نیٹ-یوجی معاملے میں سپریم کورٹ نے سوموار کو 30 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کی، جن میں امتحان میں بے ضابطگی اور نقل کا الزام عائد کرنے والی درخواستوں کے ساتھ ساتھ امتحان کو نئے سرے سے کرانے کی درخواستیں بھی شامل تھیں۔
(تصویر بہ شکریہ: X/@AamAadmiParty)
نئی دہلی: میڈیکل انٹرنس اگزام نیٹ-یوجی 2024تنازعہ پر سوموار (8 جولائی) کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ملک کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صاف ہے کہ پیپر لیک ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کا دائرہ کتنا بڑا ہے اور پیپر لیک کی نوعیت کیاہے۔
لائیو لاءکی خبر کے مطابق، سپریم کورٹ نے پیپر لیک کی نوعیت اور فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں مرکزی حکومت اور نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) سے کئی اہم سوالوں کے جواب طلب کیے۔ اس کے علاوہ عدالت نے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے بھی کہا ہے کہ وہ اب تک کی تحقیقات کے بارے میں اپ ڈیٹ دیں۔
معلوم ہو کہ نیٹ-یوجی معاملے میں سپریم کورٹ نے سوموار کو ایک ساتھ 30 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کی۔ ان درخواستوں میں امتحان میں بے ضابطگیوں اور نقل کے الزامات کے ساتھ ساتھ امتحان کو نئے سرے سے کرانے کی درخواستیں بھی شامل تھیں۔
‘امتحان کو دوبارہ کرانا آخری آپشن ہونا چاہیے’
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، عدالت نے سوموارکی سماعت میں واضح طور پر کہا، ‘اگر امتحان کی شفافیت ختم ہو جاتی ہے اور خلاف ورزی پورے عمل کو متاثر کرتی ہے، تو فائدہ اٹھانے والوں کو دوسروں سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے، یا پیپر لیک سوشل میڈیا کے ذریعےگیا ہے تو دوبارہ امتحان کرانے کا فیصلہ دینا ضروری ہو سکتا ہے۔’
تاہم، عدالت نے یہ بھی کہا، ‘صرف دو طالبعلموں کی دھاندلی کی وجہ سے پورے امتحان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا عدالت کو لیک کی نوعیت کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ دوبارہ امتحان کا حکم دینے سے پہلے ہمیں لیک کے دائرے کے بارے میں جاننا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم 23 لاکھ طالبعلموں کے معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ امتحان کو دوبارہ کرانا آخری آپشن ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں جو کچھ بھی ہوا، اس کی تحقیقات ملک بھر کے ماہرین کی ملٹی ڈسپلنری کمیٹی سے کرائی جانی چاہیے۔
بنچ نے مزید کہا، ‘ جو کچھ ہوا ہمیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن فرض کر لیں کہ حکومت امتحان کو رد نہیں کرے گی ، تو وہ پیپر لیک سے فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کے لیے کیا کرے گی؟’
سپریم کورٹ نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ پیپر لیک ہونے کی وجہ سے کتنے طلباء کے نتائج روکے گئے ہیں اور یہ طلباء جغرافیائی طور پر کہاں ہیں؟ کیا اب بھی غلط کام کرنے والوں کا سراغ لگایا جا رہا ہے اور کیا وہ اب تک فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کربھی پائی ہے؟
‘سائبر فرانزک یونٹ اور مصنوعی ذہانت کا استعمال’
ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق، سی جے آئی کی سربراہی والی بنچ نے پوچھا، ‘اگر این ٹی اے کی جانب سے لیک کے دیگر فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کے لیے تحقیقات کی جانی ہے، تو کاؤنسلنگ پر کیا کیا جانا چاہیے؟’
سپریم کورٹ نے مزید کہا، ‘ہم تعلیم کی سب سے باوقار اکائی سے نمٹ رہے ہیں۔ ہر متوسط طبقے کا فرد چاہتا ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹری یا انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کریں۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہم امتحان رد نہیں کرنے جا رہے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو تفتیشی افسر کو لیک میں اپنائے گئے طریقہ کار کی نشاندہی کرنی چاہیے تاکہ قصور وار طلبہ کو باقیوں سے الگ کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ نے سائبر فرانزک یونٹ کو شامل کرنے اور اے آئی کا استعمال کرکے غلط کام کرنے والوں کی تعداد معلوم کرنے اور ان کے لیے دوبارہ امتحان کے امکانات تلاش کرنے کے بارے میں پوچھا۔ عدالت نے سی بی آئی کو بھی ہدایت دی کہ وہ تحقیقات کی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرے۔
عدالت نے این ٹی اے کو ہدایت دی کہ وہ بتائے کہ پہلی بار سوالنامہ کب لیک ہوا۔ وہ سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے واقعہ اور 5 مئی کو ہونے والے امتحان کے درمیان کی مدت کے بارے میں بھی بتائے۔
سپریم کورٹ نے بدھ یعنی 10 جولائی کو شام 5 بجے این ٹی اے، مرکز اور سی بی آئی کے حلف ناموں کو ریکارڈ پر رکھنے کو کہا ہے۔ اب اس معاملے کی اگلی سماعت 11 جولائی کو ہوگی۔
غور طلب ہے کہ نیٹ-یوجی 2024 میں
مبینہ بدعنوانیوں کے الزامات کے درمیان نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے اپنی گورننگ باڈی کے چیئرمین کو ہی انکوائری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد تحقیقات کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے جا رہے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ اس بار نیٹ کا امتحان 5 مئی کو ہوا تھا اور اس میں شامل ہونے کے لیے 24 لاکھ سے زیادہ طلباء نے اپنا رجسٹریشن کرایا تھا۔ ان میں سے 23.33 لاکھ بچے امتحان میں شریک ہوئے۔
پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق امتحان کے نتائج کا اعلان 14 جون کو ہونا تھا۔ تاہم نتائج کا اعلان دس دن پہلے یعنی 4 جون کو کیا گیا۔
تنازعہ کے بعد تشکیل دی گئی کمیٹی نے 5 مئی کو مقررہ امتحان کے دوران وقت برباد کیے جانے کے معاملے میں 1563 امیدواروں کے لیے نیٹ2024کے دوبارہ انعقاد کی سفارش کی تھی۔
این ٹی اے 23 جون کو گریس مارکس پانے والے 813 امیدواروں کے دوبارہ ٹیسٹ کا
نتیجہ جاری کر چکا ہے ۔ ترمیم شدہ نتائج کے ساتھ ٹاپر ٹیلی 67 سے گھٹ کر 61 ہوگئی تھی۔
نیٹ یو جی 2024 آل انڈیا کوٹہ (اے آئی کیو) سیٹ کے لیے کاؤنسلنگ 6 جولائی کو شروع ہونے والی تھی، جسے اگلے احکامات تک
ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل اس امتحان میں دھاندلی سے متعلق الزامات کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ نے کاؤنسلنگ پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا تھا۔