پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں کے لیے پانچ مقبول ترین مغل یادگار ہیں۔ 20-2019 سے 2023-24 تک کی مدت میں حکومت نے ان پانچ مقاما ت میں ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے ہیں۔

نئی دہلی: سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ملک کے سابق مسلم حکمرانوں کے ذریعے تعمیر کردہ پانچ مقبول ترین یادگاروں سے گزشتہ پانچ سالوں میں مرکزی حکومت کو سینکڑوں کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے ۔
گزشتہ 3 اپریل کو وزارت ثقافت کی جانب سے پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں میں مغلوں کی پانچ سب سے مقبول ترین یادگاریں ہیں۔
سال 2019-20 سے 2023-24 تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران مرکزی حکومت نے ان پانچ یادگاروں پر ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے،اس کے علاوہ متعلقہ شعبوں میں ہزاروں لوگوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ روزگار بھی پیدا ہوئے ۔
اطلاعات کے مطابق، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے سال 2023-24 میں آگرہ شہر میں تمام محفوظ یادگاروں کی دیکھ بھال پر 23.52 کروڑ روپے خرچ کیے، جبکہ اس سال صرف تاج محل کے ٹکٹوں کی فروخت سے 98.5 کروڑ روپے آمدنی ہوئی۔
سری نگر کے ایک سماجی کارکن راجہ مظفر بھٹ نے کہا، ‘ایسے وقت میں جب مغل حکمرانوں کا بی جے پی لیڈروں کے ذریعے مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہی حکومت ان کے مقبروں اور تاریخی مقامات سے بھاری آمدنی حاصل کر رہی ہے۔ یہ منافقت ان کے دوہرے کردار کو بے نقاب کرتی ہے۔ ‘
معلومات کے حق (آر ٹی آئی) کے تحت ایک درخواست میں انکشاف ہوا ہے کہ 2019-20 اور 2023-24 کے درمیان پانچ سالوں میں 2.2 کروڑ سیاحوں نے اتر پردیش کے آگرہ شہر میں واقع اوریونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ اور ملک میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار تاج محل کا دورہ کیا، جس سے 297.33 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
سری نگر کے ایم ایم سجا کی جانب سے دائر ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے بتایاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لینے کے ایک سال بعد سال 2015 سے ستمبر 2024 کے آخر تک تاج محل میں ٹکٹوں کی فروخت سے 535.62 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔
اے ایس آئی، جو مرکزی وزارت ثقافت کے تحت آتا ہے، تاج محل دیکھنے کے لیے گھریلو سیاحوں سے 50 روپے وصول کرتا ہے، جبکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے یہ فیس 1100 روپے ہے۔ تاج محل کے مرکزی مقبرے کو دیکھنے کے لیے تمام سیاحوں کو الگ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے جس کی قیمت 200 روپے ہے۔
یہ عمارت 17ویں صدی کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں بنوائی تھی۔ تاج محل 1632 اور 1648 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا اور اسے دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
بی جے پی کے کئی رہنمااور ہندوتوا تنظیم بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ تاج محل ایک ہندو مندر تھا جو شاہجہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا تھا۔ تاہم، اے ایس آئی نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ 4 اپریل 2023 کو آسام کے بی جے پی ایم ایل اے روپ جیوتی کرمی نے کہا تھا کہ انہوں نے پی ایم مودی سے سفارش کی تھی کہ تاج محل کو گرا کر اس کی جگہ مندر بنایا جائے۔
قطب مینار ملک کی دوسری مقبول ترین مغل عمارت
پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، قطب مینار ملک میں مغلوں کی دوسری مقبول ترین یادگار ہے، جسے پانچ سال کے عرصے میں 92.13 لاکھ سیاحوں نے دیکھا، جس سے 63.74 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
اگر 2014 سے پچھلے پانچ سالوں کا اوسط لگایا جائے تو جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش کی تعمیر کردہ 12ویں صدی کی یادگار نے دس سالوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 178.08 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔
ماضی میں وشو ہندو پریشد نے دعویٰ کیا تھا کہ قطب مینار ایک ‘وشنو استمبھ (ستون)’ ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قطب مینار کمپلیکس میں ہندو ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، جنہیں ‘یادگار بنانے کے لیے منہدم کر دیا گیا تھا۔’

لال قلعہ، جہاں وزیر اعظم ہر سال یوم آزادی پر ترنگا جھنڈا لہراتے ہیں اور اس کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہیں، ملک میں مغلوں کی تیسری مقبول ترین یادگار ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پانچ سال کی مدت میں تقریباً 90 لاکھ سیاحوں نے لال قلعہ کا دورہ کیا، جس سے 54.32 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1639 میں تعمیر کیا تھا، اس تاریخی قلعے سے اے ایس آئی نے 2014 سے اوسطاً دس سال کے تخمینہ کے مطابق، ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 140 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔
آگرہ قلعہ، جو یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے، ملک میں مغلیہ دور کی چوتھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی یادگار ہے، جس کا دورہ 2019-2020 سے 2023-2024 تک 69.61 لاکھ سیاحوں نے کیا، جس سے 64.84 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
اے ایس آئی کے اعداد و شمار کے مطابق، 1565 میں مغل شہنشاہ اکبر کی طرف سے تعمیر کردہ اس قلعہ میں مودی کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد 2015 سے لے کر ستمبر 2024 تک تقریباً دو کروڑ سیاح آئے، جس سے کل 178.83 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے کہا کہ حکومت نے قلعہ میں کم از کم 35 لوگوں کو ملازمت دی ہے۔
اورنگ آباد، مہاراشٹر میں واقع رابعہ درانی کا مقبرہ ملک میں پانچویں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار ہے۔ یہ مقبرہ 1660 میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے اعظم شاہ نے اپنی والدہ دلرس بانو بیگم کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔
بی بی کا مقبرہ کے نام سے مشہور اس مقبرے کو سال 2019 سے 2024 تک 42.14 لاکھ سیاحوں نے دیکھا اور اس عرصے میں 68.51 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
آر ٹی آئی درخواست میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اے ایس آئی قومی دارالحکومت دہلی میں کم از کم ایک درجن مرکزی طور پر محفوظ مغل یادگاروں کا انچارج ہے۔
ان میں خان خانہ، سلطان گڑھی مقبرہ، تغلق آباد قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، حوض خاص قلعہ، صفدر جنگ مقبرہ، کوٹلہ فیروز شاہ اور پرانہ قلعہ شامل ہیں، جن سے پانچ سال کے عرصے میں ٹکٹوں کی فروخت سے مجموعی طور پر 42 کروڑ روپے سے زائد کی کمائی ہوئی ہے۔

اگرچہ مغلوں کی یادگاروں نے سرکاری خزانے میں اہم حصہ ڈالا ہے، لیکن بی جے پی اور پارٹی سے وابستہ ہندوتوا گروپوں نےاپنی اکثریتی سیاست کے تحت ملک کے سابق اسلامی حکمرانوں پر مسلسل ‘لوٹ کھسوٹ ‘ کا الزام لگایا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی مغلوں کی تعمیر کردہ یادگاروں کو گرانے کی سازش کر رہی ہے، جنہوں نے 1526 سے 1857 تک برصغیر کے بیشتر حصوں پر حکومت کی تھی۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)