایا تھا۔اس کے بعد شام 7:30 بجے کے قریب مغرب کی نماز کے فوراً بعد انہیں اسپیکروں اور مائیک کے ذریعے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو بھگانے اور مارنے کی بات کہی جانے لگی تھی۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے 500 سے زیادہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔
عرضی میں کہا گیا،‘اگر کسی کی آئی ڈی یا پینٹ اتار کر یہ پتہ لگا لیا جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہے تو اس کوتلوار یا دیگر ہتھیاروں سے کاٹ دیا جاتا تھا۔ کچھ لوگ جان بچا کرنکلے، لیکن انہیں بہت بری طرح لاٹھی سے پیٹا گیا تھا۔’عرضی میں انہوں نے کہا ہے، ‘خواتین کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ویسے تو بہت کم ہی مسلم خواتین باہر تھیں، لیکن اگرکوئی برقع پہنے یا کسی اور طرح سے مسلمان عورت لگتی تھی تو اس کوتلوار سے مار دیا جاتا تھا۔ لوگوں کو مارکر بھاگیرتھی وہار نالے میں پھینک دیا گیا۔’
احمد نے کہا کہ انہوں نے کئی بار 100 نمبر پر کال کرکے اس کی شکایت کی لیکن کوئی بھی پولیس والامدد کے لیے آگے نہیں آیا۔احمد نے اپنی عرضی میں سلسلےوار ڈھنگ سے بتایا ہے کہ کس طرح ان کی دکان اور گھر کو لوٹا گیا اور کس طرح دہشت کا ماحول تھا۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کے بیش قیمتی سامان کے ساتھ ساتھ دس لاکھ روپے بھی دنگائیوں نے لوٹ لیے۔
عرضی گزارنے کہا ہے کہ ان کی تین موٹر سائیکل کو بھی آگ لگاکر راکھ کر دیا گیا۔ اس بیچ ان کے اہل خانہ نےکسی طرح پڑوسی کے ذریعے مہیا کرائی گئی سیڑھی کے ذریعے چھت سے اتر کر بھاگ کر اپنی جان بچائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شرپسند جتنا سامان لے جا سکتے تھے وہ لے گئے، باقی چیزوں کو انہوں نے آگ کے حوالے کر دیا۔
احمد نے عرضی میں یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح انہیں اپنے بھائی کو ڈھونڈنے میں تین دن لگ گئے جو کہ ذہنی طور پر کمزور ہیں۔اس المیہ سے گزر نے کے بعداحمد کو شکایت درج کرانے میں ابھی تک پریشانی ہو رہی ہے۔ شروع میں جب وہ پولیس کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ چوری کی شکایت درج کرا دو۔ حالانکہ احمد نے اس پراتفاق نہیں کیا اور اگلے دن انہوں نے تحریری شکایت درج کی، جس میں انہوں نے موگلی، مائکل اور ٹنکو کا نام بطور ملزم درج کرایا تھا۔
اس کے بعد 18 مارچ کو انہوں نے ایک تفصیلی شکایت دائر کی۔ احمد نے عرضی میں کہا کہ 20 مارچ کو انہیں ایک ایف آئی آر کے سلسلے میں نوٹس ملا جو کہ الیاس نام کے ایک شخص کی جانب سےدرج کرائی گئی تھی۔ اس سلسلے میں سب انسپکٹر نے ان سے ان کا فون جمع کرنے کو کہا۔
انہوں نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ شکایت درج کرنے کے بعد انہیں مقامی بی جے پی رہنماکے ذریعےڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو اپریل کو گگن نام کے ایک شخص نے خود کو دہلی پولیس سے جڑا ہوا بتاتے ہوئے کال کیا اور کہا کہ میں کنہیا لعل (بی جے پی کونسلر)سے بات کروں۔
رہنما نے احمد سے سوال کیا کیا انہوں نے موگلی کا نام شکایت میں درج کرایا ہے۔ اس کے بعد سے ہی احمد کو کئی کال آنے لگے، جس میں کہا گیا کہ وہ معاملے کو لےکر سمجھوتہ کر لیں۔انہوں نے کہا کہ جن کے خلاف انہوں نے معاملہ درج کرایا ہے وہ لوگ انہیں اور ان کے گھر والے کو ڈرا دھمکا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ گھر بیچ کر نہیں گئے تو ان کو جان سے مار دیا جائے گا۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ احمد کے خلاف گوکل پوری میں درج کی گئی تین ایف آئی آر کے سلسلے میں پولیس نے فوراًکارروائی کی لیکن احمد کی جانب سے ان کے اور گھروالوں کے تحفظ کو خطرے سے متعلق درج کرائی گئی شکایت کو لےکر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے