نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں، کارکنوں وغیرہ کے گھروں پر چھاپے ماری، ان کے موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ ضبط کرنے اوران سے پوچھ گچھ کرنے کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے میڈیا تنظیموں، کارکنوں اور اپوزیشن نے اسے میڈیا کو ڈرانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
(السٹریشن : پکسابے/دی وائر)
نئی دہلی: دہلی پولیس کی طرف سے منگل کی صبح میڈیا آؤٹ لیٹ نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں، کارکنوں، اسٹینڈ اپ کامیڈین وغیرہ کے یہاں چھاپے ماری ، موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ کی ضبطی اور پوچھ گچھ کی میڈیا تنظیموں اور اپوزیشن لیڈروں نے
سخت تنقید کی ہے۔
دی وائر کو موصولہ اطلاعات کے مطابق، یہ کارروائی17 اگست 2023 کو درج ایف آئی آر نمبر 224/2023 کے سلسلے میں ہیں، جس میں سخت یو اے پی اےایکٹ کے تحت کئی دفعات سمیت تعزیرات ہند کی153 (اے) اور 120 (بی) لگائی گئی ہیں۔
یہ معاملہ مبینہ طور پر بی جے پی کے ایک دعوے سے متعلق ہے، جہاں بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لوک سبھا میں کہا تھا کہ کانگریس لیڈروں اور نیوز کلک کو چین سے ‘ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیے فنڈنگ ملی ہے۔
منگل کی صبح ویڈیو جرنلسٹ ابھیسار شرما، سینئر صحافی بھاشا سنگھ، سرکردہ صحافی ارملیش، نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے امدیر پربیر پرکایستھ اور مصنفہ گیتا ہری ہرن، مشہور صحافی اور مبصراونندھو چکرورتی، کارکن اور مؤرخ سہیل ہاشمی کے علاوہ اسٹینڈ اپ کامیڈین سنجے راجوراکےیہاں ‘چھاپے ماری’ کی گئی ۔ اس کے بعد کئی افراد کو حراست میں لیا گیا تھا اور منگل کی شام کو رہا کر دیا گیا۔
جن صحافیوں اور عملے کے یہاں چھاپے مارے گئے، انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے ہندوستان میں کسانوں کے مظاہروں اور کووڈ وبائی امراض جیسے واقعات کی رپورٹنگ کی تھی۔
اس کارروائی کی میڈیا تنظیموں اور سماجی کارکنوں سمیت اپوزیشن نے مذمت کی ہے۔
پریس کلب آف انڈیا، ممبئی پریس کلب، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا (این ڈبلیو ایم آئی) نے میڈیا کی آزادی پر چھاپوں کے سنگین اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ وہ 3 اکتوبر کو سینئر صحافیوں کے گھروں پر چھاپے اور اس کے بعد ان میں سے کئی صحافیوں کی حراست کے حوالے سے فکرمندہے اور اسٹیٹ سے صحیح ضابطے پر عمل کرنے اور سخت فوجداری قوانین کو پریس کو ڈرانے کا ذریعہ نہ بنانے کی اپیل کرتا ہے۔
این ڈبلیو ایم آئی نے کہا، ‘اقتدار کے سامنے سچ بولنے والے صحافیوں، کارکنوں اور فنکاروں کو حکومت کی جانب سے مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، جبکہ چاپلوس میڈیا پرسنز اور میڈیا ہاؤسز کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ اختلافات کو کچلنے کی یہ مہم ختم ہونی چاہیے۔
نیشنل الائنس آف جرنلسٹس، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (دہلی یونٹ) نے بھی اسی طرح کے بیانات جاری کیے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مرکز کی طرف سے پریس کی آزادی کو ختم کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔کسی میڈیا تنظیم کے تقریباً تمام ملازمین پر چھاپہ مارنے اور انہیں ڈرانے کی ایسی کارروائی کبھی سنی نہیں گئی۔ نیوز کلک مینجمنٹ یہ کہتا رہا ہے کہ انہیں جو بھی فنڈنگ ملی ہے وہ قانونی ذرائع سے ملی ہے اور اس کے ثبوت دہلی ہائی کورٹ میں پیش کیے گئے ہیں۔
آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنس ایسوسی ایشن (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) نے بھی منگل کو صحافیوں کے خلاف کی گئی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ان کے بیان میں کہا گیا ہے، ‘یہ انتہائی غیر جمہوری، غیر منصفانہ، جابرانہ اقدام واضح طور پر آزاد اور نڈر صحافیوں اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے دیگر افراد کو ڈرانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ بی جے پی حکومت نے اب ان چھاپوں کو انجام دینے اور متعلقہ افراد کے لیپ ٹاپ اور موبائل سمیت الکٹرانک سامان ضبط کرنے کے لیے آئی پی سی کی دیگر دفعات کے ساتھ سخت یو اے پی اے کا استعمال کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
مؤرخ سہیل ہاشمی کی رہائش گاہ پر بھی دہلی پولیس کی کارروائی ہوئی۔ ان کی بہن اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اس حکومت میں صحافیوں، دانشوروں، فنکاروں اور عام شہریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
انہوں نے لکھا،’قانونی کارروائی کے نام پر آج عام لوگوں کو حکومت کی طرف سے دھمکی، ہراسانی اور ڈر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہریوں کو ان کے آئینی حقوق کے استعمال سے روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے اس طرح کے دھمکی آمیز ہتھکنڈوں کے سامنے ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
اپوزیشن نےاس کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، کہا- توجہ ہٹانے کی ترکیب
کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے لکھا کہ صحافیوں کے خلاف یہ کارروائی بہار کے ذات پر مبنی سروے کے نتائج اور ملک بھر میں ذات پر مبنی مردم شماری کی بڑھتی ہوئی مانگ سے توجہ ہٹانے کا ایک نیا طریقہ ہے۔
حزب اختلاف کے ‘انڈیا’ اتحاد نے بھی صحافیوں پر چھاپوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ میڈیا اور آئین کے ذریعہ محفوظ کردہ اظہار رائےکی آزادی کے ساتھ ‘مضبوطی سے کھڑا ہے’۔
اس نے میڈیا کے سلسلے میں انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) کے ضوابط کے تباہ کن اثرات کا ذکر کیا ہے۔
‘پچھلے نو سالوں میں بی جے پی حکومت نے جان بوجھ کر میڈیا پر جبر کیا اور اس کودبایا ہے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو تعینات کرکے برٹس براڈکاسٹنگ کارپوریشن، نیوز لانڈری، دینک بھاسکر، بھارت سماچار، دی کشمیر والا، دی وائر وغیرہ اور حال ہی میں نیوز کلک کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے۔
بی جے پی حکومت نے سرمایہ داروں کے ذریعے میڈیا تنظیموں پر قبضہ کرنے کی سہولت فراہم کرکے میڈیا کو اپنے متعصبانہ اور نظریاتی مفادات کے لیےماؤتھ پیس میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت اور اس کی نظریاتی وابستگی سے جڑی تنظیموں نے اقتدار کے سامنے سچ بولنے والے صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سہارا لیا ہے۔ اس کے علاوہ، بی جے پی حکومت نے انفارمیشن ٹکنالوجی رول 2021 جیسی رجعت پسند پالیسیوں کو بھی آگے بڑھایا ہے جو میڈیا کو غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنے سے روکتی ہے۔ ایسا کرکے، بی جے پی نہ صرف ہندوستانی عوام سے اپنے گناہ چھپا رہی ہے، بلکہ وہ ایک جمہوریت کے طور پر ہندوستان کی عالمی ساکھ سے بھی سمجھوتہ کر رہی ہے۔
یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ بی جے پی حکومت کے جابرانہ اقدامات ‘یقینی طور پر صرف ان میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف ہیں جو اقتدار کے خلاف سچ بولتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک میں نفرت اور تقسیم کو ہوا دینے والے صحافیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات آتی ہے تو بی جے پی حکومت کو لقوہ مار جاتا ہے۔ قومی مفاد میں یہ مناسب ہوگا کہ بی جے پی حکومت ملک اور عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دے اور اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے میڈیا پر حملے بند کرے۔’
الکٹرانک آلات کی ضبطی پر اٹھے سوالات
اس کارروائی کے درمیان انٹرنیٹ کی آزادی کی وکالت کرنے والے کارکنوں نے ڈیجیٹل ڈیوائسز کی ضبطی کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک طرح کا رجحان بن گیا ہے۔
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے اپار گپتا نے لکھا کہ صحافی کے فون اور ڈیجیٹل آلات کو ضبط کرنا ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے جس میں اصلاحات اور سیف گارڈ دینے کی ضرورت ہے۔
صحافی سورو داس نے سوال اٹھایا،’اگر حکومت غیر ملکی اخباری رپورٹس کی بنیاد پر صحافیوں اور کارکنوں پر اتنی مستعدی سے چھاپے مار سکتی ہے اور ان کے آلات ضبط کر سکتی ہے، تو یہ کارروائی اس وقت کہاں تھی جب واشنگٹن پوسٹ نے بھیما کورےگاؤں میں حکومت سے وابستہ افراد کی جانب سے سازش کرنے کے شواہد کا انکشاف کیا گیا۔ کیا طاقت کا چنندہ استعمال ہوا ہے؟
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اسے صحافیوں کے گھروں پر چھاپوں اور ڈیجیٹل آلات کی ضبطی پر تشویش ہے۔ اس طرح کی من مانی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہیں اور قانون کے مناسب عمل کی توہین کرتے ہوئے پریس کی آزادی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔