نیوز کلک نے اپنے صحافیوں اور عملے کے یہاں چھاپوں، پوچھ گچھ اور گرفتاریوں کے بعد جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایسی حکومت، جو پریس کی آزادی کا احترام نہیں کرتی اور تنقید کو غداری یا ‘اینٹی نیشنل’ یا پروپیگنڈہ سمجھتی ہے، اس کی اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
نئی دہلی: آزاد نیوز پورٹل نیوز کلک، جس کے مدیران، صحافیوں، پارٹ ٹائم ملازمین اور معاونین کے یہاں منگل کو چھاپے مارے گئے،آلات ضبط کیے گئے، پوچھ گچھ کی گئی اور دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا، اس نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے پاس ابھی تک اس معاملے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے، جس کے لیے دہلی پولیس نے اس کے خلاف کارروائی کی۔
ویب سائٹ کے ڈائریکٹر پربیر پرکایستھ اور ایک دوسرے عہدیدار امت چکرورتی کی گرفتاری کے ایک دن بعد جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نیوز کلک کو ابھی تک ان کے خلاف ایف آئی آر کی کاپی نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی ان ‘جرائم کی صحیح تفصیلات’ بتائی گئی ہےجن کے الزام ان پرلگائے گئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا،’ہم اب تک جو معلومات اکٹھی کرپائے ہیں، ان کے مطابق نیوز کلک کو مبینہ طور پر چینی پروپیگنڈہ چلانے کے لیے یو اے پی اے کے تحت ملزم بنایا گیا ہے۔ ہم ایسی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں جو آزادی صحافت کا احترام نہیں کرتی اور تنقید کو غداری یا ‘اینٹی نیشنل’ پروپیگنڈہ سمجھتی ہے۔
بتادیں کہ منگل کی کارروائی نیوز کلک کے خلاف 17 اگست 2023 کو درج ایف آئی آر نمبر 224/2023 کے سلسلے میں کی گئی ہے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ اس کی جڑ اگست کے مہینے میں شائع ہونے والی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے لوک سبھا میں دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس لیڈروں اور نیوز کلک کو چین کی طرف سے ‘ ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیےچین سے پیسے ملے ہیں۔
ویب سائٹ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ نیوز کلک پر اب تک شائع ہونے والا تمام مواد انٹرنیٹ پر عوامی طور پر دستیاب ہے اور اسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس میں یہ بھی خصوصی طور پر ذکر کیا گیا کہ پولیس پوچھ گچھ کے دوران اس ‘چینی پروپیگنڈے’ کے زاویے پر زیادہ توجہ دیتی نظرنہیں آئی۔
‘دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے کسی بھی ایسے مضمون یا ویڈیو کے بارے میں نہیں بتایا ہے جسے وہ چینی پروپیگنڈہ سمجھتی ہے۔ درحقیقت، دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی طرف سے پوچھ گچھ کا طریقہ- دہلی فسادات، کسانوں کے احتجاج وغیرہ کی رپورٹوں کے سلسلے میں پوچھے گئے سوالات، یہ سبھی حالیہ کارروائی کے پیچھے کے مقصد اور بدنیتی پر مبنی ارادے کو ظاہر کرتے ہیں۔’
قابل ذکر ہے کہ منگل (3 اکتوبر) کو ‘چھاپےماری’ صبح سویرے شروع ہوئی، جو دہلی-این سی آر اور ممبئی میں 40 سے زیادہ مقامات پر کی گئی۔ ویب سائٹ سے وابستہ کل 37 مرد اور نو خواتین کے یہاں چھاپے مارے گئے اور پوچھ گچھ کی گئی۔ پولیس نے کئی پرانے اور نئے ملازمین کے لیپ ٹاپ، فون وغیرہ ضبط کیے۔ کچھ صحافیوں کو پوچھ گچھ کے لیے لودھی روڈ واقع دہلی پولیس کی اسپیشل سیل میں بھی لے جایا گیا۔
نیوز کلک کا کہنا ہے کہ صحافیوں کا سامان ضبط کرنے کے دوران لازمی ضابطے پرعمل نہیں کیا گیا۔
‘نیوزکلک کے احاطے اور ملازمین کے گھروں سے الکٹرانک آلات لازمی ضابطے پر عمل کیے بغیرجیسے کہ سیزر میمو، ضبط کیے گئے ڈیٹا کے ہیش ویلیو فراہم کرنا، یاحتیٰ کہ ڈیٹا کاپی کرنےدینے کی اجازت کے بنا ہی ضبط کیے گئے۔’
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے دفتر کو بھی سیل کر دیا گیا، جو’انہیں [ان کی] رپورٹنگ جاری رکھنے سے روکنے کی کوشش’ ہے۔
نیوز کلک کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ کو پہلے بھی نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس معاملے میں بہت کم پیش رفت ہوئی تھی، حالانکہ اس وقت بھی آلات ضبط کیے گئے تھے۔
‘نیوز کلک 2021 سے حکومت ہند کی مختلف ایجنسیوں کی کارروائیوں کے نشانے پر ہے۔ اس کے دفتر اور اس کے ملازمین کے گھروں پر ای ڈی، دہلی پولیس کے اقتصادی جرائم ونگ اور محکمہ انکم ٹیکس نے چھاپے مارے ہیں۔
ماضی میں بھی تمام آلات – لیپ ٹاپ، گزٹ، فون وغیرہ ضبط کیے جا چکے ہیں۔ تمام ای میل اور بات چیت کی باریکی سے جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ حکومت کی مختلف ایجنسیوں کی طرف سے وقتاً فوقتاًگزشتہ سالوں میں نیوز کلک کے تمام بینک اسٹیٹمنٹ، انوائسز، اخراجات اور موصولہ فنڈز کے ذرائع کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ مختلف ڈائریکٹرز اور دیگر متعلقہ افراد متعدد مواقع پر ان سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے پوچھ گچھ میں لاتعداد گھنٹے گزار چکے ہیں۔’
بیان کے مطابق، اس طرح کی کارروائی کے باوجود، پچھلے دو سالوں میں،’ای ڈی نیوز کلک کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام لگا کر شکایت درج نہیں کر سکی ہے’اور نہ ہی دہلی پولیس کے اقتصادی جرائم ونگ نے آئی پی سی کے تحت نیوز کلک کے خلاف قابل سزا جرائم کے لیےچارج شیٹ دائرکرسکی ہے اور نہ ہی محکمہ انکم ٹیکس عدالتوں کے سامنے اپنی کارروائی کا دفاع کر سکا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پچھلے کئی مہینوں میں پربیر پرکایستھ کو ان ایجنسیوں میں سے کسی نے بھی پوچھ گچھ کے لیے نہیں بلایا۔
نیوز کلک نے نیویارک ٹائمز کے مضمون کو ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔ بتادیں کہ اخبار کے مضمون اور اس کے نتائج کو لے کر امریکہ میں نیویارک ٹائمز کے دفاتر کے باہر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
‘پھر بھی، ایک ایسی حکومت ، جوتمام معلومات، دستاویزاور بات چیت وغیرہ تک رسائی کے باوجود نیوز کلک کے خلاف کوئی الزام ثابت کرپانے کی اہل نہیں ہے، اسے سخت یو اے پی اے نافذ کرنے اور ان آزاد اور بے خوف آوازوں کو دبانے، جو اصل ہندوستان —کسانوں، مزدوروں اور سماج کے دیگرمحروم طبقات کی بات سامنے رکھتے ہیں ،کو خاموش کروانے کےلیے نیو یارک ٹائمز میں شائع ایک فرضی مضمون کی ضرورت پڑی۔’
ویب سائٹ نے مزید کہا ہے کہ؛
نیوز کلک ایک آزاد نیوز ویب سائٹ ہے۔
ہمارا صحافتی مواد اس پیشے کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترتا ہے۔
نیوز کلک براہ راست یا بالواسطہ طور پرچین کی کسی بھی اکائی یا اتھارٹی کے حکم پر کوئی خبر یا معلومات شائع نہیں کرتا ہے۔
نیوز کلک اپنی ویب سائٹ پر کسی قسم کا چینی پروپیگنڈہ نہیں چلاتا ہے۔
نیوز کلک اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مواد کے بارے میں نیول رائے سنگھم سے کوئی ہدایات نہیں لیتا ہے۔
نیوز کلک کو موصول ہونے والی تمام فنڈنگ مناسب بینکنگ چینلوں کے ذریعے ہوئی ہے اور جیسا کہ دہلی ہائی کورٹ کی کارروائی میں ریزرو بینک آف انڈیا کی طرف سے تصدیق کی گئی ہے،اس کے بارے میں قانون کے مطابق متعلقہ حکام کو مطلع کر دیا گیا ہے۔
بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ،’ہمیں عدالتوں اور عدالتی کارروائی پر مکمل اعتماد ہے۔ ہم آئین ہند کے مطابق اپنی صحافتی آزادی اور زندگی کے لیے لڑیں گے۔