ہندوستان کے فوجداری نظامِ عدل کو تبدیل کرنے کےلیے متعارف کرائے گئے تین بل بنیادی طور پر پرانے قوانین کی دفعات کی ہی نقل ہیں، لیکن ان نئے قوانین میں کچھ خاص تبدیلیاں کی گئی ہیں جو انھیں برطانوی قوانین سےبھی زیادہ خطرناک بناتی ہیں۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
گزشتہ دسمبر میں ہندوستانی پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس میں 140سے زائد ارکان پارلیامنٹ کی معطلی کے باوجود ہندوستان کے فوجداری نظامِ عدل میں تبدیلی کے تین بل — انڈین جسٹس کوڈ، انڈین سول پروٹیکشن کوڈ اور انڈین ایویڈینس بل منظور کیے گئے۔ جس پر صدر نے 25 دسمبر کو اپنی مہر ثبت کر دی۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے ان بلوں کو 150 سال سے زیادہ پرانے برطانوی قوانین کی وراثت کو ختم کرنے کا وسیلہ قرار دیا، جس میں اب سزا کے بجائے انصاف ہوگا۔
اگرچہ یہ قانون بنیادی طور پر پرانے قوانین کی دفعات کی ہی نقل ہے لیکن ان نئے قوانین میں کچھ خاص تبدیلیاں کی گئی ہیں جو انہیں برطانوی قوانین سے زیادہ خطرناک بناتی ہیں۔
ان تین بلوں میں سے ایک، انڈین سول پروٹیکشن کوڈ، فوجداری نظامِ عدل کےعملدرآمدسے متعلق ہے، جو لاگو ہونے پر ضابطہ فوجداری، 1973 کی جگہ لے لے گا۔ فوجداری نظامِ عدل کے عملدرآمد میں ملزم اور اس کی آزادی سے متعلق تین اہم پہلو ہیں – گرفتاری، حراست اور ضمانت جن کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
معزز سپریم کورٹ نے
ڈی کے بسو کیس میں گرفتاری کے اختیارات کے غلط استعمال اور
پریم شکلا بنام دہلی ایڈمنسٹریشن میں ہتھکڑی کے استعمال کے بارے میں اہم رہنما خطوط دیے ہیں، جن کو قانون میں پوری طرح شامل کرنے کا مطالبہ طویل عرصے سے کیا جا رہا ہے۔ نئے قانون میں نہ صرف اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ ہتھکڑی کے استعمال کو بڑھانے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
گرفتاری پولیس کا صوابدیدی اختیار ہے، جس کا استعمال پولیس اپنی مرضی کے مطابق کر سکتی ہے۔ گرفتاری سےمتعلق معاملوں کو دیکھیں تو مدھیہ پردیش میں سی پی اے پروجیکٹ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس اس صوابدیدی اختیار کا استعمال بنیادی طور پر درج فہرست قبائل، درج فہرست ذات، ڈینوٹیفائیڈ کمیونٹی اور دیگر پسماندہ گروپوں کے خلاف زیادہ کرتی ہے۔
انڈین سول پروٹیکشن کوڈ میں سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے ایک پولیس حراست سے متعلق ہے، جس میں دفعہ 187(2) اور 187(3) سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پولیس حراست 60 یا 90 دن تک بڑھائی جا سکتی ہے جو پہلے شروعات کے 15 دن تھے۔ اس کے علاوہ عدالتی حراست کے بعد دوبارہ پولیس حراست کا بھی اہتمام ہے جو پولیس تفتیش کے لیے گرفتاری کے 40 یا 60 دن بعد تک لی جا سکتی ہے۔
اس کا اثر ضمانت پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ پولیس تفتیش کے نام پر دوبارہ حراست کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس ضابطہ میں ٹرائل کے وقت مزید تفتیش کے لیے بھی ایک شق موجود ہے اور اس وقت گرفتاری یا حراست کے حوالے سے ضابطے کیا ہوں گے، اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے
سی بی آئی بنام انوپم جے کلکرنی کیس میں واضح کیا گیا ہے کہ پولیس حراست ابتدائی 15 دنوں کے بعد نہیں دی جاسکتی تو موجودہ دفعات اس کے خلاف کام کرتی ہیں۔ حکومت نے اس موضوع پر اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔
پولیس حراست میں تشدد ایک برہنہ سچ ہے۔
بودھن سابر جیسے مشہور کیس پولیس حراست میں اضافے کے خطرات کو واضح طور پر اجاگر کرتے ہیں۔ انڈیا اینوئل رپورٹ آن ٹارچر، 2020 کے مطابق، ایک سال میں 111 افراد پولیس کی حراست میں ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر ہلاکتیں مبینہ طور پر پولیس تشدد کی وجہ سے ہوئیں۔
رپورٹ میں دلت، آدی واسی اور دیگر پسماندہ طبقات کے لوگوں کے خلاف پولیس حراست میں تشدد اور پولیس کے ذریعے ریپ کے معاملات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔ ایسے میں پولیس حراست میں تبدیلی کے برے اثرات بنیادی طور پر ان گروپوں پر پڑیں گے۔
ضمانت سے متعلق دفعات میں ایک تبدیلی زیر سماعت قیدیوں سے متعلق ہے، جس میں موجودہ قوانین کے مطابق، کیس کے زیر سماعت رہتے ہوئے قیدی کے مکمل سزا کی آدھی مدت تک جیل میں رہنے پر اس کو ضمانت دی جا سکتی ہے؛ لیکن نئے ضابطے کے نفاذ کے بعد زیر سماعت قیدی جن کے خلاف ایک سے زائد کیس چل رہے ہوں یا ایک کیس میں ایک سے زائد دفعہ لگائی گئی ہو، وہ ضمانت کی اس شق کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
یہ ضمانت کے بنیادی اصول ‘ضمانت اصول ہے اور جیل استثنیٰ ہے’ کے بھی خلاف ہے۔ یہ عام سمجھ ہے کہ جب کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو اس میں ایک سے زیادہ دفعہ لگائی جاتی ہے۔ ایسے میں زیر سماعت قیدیوں کو جیل میں ہی رکھناان کے ‘جرم ثابت ہونے سے پہلے بے گناہ’ ہونے کے انصاف کے اصول کے بھی خلاف ہے۔
غور طلب ہے کہ زیر سماعت قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد پسماندہ طبقات اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق، جیلوں میں بند 75 فیصد سے زیادہ قیدی زیر سماعت ہیں؛ جس میں 30 فیصد ایس سی اور ایس ٹی، 35 فیصد او بی سی اور 19.3 فیصد مسلمان ہیں۔ اس صورتحال میں ضمانت سے متعلق دفعات کو سخت کرنے سے حاشیے کے طبقوں کے کرمنلائزیشن کو فروغ ملے گا۔
یہ نئی تبدیلیاں واضح طور پر ہمارے نظامِ عدل کو پولیس کی جوابدہی کے اصول سے دور اور پولیس کو زیادہ اختیارات دینے کی سمت میں ہیں۔ اور ان اختیارات کے غلط استعمال کی تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر اس نئے قانون کو اسی طرح نافذ کیا گیا تو پولیس کی طرف سے ان قوانین کا پسماندہ طبقات، قبائلی گروہوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف غلط استعمال میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
(تصویر پرمار، ہرش کنگر اور ساگر سونی وکیل ہیں اور کرمنل جسٹس اینڈ پولیس اکاونٹیبلٹی پروجیکٹ کے ممبر ہیں۔)