سی آئی سی کے حکم کی تعمیل میں ایک خط میں سرکار کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے مدنظر آکسیجن کی خاطرخواہ دستیابی کو یقنیی بنانے کے لیے سکریٹری ،محکمہ برائے فروغ صنعت و داخلی تجارت(ڈی پی آئی آئی ٹی) کی سربراہی میں ایسی کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی تھی۔ اس پر آر ٹی آئی کے تحت جانکاری مانگنے والے کارکن نے کہا ہے کہ جب ایسی کوئی کمیٹی وجود میں ہی نہیں تھی تو پھر سرکار نے سی آئی سی کے سامنے اس کمیٹی کے ریکارڈ کو عوامی نہ کرنے کی لڑائی کیوں لڑی۔
نئی دہلی: گزشتہ29 جولائی کو سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)نے مرکزی حکومت کوہدایت دی تھی کہ وہ آکسیجن کو لےکرمحکمہ برائے فروغ صنعت و داخلی تجارت(ڈی پی آئی آئی ٹی)کےسکریٹری کی سربراہی میں بنی بااختیارکمیٹی کے کام کاج کا انکشاف کرے۔ حالانکہ اب مرکز ی حکومت نے اپنا رخ بدلتے ہوئے ایک تعمیلی نوٹ میں کہا ہے کہ ایسی کوئی کمیٹی بنائی ہی نہیں گئی ہے۔
دی وائر نے تب اپنی رپورٹ میں یہ بتایا تھا کہ سی آئی سی نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ 10 دنوں کے اندر نورکنی ذیلی کمیٹی کی بیٹھکوں، مباحث اور ایجنڈہ کی تفصیلات مہیا کرائے، جسے کووڈ 19 کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی خاطرخواہ دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔
سی آئی سی نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے مہاماری کی تیاری اور ردعمل کے بارے میں اس بنیاد پر جانکاری دینے سے انکار کر دیا کہ یہ قومی مفاد کے لیے ایک چیلنج ہوگا، جو کہ مناسب نہیں ہے۔
اس نے یہ بھی کہا تھا کہ بحث کے تمام ریکارڈ، بیٹھکوں کے ایجنڈے اور کمیٹی کی بیٹھکوں کے منٹس آر ٹی آئی کارکن سوربھ داس کو دستیاب کیے جانے چاہیے، جنہوں نے 24 اپریل کو کمیٹی کے کام کاج کی جانکاری کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
Central Information Commission had directed Centre to disclose records of the Committee that handled medical oxygen supply. Ministry now tells me that NO SUCH COMMITTEE EXISTED!
This, after they fought to withhold records of the very same Committee before CIC!
1/2 pic.twitter.com/yR1iC0Fw0l
— Saurav Das (@OfficialSauravD) August 6, 2021
یہ آرڈربہت اہم تھا، کیونکہ اب تک مرکزی حکومت آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کی موت کے باوجود اس اعلیٰ سطحی پینل سے متعلق جانکاری کو روک رہی تھی۔
حالانکہ سی آئی سی کے حکم پر اب مرکزی حکومت کا جواب چونکانے والا ہے۔
سی آئی سی کےحکم کی تعمیل میں چھ اگست کو لکھے ایک خط میں وزارت تجارت و صنعت، جس کے تحت ڈی پی آئی آئی ٹی آتا ہے، نے لکھا ہے کہ کووڈ 19 مہاماری کے مد نظر میڈیکل آکسیجن کی خاطرخواہ دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ڈی پی آئی آئی ٹی کے سکریٹری گروپرساد مہاپاترا کی سربراہی میں اپریل 2020 میں ایسی کوئی کمیٹی بنائی ہی نہیں گئی تھی۔
داس نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جانکاری مانگی تھی کہ آکسیجن کی ذیلی کمیٹی کی بیٹھکیں کب ہوئیں، ان بیٹھکوں کا ایجنڈہ کیا رہا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بیٹھکوں میں دکھائے گئے پریزنٹیشن اور ان کے منٹس کی کاپی مانگی تھی۔
وزارت کے جواب پر ردعمل دیتے ہوئے داس نے حیرانی کا اظہار کیا کہ پھر اس وزارت نے سی آئی سی کے سامنے اس کمیٹی کے ریکارڈس کو عوامی نہ کرنے کی لڑائی کیوں لڑی، جب ایسی کوئی کمیٹی کبھی وجودمیں ہی نہیں تھی۔
داس نے اشارہ کیا کہ اس سے پہلےوزارت نے صاف طور پر مرکزی سکریٹری کی سربراہی میں ایسی کمیٹی ہونے کو واضح طور پر تسلیم کیا تھا۔
A screenshot from the written submissions of the Ministry before CIC, where they clearly acknowledge the presence of such a Committee under Union Secretary, @DIPPGOI.
So after you lose the case, you deny the existence of the Committee itself? What!?
2/2 pic.twitter.com/447Qdvulbt
— Saurav Das (@OfficialSauravD) August 6, 2021
اس کے ساتھ ہی پورے معاملے کی شنوائی کے دوران وزارت نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ڈی پی آئی آئی ٹی سکریٹری کے تحت بااختیار کمیٹی موجود نہیں ہے۔
معلوم ہو کہ اپریل مئی مہینے میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران میڈیکل آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ملک بھر میں کووڈ 19 مریضوں کی موت کے تمام معاملے سامنے آئے تھے۔ ان میں سے دہلی کے دو اسپتالوں میں ہی 40 سے زیادہ کورونا مریضوں کی آکسیجن کی کمی سے موت ہوئی تھی۔
اس معاملے میں سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر(سی پی آئی او)نے 11 جون کو دفعہ 8(1)(اے) اور (ڈی) کے تحت جانکاری مہیا کرانے سے انکار کر دیا تھا۔
ان دفعات کے تحت افسر ایسی جانکاریوں کو روک کر رکھ سکتے ہیں، جن سے ہندوستان کی سلامتی ،سفارتی ، سائنسی یا معاشی مفادات متاثر ہوتے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی کاروبار سے متعلق معلومات اور دانشورانہ املاک سےوابستہ جانکاریوں کا بھی انکشاف کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
اتنا ہی نہیں گزشتہ 20 جولائی کو مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ ان کے پاس کووڈ 19 مہاماری کی دوسری لہر کے دوران صوبوں اور یونین ٹریٹری میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی موت کی کوئی خبر نہیں ہے، جس کی اپوزیشن پارٹیوں نے سخت نکتہ چینی کی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)