گزشتہ ہفتے لال قلعہ کے قریب ہوئے دھماکے کی تحقیقات کر رہی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے اتوار کو کہا کہ دھماکہ کرنے والی کار کو چلارہا عمر نبی ‘خودکش بمبار’ تھا۔ ایجنسی کے مطابق قومی دارالحکومت میں یہ اس طرح کا پہلا خودکش حملہ تھا، جو کار کی مدد سے کیا گیا۔
لال قلعہ کے پاس ہوئے دھماکے میں شامل کار جس ملزم کے نام پر رجسٹرڈ تھا، اس ملزم کو 17 نومبر کو نئی دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں لایا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: دہلی کے لال قلعے کے قریب کار بم دھماکے میں 13 افراد کی ہلاکت کے ایک ہفتے بعد نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے اتوار (16 نومبر) کو کہا کہ کار چلانے والا پیشہ سے ڈاکٹر عمر النبی’خودکش بمبار’ تھا۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، این آئی اے نے کشمیر کے ایک رہائشی کو گرفتار کیا ہے، جس پر عمر نبی کے ساتھ مل کر اس دہشت گردانہ حملے کی سازش کرنے کا الزام ہے۔
این آئی اے کے بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ قومی راجدھانی میں اس طرح کا یہ پہلا خودکش حملہ تھا، جو کار کی مدد سے کیا گیا۔
اس سے قبل، 10 نومبر کے دھماکے کے فوراً بعد وزارت داخلہ کے ذرائع نے کہا تھا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ دھماکہ قبل از وقت تھا۔ ملزم پولیس کے دباؤ اور اپنے دو ساتھیوں کی گرفتاری کی وجہ سے جلدی میں تھا، اس لیے دھماکہ اتنا بڑا نہیں ہوا جتنا ہو سکتا تھا۔
اتوار کو این آئی اے نے بتایا کہ دھماکے میں استعمال ہونے والی کار کسی عامر راشد علی کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔راشد علی کودہلی میں گرفتار کیا گیا ہے۔
این آئی اے نے 11 نومبر کو دہلی پولیس سے کیس اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور اس کے بعد کئی مقامات پر تلاشی مہم چلائی ہے۔
این آئی اے کے مطابق، اس کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموں و کشمیر کے پامپور کے سمبورہ کے رہنے والے عامر نے مبینہ ‘خودکش بمبار’ عمر نبی کے ساتھ مل کر اس حملے کی سازش رچی تھی۔
این آئی اے نے
کہا ،’عامر اس کار کی خریداری میں مدد کے لیے دہلی آیا تھا جسے بعد میں گاڑی پر مبنی آئی ای ڈی کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔’
ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ فرانزک تحقیقات میں مارے گئے کار ڈرائیور کی شناخت عمر نبی کے طور پر ہوئی ہے جو پلوامہ کا رہائشی ہے اور ہریانہ کے فرید آباد میں الفلاح یونیورسٹی کے جنرل میڈیسن کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا۔
این آئی اے کے بیان میں کہا گیا ہے،’ایجنسی نے نبی کی ایک دوسری کار کو بھی قبضے میں لے لیا ہے، جس کو شواہد کے لیے کھنگالا جا رہا ہے۔ ایجنسی نے اب تک 73 گواہوں سے پوچھ گچھ کی ہے، جن میں دھماکے میں زخمی ہونے والے بھی شامل ہیں۔’
بتایا گیا ہے کہ این آئی اے، دہلی، جموں و کشمیر، ہریانہ اور اتر پردیش کی پولیس اور دیگر مرکزی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کئی ریاستوں میں اس دھماکے سے متعلق اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایجنسی نے کہا، ‘حملے کے پیچھے بڑی سازش کا پردہ فاش کرنے اور ملوث دیگر افراد کی شناخت کے لیے کئی سراغوں پر کام جاری ہے۔’
جائے وقوعہ سے ملے کارتوس
دریں اثنا، دہلی پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ دھماکے کی جگہ سے پانچ بلیٹ کارتوس ملے ہیں، جن میں دو استعمال شدہ 9 ایم ایم کارتوس بھی شامل ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق، ایسے کارتوس عام شہریوں کو جاری نہیں کیے جاتے اور صرف خصوصی دستوں یا خصوصی اجازت والے افراد کو دیے جاتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہاں تعینات سیکورٹی اہلکاروں کا کوئی بھی کارتوس غائب نہیں تھا۔
بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس نے وادی میں کار ڈیلروں اور کھاد اور کیمیکل بیچنے والوں بالخصوص امونیم نائٹریٹ فروخت کرنے والوں کی تحقیقات تیز کر دی ہیں۔
یہ جانچ اس وقت شروع ہوئی جب 9-10 نومبر کو فرید آباد میں چھاپوں کے دوران امونیم نائٹریٹ سمیت تقریباً 2,900 کلو گرام دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا۔ یہ برآمدگی کشمیر میں سات رکنی بین ریاستی ‘وہائٹ کالر’ ٹیرر ماڈیول کی دریافت کے بعد کی گئی۔
اس ماڈیول سے وابستہ تین ڈاکٹروں کو 30 اکتوبر سے 8 نومبر کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں بتایا گیا کہ تفتیش میں یہ پورا معاملہ دہلی کار بم دھماکے سے متعلق پایا گیا، کیونکہ لال قلعہ کے قریب پھٹنے والی آئی20 کار کا ڈرائیور ڈاکٹر عمر نبی انہی تین ڈاکٹروں: مزمل احمد گنائی اور عدیل احمد راتھرکا معاون تھا۔ یہ تینوں جنوبی کشمیر کے رہنے والے ہیں۔
تیسری ڈاکٹر شاہین سعید کا تعلق لکھنؤ سے ہے اوروہ الفلاح یونیورسٹی میں کام کرتی تھیں، جہاں ڈاکٹر گنائی اور ڈاکٹر نبی نے بھی کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر راتھر کو اتر پردیش کے سہارنپور میں گرفتار کیا گیا ہے۔