2013 میں نتیش کمار فرقہ پرستی کے مدعے پر ہی این ڈی اے سے الگ ہوئے تھے اور آج جب فرقہ پرستی کا خطرہ زیادہ سنگین ہو چلا ہے وہ پھر سے این ڈی اے میں شامل ہو گئے ہیں۔
بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اکثر اپنی حکومت کاکمٹ منٹ یہ کہہکر دوہراتے ہیں کہ وہ کرائم، کرپشن اور کمیونلزم سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ ان تین’سی’ میں سے کمیونلزم کا ذکر وہ اپنی سیکولر امیج اور مسلم آبادی کو دھیان میں رکھکر کرتے ہیں جو کہ بہار کی آبادی میں تقریباً 17 فیصد حصہ ہونے کی وجہ سے انتخابی سیاست کے لحاظ سے اہم ہیں۔
نتیش کمار کے اس دعوے کے ساتھ-ساتھ ان کی پارٹی مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ایک اور الگ طرح سے کوشش کر رہی ہے۔ اگلےسال ہونے والے عام انتخاب کو دھیان میں رکھکر تمام سیاسی جماعت ایک کے بعد ایک ذات اورکمیونٹی مبنی کانفرنس کر رہے ہیں مگر جے ڈی یو ایسی کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ ساتھ اقلیت کارکن کانفرنس بھی کر رہی ہے۔ جے ڈی یو کے ان ضلع کانفرنسوں کا دور پورا ہو گیا ہے اور اب وہ بلاک سطح کی تیاریوں میں لگی ہے۔
جے ڈی یو کا ایسا ہی ایک ضلعی کانفرنس گزشتہ مہینے کے آخر میں چرچے میں رہا تھا۔ تب چرچہ پٹنہ ضلع اقلیتی کانفرنس میں کارکنان کے نہیں جمع ہونے کا ہوا تھا۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ہوئے اس پروگرام میں تمام تیاریوں کے بعد بھی اتنے کارکن بھی نہیں جمع ہوئے کہ پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان کے بغل میں واقع ایس کے ایم ہال کی کرسیاں بھر سکے۔انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، تقریباً چار ہزار لوگوں کے لئے 600 کلو مٹن بریانی تیار کی گئی تھی مگر 500 کے قریب ہی لوگ پہنچے۔
جے ڈی یو کا یہ پروگرام کتنا اہم تھا اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس پروگرام میں نتیش کمار کے بےحد قریبی کہے-جانے والے رکن پارلیامان آر سی پی سنگھ بھی موجود تھے۔بہار کے اقلیتی فلاح و بہبودوزیر فیروز احمد نے تو پروگرام کے دوران ہی کارکنان کی بہت کم موجودگی کو لےکرناراضگی جتائی اور اس کو شرمناک بتایا۔
جے ڈی یو کے کچھ رہنماؤں نے نام نہیں بتائے جانے کی شرط پر یہ قبول کیا کہ ہال نہیں بھرا اس میں کہیں سے کوئی دو رائے نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے اس کو انتظام سے جڑی چوک یہ کہتے ہوئے بتایا کہ جب پروگرام ہی چھوٹا تھا تو اس کو ایس کے ایم جیسے بڑے ہال میں نہیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیں :بہار: کیا نتیش کمار کو مسلمانوں کی ناراضگی کا خوف ستا رہا ہے؟
آبادی کا بڑا حصہ ہونا اور پوری ریاست میں پھیلا ہونا مسلمان آبادی کو انتخابی سیاسی میں اہم بنا دیتا ہے۔ مگر مانا جاتا ہے کہ گزشتہ سال مہا گٹھ بندھن سے الگ ہونے کے بعد سے مسلمان جے ڈی یو سے ناراض ہیں۔ ایسے میں انتخابی موسم میں ہوئے اس پروگرام کے بعد یہ ذکر چل پڑا کہ کانفرنس میں مسلمانوں کا نہیں آنا بتاتا ہے کہ جے ڈی یوکو مسلمانوں کی حمایت نہیں حاصل ہے۔مگر جدیو کے بہار ریاست اقلیتی سیل کے صدر محمد سلام اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔انہوں نے دی وائر سے کہا؛
مسلمان کسی کے زر خرید نہیں ہیں اور مسلمانوں کو پارٹی کی حمایت ہے کہ نہیں یہ انتخاب کے بعد ووٹوں کی گنتی سے پتہ چلےگا۔ نتیش کمار کے کاموں کی وجہ سے مسلمان نتیش کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیںگے۔ بہار کی عوام نتیش کمار کو اکثریت دیتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ نتیش کس کے ساتھ ہیں۔ آنے والے دنوں میں بھی تمام طبقوں کے ساتھ اقلیت بھی نتیش کمار کے ساتھ رہیںگے۔
محمد سلام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ باقی ضلعوں میں اقلیت کارکن کانفرنس بہت کامیاب رہے۔ ہرجگہ ہال بھرے ہوئے تھے اور کئی جگہ جتنے لوگ ہال کے اندر تھےاتنے ہی باہر بھی تھے۔لیکن آر جے ڈی رہنما اور پارٹی کے بنکر سیل کے ریاستی صدر محمد زاہد انصاری اس دعویٰ کو خارج کرتے ہیں۔انہوں نے کہا؛
جے ڈی یو کے پروگرام میں کسی بھی ضلع میں لوگ نہیں جمع ہوئے۔ خود نتیش کے آبائی ضلع میں لوگ نہیں آئے اور جو آئے بھی وہ تماشہ دیکھنے گئے تھے۔ مہاگٹھ بندھن توڑکر بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کی وجہ سے مسلمان نتیش سے ناراض ہیں۔ نتیش مہاگٹھ بندھن میں رہکرمسلمانوں کے لئے کچھ نہیں بھی کرتے تو یہ حالات نہیں بنتے لیکن اب جو وہ بھی کر رہے ہیں وہ مسلمان ووٹ کو لبھانے کے لئے کر رہے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے آر جے ڈی کو ووٹ دینے فیصلہ کر لیا ہے۔
محمد سلام کا یہ کہنا ایک حد تک صحیح ہے کہ نتیش کمار نے مسلمانوں کے لئے نئے-نئے کئی کام کئے ہیں۔ 2005 میں پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی انہوں نے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے شعوری کوشش شروع کی تھی۔ شروعات انہوں نے بھاگل پور فساد متاثرین کو نئے سرے سے انصاف دلانے اور اقتصادی مدد پہنچانے کی کوشش سے کی تھی۔ بعدکے سالوں میں انہوں نے مدرسوں کی جدیدکاری کی پہل کی اور یہاں کے اسٹوڈنٹس کے لئے بھی دوسرے سرکاری اسکول کے برابر اسکیمیں شروع کی۔
یہ بھی پڑھیں :بہار: اقلیتی اداروں میں عہدے خالی، عوام بے حال،ذمہ دار کون؟
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے قبرستان گھیرابندی، اقلیتی اسٹوڈنٹس کے لئے کوچنگ جیسے انتظام بھی کئے۔ 2017 میں بی جے پی کے ساتھ پھر سے حکومت بنانے کے بعد انہوں نے سرکاری اقلیت ہاسٹل میں رہنے والے اسٹوڈنٹس کے لئے ایک ہزار کا وظیفہ اور 15 کلو مفت چاول دینے کی اسکیم شروع کی ہے۔ ساتھ ہی ان کی حکومت نے پچھڑے طبقے سے آنے والے ایسے مسلم امیدواروں کو 50 ہزار کی حوصلہ افزائی کی رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے جو بی پی ایس سی اور یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کریںگے۔
لیکن ان کوششوں اور سیکولر امیج کے بعد بھی نتیش کو مسلمانوں کی حمایت کیوں نہیں مل رہی ہے؟ معاملہ کسی ایک پروگرام میں مسلموں کے نہیں جٹنے بھر کا ہے یا یہ جے ڈی یو کو صوبے میں مل رہی حمایت کا پیمانہ ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں سینئر صحافی سرور احمد کہتے ہیں؛
یہ پروگرام بہت حد تک صوبے کے مسلموں کے درمیان نتیش کی مقبولیت کو دکھاتا ہے۔ دراصل 2013 کے پہلے تک جب نتیش بی جے پی کے ساتھ تھے تب مسلمانوں سمیت سبھی کو لگتا تھا کہ وہ بہار این ڈی اے میں بڑے بھائی کے کردار میں ہیں لیکن 2017 میں پھر سے بی جے پی کے ساتھ آنے کے بعد لوگوں کی یہ رائے بدل گئی ہے۔
مانا جاتا ہے کہ نتیش مسلمانوں کے مسائل، سیاسی ایجنڈےاور سوالوں کو زیادہ وسیع تناظر میں دیکھتے-سمجھتے ہیں۔ نتیش اس کمیونٹی کے سماجی اور اقتصادی انصاف سے جڑے سوالوں کو زیادہ بہتر طریقے سے اٹھاتے بھی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے درمیان مقبولیت کو لےکرنتیش کمار کے ساتھ آج کے دور میں سب سے بڑی دقت یہ بتائی جاتی ہے کہ 2013 میں ان کی پارٹی فرقہ پرستی کے مدعے پر ہی این ڈی اے سے باہر ہوئی تھی اور آج جب فرقہ پرستی کا خطرہ زیادہ سنگین ہو چلا ہے اس دور میں وہ پھر سے این ڈی اے میں شامل ہو گئے ہیں۔
The post نتیش کو کیوں نہیں مل رہی مسلمانوں کی حمایت؟ appeared first on The Wire - Urdu.