بی جے پی ایم ایل اے رام کدم نےمعروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر سے ان کے اس تبصرے کو لےکر ان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے، جس میں انہوں نے آر ایس ایس کاموازنہ مبینہ طور پر طالبان کے ساتھ کیا تھا۔ اس کے بعد اختر کے ممبئی واقع گھر کے باہر سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
بی جے پی ایم ایل اے رام کدم۔ (فوٹو: ٹوئٹر/@ramkadam)
نئی دہلی: بی جے پی ایم ایل اے رام کدم نےمعروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر سے ان کے اس تبصرے کو لےکر ان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے،جس میں انہوں نے آر ایس ایس کا موازنہ مبینہ طور پر طالبان کے ساتھ کیا تھا۔ اس بیان کے بعد اختر کے ممبئی واقع گھر کے باہر سیکیورٹی سوموار کو بڑھا دی گئی۔ یہ جانکاری پولیس کے ایک افسر نے دی۔
افسر نے کہا کہ جوہو علاقے میں اسکان مندر کے پاس واقع اختر کےگھر کے باہر پولیس کے مناسب انتظامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاتون کانسٹبل سمیت سیکیورٹی اہلکاروں کو گیت کار کے گھر کے باہر تعینات کیا گیا ہے۔
اختر نے گزشتہ تین ستمبر کو ایک نیوز چینل سے کہا تھا کہ پوری دنیا میں رائٹ ونگس میں ایک حیرت انگیز مماثلت ہے۔آر ایس ایس کا نام لیے بنا گیت کار نے کہا تھا، ‘طالبان ایک اسلامی ملک چاہتا ہے۔ یہ لوگ ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔’
جاوید اختر نے کہا تھا، ‘مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ آر ایس ایس، وی ایچ پی یا بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں، انہیں خودبینی کی ضرورت ہے۔ بےشک طالبان قابل مذمت ہیں، وہ وحشی ہیں، لیکن آپ جن لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں وہ ان سے (طالبان)کیسے الگ ہیں۔’
پچیس منٹ کی بات چیت کے دوران اختر نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کچھ لوگ سماج میں علیحدگی چاہتے ہیں اور انہوں نے طالبان اور ان لوگوں کے بیچ‘حیرت انگیز مماثلت’دیکھی، جو ‘طالبان کی طرح بننا چاہتے ہیں’۔
بی جے پی ایم ایل اے اور ریاستی بی جے پی کے ترجمان رام کدم نے اختر کےتبصرے کی مذمت کی۔
ممبئی کے ایم ایل اے نے کہا کہ اختر سے جڑی کسی بھی فلم کو ملک میں تب تک ریلیز نہیں ہونے دیا جائےگا جب تک کہ وہ اپنی باتوں کے لیے سنگھ کے عہدیداروں سے ہاتھ جوڑکر معافی نہیں مانگ لیتے۔
ایم ایل اے نے کہا، ‘اگر طالبان کی آئیڈیالوجی یہاں موجود ہوتی تو کیا وہ (اختر)اس طرح کے بیان دے سکتے تھے؟ اس سوال کا جواب دکھاتا ہے کہ ان کی باتیں کتنی کھوکھلی ہیں۔’
دریں اثناشیوسینا نے سوموار کو کہا کہ آر ایس ایس کا طالبان سےموازنہ کرنے میں نغمہ نگار جاوید اختر ‘پوری طرح سے غلط’تھے۔
‘سامنا’کے اداریہ میں کہا گیا ہے، ‘آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہندو راشٹر کےتصور کی حمایت کرنے والے طالبانی ذہنیت کے ہیں؟ ہم اس سے متفق نہیں ہیں۔’
‘سامنا’ کےاداریہ میں ان کےتبصرے کا ذکرکرتے ہوئے کہا گیا ہے، ‘بھلے ہی جاوید اختر ایک سیکولر انسان ہیں اور شدت پسندی کے خلاف بولتے ہیں،لیکن ان کا آر ایس ایس کاموازنہ طالبان سے کرنا پوری طرح سے غلط ہے۔’
‘سامنا’ کےاداریہ میں کہا گیا ہے کہ ہندو راشٹر کا پرچار کرنے والوں کا رخ لبرل ہے۔اس میں کہا گیا ‘جس تقسیم کی وجہ سے پاکستان بناوہ مذہب پر مبنی تھا۔ جو لوگ ہندو راشٹر کی حمایت کرتے ہیں، وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ اکثریتی ہندوؤں کو درکنار نہ کیاجائے۔ ہندوتوا ایک تہذیب ہے اورکمیونٹی کے لوگ اس پر حملہ کرنے والوں کو روکنے کے حق کی مانگ کرتے ہیں۔’
اس میں مزیدکہاگیا ہے کہ ہندوتوا کا طالبان سے موازنہ کرنا ہندو سنسکرتی کی ‘توہین’ہے۔
اس میں کہا گیا،‘ایک ہندو اکثریتی ملک ہونے کے باوجود، ہم نے سیکولرازم کا جھنڈا پھہرایا ہے۔ ہندوتوا کےحمایتی صرف یہی چاہتے ہیں کہ ہندوؤں کو درکنار نہ کیا جائے۔’
اس میں کہا گیا ہے، ‘آپ کا آر ایس ایس کے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن ان کے فلسفے کو طالبانی کہنا پوری طرح سے غلط ہے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)