جب تک گلوبلائزیشن کی اقتصادی پالیسیوں میں کوئی فیصلہ کن تبدیلی نہیں ہوتی، ہندوستان وشوشکتی بن جائے توبھی، حکومت کا سارا بوجھ ڈھونے والے نچلے طبقے کی یہ تقدیر بنی ہی رہنے والی ہے کہ وہ تلچھٹ میں رہکر عالمی سرمایہ داری کے رساؤ سے گزر بسر کرے۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارمن (فوٹو : پی ٹی آئی)
ملک کی پہلی خاتون وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے ذریعے پیش کئے گئے ‘ نئی ‘ نریندر مودی حکومت کے پہلے یونین بجٹ پر کسی بھی چرچہ کو اس کے منطقی حدود تک پہنچانے کے لئے لازمی طور پر تین باتوں کو یاد رکھنا ضروری ہے۔پہلی یہ کہ 24 جولائی 1991 کو اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہاراؤ کی حکومت کے ذریعے غیر برابری اور استحصال کو جائز قرار دینے والی گلوبلائزیشن اور لبرلزم کی پالیسیوں کے ‘ نفاذ ‘ کے بعد ملک کی سیاست میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کا فرق ختم-سا ہوکر رہ گیا ہے۔
اس کی وجہ سےحزب مخالف پارٹیاں اقتدار کی اپنی باری میں عوام کو غلط فہمی میں رکھنے کے لئے پرانے حاکموں کی کتنی بھی سخت تنقید کیوں نہ کریں، اختیاری اقتصادی پالیسیوں کے جوکھم اٹھانے سے بچتی اور پرانی لکیریں ہی پیٹتی رہتی ہیں۔تس پر یہ بھی چاہتی ہیں کہ متاثرہ عوام کو یہ پتہ بھی نہ چلے کہ ان کی تکلیفوں کے پیچھے دراصل غیربرابری اور استحصال کے پیروکاروں کو ملی سرکاری اجازتیں ہی ہیں۔ کیا تعجب کہ ایک کے بعد ایک آنے والے ان کے بجٹ غیر مساوی اعداد و شمار کی ایسی بازیگری بھر رہ گئے ہیں جن کو ان کے اعداد و شمار کے پار گئے بنا سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔
اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ 2025 تک ملک کی معیشت کو دو گنا سے بھی زیادہ یعنی پانچ لاکھ کروڑ ڈالر تک بڑھانے کے ہدف میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ اس بڑی معیشت میں اس بڑے ملک کے سارے لوگوں کو پیٹ بھر مقوی کھانا اور پینے کو ضرورت بھر صاف پانی بھی میسر ہوگا کہ نہیں۔دوسری بات یہ کہ نریندر مودی کی پچھلی حکومت رہی ہو یا یہ نئی، مسائل کی تسہیل اور مسترد ان کا سب سے من پسند شغل رہا ہے۔ اسی شغل کے تحت لوک سبھا انتخاب کے وقت اس حقیقت کو ہرممکن سطح پر چھپانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں بےروزگاری کی شرح پچھلے 45 سال کے اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اور اب کئی قدم آگے بڑھکر کہہ دیا گیا ہے کہ ملک میں بےروزگاری جیسا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں کیونکہ یہ 3.5 فیصد تک گر گئی ہے، جو دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔مزدور اور روزگار کے وزیر سنتوش گنگوار کی مانیں تو جو تھوڑا بہت مسئلہ ہے بھی، وہ بہتر مواقع اور من پسند روزگاروں کا ہے۔اسی طرح حکومت نے بجٹ سے عین پہلے مہنگائی کے بھی چھومنتر ہو جانے کا دعویٰ کر ڈالا تھا۔
دوسرے پہلو پر جائیں تو کسانوں اور غریبوں کے مسائل کے سرکاری مسترد کا گراف اور بھی اونچا ہے۔ غریبوں کی پہلے سے ہی متنازعہ تعداد کو اور متنازعہ بنا ڈالا گیا ہے، تو کسانوں کو چھے ہزار روپے سالانہ سمان ندھی دےکر ان کے سارے مسائل کا ایکمشت خاتمہ ہوا مان لیا گیا ہے۔ویسے بھی ذات اور مذہب کے آلودہ شعور کے ابھارکے اس دور میں حکومتوں کے لئے کسانوں کی طبقاتی موجودگی اور اثرات کو درکنار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہریوں کو مضبوط اور خودمختار بنانے کے مقدس مقصدسے سرکاری پالیسیوں کا تکیہ کیا ہٹا، حکومتوں نے خود کو ‘ عطیہ کے چوراہے پر بیٹھی ہوئی ‘ اعلان کر دیا ہے۔ وہ شہریوں کے ایسے گروپوں کو بڑا کرنے اور بڑھانے میں لگی رہتی ہیں، جو ان کے ذریعے بخشی جا رہی سہولیت، رعایتوں اور امدادوں وغیرہ پر جیسےتیسے گزر-بسر کرتے ہوئے ان کے ‘ احسان مند ‘ بنے رہیں۔
ان حکومتوں سے یہ تو ہوتا نہیں کہ پیداوار کے ذرائع میں شراکت داری کی بدولت کمزور طبقوں کی آمدنی کو اس سطح تک بڑھا دیں کہ وہ اپنی طاقت کے بل پر اپنے لئے ایک عدد چھت کے نیچے زندگی گزر بسر کی کم از کم سہولیات جٹا پائیں۔ اس لئے وہ پردھان منتری آواس یوجناجیسی سستی مقبولیت والی اسکیمیں لاکر ان کے معرفت عوام کو اپنا محتاج بناتی رہتی ہیں۔
ان اسکیموں کی کامیابی کی تشہیر یوں کی جاتی ہے کہ جیسے پانچ لاکھ کروڑ ڈالر کی معیشت والے نام نہاد نئے ہندوستان میں بھی کئی فیملیوں کا اپنے لیے ایک عدد چھت یا ایک عدد گیس سلینڈر نہ جٹا پانا حکومت کے لئے بدنما داغ کی نہیں بلکہ فخر کرنے کی بات ہو۔سوچیے ذرا کہ جب مسائل کی موجودگی ہی قبول نہیں کی جا رہی، تو ‘ چیلنجز کے فقدان میں ‘ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن بجٹ کو روایتی انعقاد میں نہیں بدل دیتیں تو کس ‘ مقصد ‘ سے جوڑتیں؟
تعجب نہیں کہ ‘ غریبوں کو طاقت اور نوجوانوں کو بہتر کل ‘ کے نام پر انہوں نے چالاکی سے اس متوسط طبقے کا ہی بھرپور خیال رکھا، بجٹ میں جس کی دلچسپی صرف اتنے تک ہوتی ہے کہ آمدنی محصول سے چھوٹ کی حد کا کیا ہوا یا کہ ہوم لون پر کتنی رعایت مل پائی؟ڈیزل اور پیٹرول کی مہنگائی کا ‘ مناسب انتظام ‘ کرکے انہوں نے اس طبقے کی امیدوں پر کچھ پانی پھیرا ہے، تو اپنے پیش رو ارون جیٹلی کی طرح ‘ موندہو آکھی کتہون کچھ ناہیں ‘ کی راہ پکڑکر بجلی، گیس اور پانی کے لئے ‘ ون نیشن ون گریڈ ‘ جیسے کئی حسین خواب بھی دکھا ڈالے ہیں، جو یقینی طور پر کئی ریاستوں کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں ووٹ بٹورنے کے کام آئیںگے۔
فطری طورپر ہی اس سے ان لوگوں کو مایوسی ہوگی جو سمجھتے تھے کہ پہلے سے مضبوط مینڈیٹ کے ساتھ لوٹی یہ حکومت ملک میں سیاسی رکاوٹ کا فائدہ اٹھاکر بغیرڈرے-سہمے وزیر اعظم نریندر مودی کے نئے ہندوستان کے حوصلہ مند منصوبہ کو پورا کرنے کے لئے بجٹ میں خوش آئندہ مستقبل کے لیے فیصلے کرےگی۔ایسے فیصلے، جو مندی اور قرض کے بحران سے جڑے اندیشوں کا مقابلہ کر رہی معیشت کے ساتھ دلت، محروم اور مظلوم طبقوں کی بدحالی بھی دور یا کم کر سکیںگے۔ لیکن غالباً مودی کی عظمت کے تھوتھے راگ نے ان کو نئے ہندوستان کی راہ میں کوئی نئی لکیر کھینچنے سے روک دیا۔
اس کی وجہ سے ان کو ایک دن پہلے پیش اقتصادی سروے کی ہی طرح بجٹ میں بھی نئے چکمہ کے برشاتی میں ہی پناہ لینی پڑی۔ ان میں سے ایک چکمہ کہیں یا دکھاوا امیروں پر ٹیکس بڑھانے کا بھی ہے، جو یاد دلاتا ہے کہ کیسے پچھلی حکومت کے دوران نوٹ بندی کو لےکر مشتہر کیا گیا کہ وہ ‘ امیروں کے چھکے چھڑا دینے والی ‘ ثابت ہوگی۔لیکن اس کے برعکس وہ غریبوں کے لئے ہی دشواریاں لانے والی ہی ثابت ہوئی کیونکہ اس پر تعمیل کرانے والے ڈھانچے میں غریب تو غریب ان کے متعلق احساس تک غیر حاضر تھا۔
ایسے میں امیروں پر ٹیکس اضافہ سے جڑا سچ تبھی پورا ہو سکتا تھا، جب وزیر خزانہ ساتھ ہی یہ بھی بتاتیں کہ ہماری حکومتوں نے بیل اؤٹ وغیرہ کے نام پر وقت وقت پر ان امیروں کو بھاری بھرکم ٹیکس کی چھوٹوں پر ملک کی کتی رقم خرچ کی ہے اور ان میں کتنے امیر ملک کو کتنی بڑی رقم کا چونا لگاکر غیر ممالک میں بس گئے ہیں؟
آزادی کے سات دہائی کے بعد ان پر ٹیکس بڑھانے کے بہانے غریبوں پر ‘ اموشنل اتیاچار ‘ سچ پوچھئیے تو مساوات پر مبنی اشتراکیت پسند سماج کی تعمیر آئینی عزم کی توہین ہی ہے۔اگلے پانچ سال میں بنیادی ڈھانچے میں ایک سو لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری کے وزیر خزانہ کے اعلان کے بابت بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ اس سرمایہ کاری کی ترجیحات کیا ہوںگی، اس کو لےکرکوئی امید نہیں باندھی جا سکتی۔
ملک کی پہلی خاتون وزیر خزانہ نے اپنے پہلے بجٹ میں کرنسی اسکیم کے تحت ہر رضاکار گروپ کی ایک خاتون کو ایک لاکھ روپے کا قرض دینے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ گروپ کی جن خواتین کے پاس جن دھن کھاتے ہوںگے، ان کو پانچ ہزار کے اوور ڈرافٹ کی بھی سہولت دی جائےگی۔کیا پتہ، اس اعلان کے وقت ان کو خواتین کی حفاظت کے لئے بنے نربھیا فنڈ کا وہ حشر یاد تھا یا نہیں کہ اس کی رقم کا بیس فیصد کا بھی بمشکل ہی استعمال ہو پا رہا ہے۔
صاف کہیں تو مودی حکومت کی طرف سے یہ بجٹ پیش بھلےہی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے کیا ہے، اصل میں یہ ان سے زیادہ پونجی بازار اور صارفین کے نظام کا بجٹ ہے، جن کا مشترکہ اعلان ہے کہ اہل ہیں وہی بےانتہا استعمال کریں۔اس استعمال سے جو سرمایہ جمع ہوگا، اس کا کچھ حصہ ہی بہہ کر تلچھٹ کے لوگوں تک جا پائےگا۔ جب تک گلوبلائزیشن کی اقتصادی پالیسیوں میں کوئی فیصلہ کن تبدیلی نہیں ہوتی، ہندوستان وشوشکتی بن جائے توبھی، حکومت کا سارا بوجھ ڈھونے والے نچلے طبقے کی یہ تقدیر بنی ہی رہنے والی ہے کہ وہ تلچھٹ میں رہکر عالمی سرمایہ داری کے رساؤ سے گزر بسر کرے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)