ملک میں مذہب کی بنیاد پر ہیٹ کرائم کے لیے کوئی جگہ نہیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ ایک مسلمان شخص کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جنہوں نے الزام لگایا ہے کہ جولائی 2021 میں مذہب کے نام پر ان پر حملہ کیا گیا، ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور یوپی پولیس نے ہیٹ کرائم کی شکایت تک درج نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ جب نفرت کے جذبے سے کیے جانے والے جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی تب ایسا ماحول بنے گا، جو خطرناک ہوگا۔

سپریم کورٹ ایک مسلمان شخص کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جنہوں نے الزام لگایا ہے کہ جولائی 2021  میں مذہب کے نام پر ان پر حملہ کیا گیا، ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور یوپی پولیس نے ہیٹ کرائم کی شکایت تک  درج نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ جب نفرت کے جذبے سے کیے جانے والے جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی تب ایسا ماحول بنے گا، جو خطرناک ہوگا۔

(فوٹو: دی وائر)

(فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو اتر پردیش پولیس کی طرف سے جولائی2021 میں ایک مسلم شخص کے خلاف کیے گئے ہیٹ کرائم کے واقعے پر ایف آئی آر درج کرنے میں ‘غیرمعمولی تاخیر’ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت کے جذبے سے کیےجانے والے جرائم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہیٹ اسپیچ پر کسی بھی طرح سےسمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔عدالت نے کہا کہ اگر حکومت ہیٹ اسپیچ کے مسئلے کو سمجھے گی  تو اس کا حل بھی نکلے گا۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کےکسی جرم سے  اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض ہے۔

جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگارتنا کی بنچ نے کہا، جب نفرت کے جذبے سے کیے گئے جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی، تو ایسا ماحول پیدا ہوگا، جو خطرناک ہوگا۔ ہیٹ اسپیچ پر کسی بھی طرح سےکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ ایک مسلمان شخص کی درخواست کی سماعت کر رہی تھی جنہوں  نے الزام لگایا تھا کہ 4 جولائی 2021 کو مجرموں کے ایک ‘اسکریو ڈرائیور گروہ’ نے مذہب کے نام پران پر حملہ کیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی، لیکن پولیس نے ہیٹ کرائم کی شکایت  تک درج نہیں کی۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا، جب وہ نوئیڈا سے علی گڑھ جانے کے لیے ایک  کار میں سوار ہو ئے تھے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، متاثرہ  شخص نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہیٹ کرائم ہےالزام لگایا ہے کہ، وہ ایک کار میں سوار تھے جب گاڑی کے اندر موجود 4 افراد نے ان کے ساتھ لوٹ پاٹ اور مار پیٹ کی، اس  کے ساتھ ہی ان کی داڑھی بھی کھینچی اور ان کی مذہبی پہچان کا مذاق اڑایا۔

تاہم، اتر پردیش پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ایک گینگ کے ذریعے کی گئی ڈکیتی تھی اور اب تک اس میں ہیٹ کرائم  کا کوئی زاویہ نہیں ملا ہے۔

گزشتہ ماہ 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے پولیس سے کیس ڈائری پیش کرنے کو کہا تھا، جس کے بعد 15 جنوری 2023 کو یوپی پولیس نے واقعے کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کی اور اس کے لیے’اسکریو ڈرائیور گروہ’ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدئی نے بنچ کو بتایا کہ پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام رہی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے کیس ڈائری طلب کرنے کے بعد ہی ایسا کیا گیا۔ یہ ایف آئی آر واقعے کے دو سال بعد درج کی گئی تھی اور اس میں لگائی گئی ایک کو چھوڑ کر باقی تمام دفعات قابل ضمانت تھیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے ابھی تک ایف آئی آر میں آئی پی سی کی دفعات شامل نہیں کی ہیں، جس سے یہ ہیٹ کرائم  بن سکتا ہے۔

یوپی سرکار کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج یہ قبول کرتے ہوئے کہ نچلی سطح پر پولیس کی طرف سے کوتاہی ہوئی تھی، کہا کہ محکمہ جاتی  انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا،’کیس سے متعلق مواد یا اس کے بعد کی کارروائی کو دیکھ کر مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ہماری طرف سے کسی طرح  کی کوتاہی ہوئی ہے۔ یہ شاید نچلی سطح پر ہوا ہے۔

نٹ راج نے کہا کہ ‘اسکرو ڈرائیور گروہ’ کے خلاف پہلی ایف آئی آر 26 جون 2021 کو درج کی گئی تھی اور انہیں آٹھ ایف آئی آر کا سامنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست نے اے سی پی رینک کے افسر کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کو بھی جانچ سونپی ہے اور کارروائی کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی قصوروار پولیس افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔

تاہم جسٹس جوزف نے یہ جاننا چاہا کہ پولیس نے ہیٹ کرائم کی دفعات شامل کیوں نہیں کی تھیں۔

بنچ نے نٹ راج سے کہا، آج کل ہیٹ اسپیچ  کے لیے اتفاق رائے بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مذہب کے نام پر ہیٹ کرائم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور اپنے شہریوں کو ایسے کسی بھی جرم سے بچانا حکومت کا اولین فریضہ ہے۔

عدالت نے کہا، ‘اگر کوئی شخص پولیس کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی، میری داڑھی کھینچی گئی تھی اور مذہب کے نام پر میرے ساتھ بدتمیزی کی گئی، تب بھی شکایت درج نہیں کی جاتی ہے، تو یہ ایک  مسئلہ ہے۔’

جسٹس جوزف نے کہا کہ ہر سرکاری اہلکار کی کارروائی  قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ ورنہ ہر کوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔

شنوائی  کے لیے شام 6 بجے تک بیٹھی بنچ  نے کہا، کیا آپ یہ قبول نہیں کریں گے کہ ہیٹ کرائم  ہوا ہے اور اسے دبا دیں گے؟ہم کچھ بھی برا نہیں کہہ رہے ہیں، صرف اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، نٹ راج کے پولیس کی جانب سے کوتاہی کو قبول کرنے پر بنچ نے کہا، ‘آپ ایک مثال پیش  کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں لاپرواہی کا خمیازہ بھگتنے دیتے ہیں۔ جب آپ ایسے واقعات کے خلاف ایکشن لیں گے تب ہی ہم ترقی یافتہ ممالک کے برابر آ سکیں گے۔ ہاں، واضح طور پرغلطی ہوئی ہے اور غلطی ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نٹ راج نے کہا کہ 4 جولائی 2021 کو جب یہ مبینہ واقعہ پیش آیا، تب  متاثرہ شخص  نوئیڈا کے سیکٹر 37 میں ایک پولیس چوکی گئے تھے، جہاں کوئی سینئر پولیس افسر نہیں بلکہ کانسٹبل موجود تھے۔ اس لیے کوئی شکایت درج نہیں کی گئی۔

انھوں نے کہا، ‘پھر وہ جامعہ نگر کے ایک اسپتال گئے اور دہلی پولیس کو بیان دیا کہ انھیں لوٹا گیا،ان پرحملہ کیا گیا اور انھیں چوٹیں آئیں۔ کہیں بھی انہوں نےیہ نہیں کہا کہ یہ ہیٹ کرائم  کا معاملہ ہے یا ان پر اس لیے حملہ کیا گیا کہ وہ مسلمان تھے۔

جسٹس ناگارتنا نے کہا، ‘ کسی بھی وقت متاثرہ پر توہین آمیز ریمارکس نہیں کیے جا سکتے۔ متاثرہ شخص کو اس طرح نہیں دکھایا جانا چاہیے کہ وہ اس کے خلاف کیے گئے جرم کا مجرم ہے۔

جسٹس جوزف نے کہا کہ اقلیت ہو یا اکثریت، کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘آپ ایک خاندان میں پیدا ہوئے، پرورش پائی۔ ہمارے پاس اپنے مذہب کے بارے میں کوئی انتخاب نہیں ہے، لیکن ہم بحیثیت قوم مختلف ہیں۔ یہی ہماری خوبصورتی ہے،ہمارے ملک کی  عظمت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا۔

راجستھان میں ایک حالیہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس جوزف نے کہا کہ ایک گونگے شخص پر حملہ کیا گیا ،لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ متاثرہ شخص ہندو تھا۔ انہوں نے کہا، اگر آپ  اسے (ہیٹ کرائم کو) نظر انداز کرتے ہیں  تو ایک دن آپ بھی اس کی زد میں آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ فرقہ وارانہ رویہ رکھتے ہیں۔

نٹ راج نے کہا کہ گینگ کےلوگوں کے خلاف آٹھ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ اس پر بنچ نے پوچھا کہ گینگ کے خلاف پہلی ایف آئی آر کب درج کی گئی اور کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور کیا یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے متاثرہ شخص پر حملہ کیا تھا اور انہیں کب ضمانت دی گئی۔

نٹ راج نے کہا کہ وہ تمام ایف آئی آر کی تفصیلات بتاتے ہوئے ایک حلف نامہ داخل کریں گے، لیکن انہوں نے بتایا کہ ‘اسکریو ڈرائیور گینگ’ کے خلاف جون 2021 میں  پہلی ایف آئی آردرج کی گئی تھی اور انہوں نے مسلمانوں یا ہندوؤں پر حملہ کرنے میں کوئی امتیاز نہیں کیا ہے۔

وکیل احمدئی نے کہا کہ یہ قبول کرنے میں دو سال لگے کہ ایک مجرمانہ واقعہ ہوا ہے اور اتر پردیش حکومت کی طرف سے داخل کردہ دو حلف ناموں میں پولیس نے کہا ہے کہ کوئی ہیٹ کرائم  نہیں تھا۔

انہوں نے کہا، ‘5 جولائی 2021 کو  پولیس کی ایک گشتی ٹیم میرے گھر آئی تھی  اور ہیٹ کرائم کے زاویے کے لیے دباؤ نہ ڈالنے کو کہا۔’ انہوں نے کہا کہ ایک کار میں متاثرہ کی داڑھی کھینچی گئی، کپڑے اتارے گئے اور  ختنہ کیے جانے کا مذاق اڑایا گیا۔

بنچ نے کہا کہ وہ آرٹیکل 32 کے تحت متاثرہ  شخص کی درخواست پر ملک گیر رہنما خطوط جاری نہیں کر سکتا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ ملک بھر میں جو ہو رہا ہے یہ اس کا معاملہ نہ ہو ورنہ عدالتیں مقدمات سے بھر جائیں گی۔

نٹ راج نے کہا کہ پولیس نے اس بات کو مسترد نہیں کیا ہے کہ کوئی مجرمانہ واقعہ نہیں ہوا تھا لیکن کہیں بھی یہ نہیں پایا گیا ہے کہ یہ ہیٹ کرائم  تھا اور متاثرہ نے میڈیا کی تشہیر کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اپنے بیانات بدل دیے۔

بنچ نے اترپردیش حکومت سے مفصل حلف نامہ داخل کرنے کو کہا اور معاملے کی سماعت 3 مارچ کے لیے  ملتوی کر دی۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے اتر پردیش، اتراکھنڈ اور دہلی کی حکومتوں سے ہیٹ اسپیچ پر پابندی لگانے کے لیے کارروائی کرنے کو کہا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)