نیرج چوپڑہ کی شاندار کارکردگی کے بعد ان کی ماں کا ایک بیان دنیا بھر کے میڈیا میں سرخیوں میں ہے۔ نیرج کی ماں نے کہا کہ جس نے گولڈ میڈل جیتا ہے وہ بھی اپنا ہی لڑکا ہے۔ انہوں نے یہ بیان پاکستان کے ارشد ندیم کے گولڈ میڈل جیتنے کے بعد دیا۔ نیرج چوپڑہ کی ماں کا یہ بیان جنگی جنون میں مبتلا ہندوستان کے بیشتر میڈیا گھرانوں کو راس نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی ان سیاستدانوں کو جو ہمیشہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی تیز تلوار بھانجتے رہتے ہیں۔
ارشد ندیم اور نیرج چوپڑہ، فوٹو بہ شکریہ: @ArshadNadeemPak
پیرس اولمپک میں جاری مختلف مقابلوں کے حوالے سے ہر ساعت نئی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ کچھ جو مایوس کرتی ہیں اور کچھ جو راحت اور سکون دینے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت، لگن اور دوستی کی مثال ہیں۔ کشتی کے اکھاڑے سے ونیش پھوگاٹ کی
افسوسناک وداعی نے جہاں مایوس کیا، وہیں نیرج چوپڑہ کے سلور میڈل نے پورے ملک میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑا دی ہے۔
تاہم، جیولین تھرو کے مقابلے میں پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے اس بار ورلڈ ریکارڈ توڑ دیا۔ انہوں نے 92.97 میٹر جیولین تھرو کرکے طلائی تمغہ اپنے نام کر لیا۔ وہیں نیرج چوپڑہ جیولین تھرو میں 89.45 میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سلور میڈل کے دعویدار بنے۔ نیرج چوپڑہ ٹوکیو اولمپک میں گولڈ میڈل لے کر آئے تھے۔ اس بار اگرچہ وہ گولڈ سے محروم رہے، لیکن انہوں نے اپنے حریف ارشد ندیم کی محنت اور جذبے کی دل کھول کر تعریف کی۔
نیرج چوپڑہ کی شاندار کارکردگی کے بعد ان کی ماں کا ایک بیان دنیا بھر کے میڈیا میں سرخیوں میں ہے۔ نیرج کی ماں نے کہا کہ جس نے گولڈ میڈل جیتا ہے وہ بھی اپنا ہی لڑکا ہے۔ انہوں نے یہ بیان پاکستان کے ارشد ندیم کے گولڈ میڈل جیتنے کے بعد دیا۔ نیرج چوپڑہ کی ماں کا یہ بیان جنگی جنون میں مبتلا ہندوستان کے بیشتر میڈیا گھرانوں کو راس نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی ان سیاستدانوں کو جو ہمیشہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی تیز تلوار بھانجتے رہتے ہیں۔
یہ بیان اکثرمیڈیا گھرانوں کے کاروباری ڈھانچے اور بزنس ماڈل کے لیےاس لیے بھی تکلیف دہ ہے کہ یہ نقلی قوم پرستی کے بیانیہ اور اس کے حدود کا ایک کاؤنٹر ورلڈ تخلیق کرتاہے۔ یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے کہ موجودہ مین اسٹریم میڈیا کے بیشتر اینکر تقسیم اور نفرت کی جس سیاست کو بڑھ چڑھ کر فروغ دیتے ہیں، ان کے لیے ایسےکسی بیان کو قبول کرنا انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہے۔ خاص طور پر الکٹرانک میڈیا کےشب و روز چلنے والے خبریہ چینل جو رات کے 8-10 بجے کے درمیان پرائم ٹائم میں مسلسل ایسے خیالات کی تشہیر کرتے ہیں جس سے مختلف مذاہب اور معاشروں کے درمیان باہمی تقسیم اور غلط فہمی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پولرائزیشن ہوتا ہے۔ باہمی نفرت مضبوط ہو جاتی ہے۔ نیرج چوپڑہ کی ماں کا بیان اکثر میڈیا مالکان کےمنافع پیدا کرنے والی کتاب کے نقطہ نظر سے گھاٹے کا سودا ہے، کیونکہ اس سے سنسنی پیدا نہیں ہوتی، ہیجان برپا نہیں ہوتا۔
اس کے باوجود، نیرج چوپڑہ کی ماں کا یہ بیان ان لوگوں کو ضرور راحت بخش رہا ہے جو ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ، مشترکہ ثقافت اور مشترکہ ورثے کو نشان زد کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان امن ، چین اور دوستی کے مضبوط رشتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ سرحد کے دونوں طرف ہیں۔ بھلے ہی وہ اپنے اپنے ملک میں اقلیت میں ہیں۔ ایسے لوگ عام طور پر مضبوط یا فیصلہ کن آواز نہیں ہوتے۔ انہیں حاشیے کا باشندہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ دشمنی کے جذبات کے بجائے بقائے باہمی اور باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ شراکت داری کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر رابطے اورگفت وشنید کے متمنی ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپسی صلاحیت ہو، سمجھداری ہواور یہ کہ تمام دوطرفہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔
جنوبی ایشیا کے مشترکہ مستقبل کے لحاظ سے ارشد ندیم اور نیرج چوپڑہ کے درمیان میدان میں ایک دوسرے کے تئیں جو باہمی خیر سگالی کا مشاہدہ کیا گیا، وہ مشترکہ تاریخ اور ورثے کے ایک اہم پہلو کی طرف بھی ایک اہم اشارہ کرتا ہے۔ ورنہ، کرکٹ جیسے کھیل میں 20-25 سال پہلے بلکہ کر اب بھی جس طرح کی زبان اور نظریے کا استعمال کیا جاتا تھا وہ دونوں ممالک کے درمیان آپسی عداوت اور دشمنی کے رویے کومستحکم ہی کرتا نظر آتا ہے۔
پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم اور ہندوستانی ایتھلیٹ نیرج چوپڑہ کی پیرس اولمپک میں کامیابی اور اس کے بعد نیرج کی ماں کے خیر سگالی کے بیان کی روشنی میں چیزوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سرحد کے دونوں طرف آباد پنجاب کے درمیان جو ایک تاریخی اشتراک ہے، وہ پورے جنوبی ایشیا کے اتحاد کا ایک نیا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہم بحیثیت قوم اپنی تاریخ سے سبق سیکھنے کی حکمت اور شعور رکھتے ہوں۔
پنجاب کی سرزمین ہمیشہ محبت اور بھائی چارے کے پیغام دیتی آئی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف پنجاب کی مٹی ایک جیسی ہے۔ جغرافیہ، کھان پان اور ثقافت میں اشتراک کی بہت سی روایات ہیں، جو باہمی ہم آہنگی کے احساس کو مضبوط کرتی ہیں۔ 1965 کی جنگ سے پہلے امرتسر اور لاہور کے درمیان آمدورفت بہت آسان تھی۔ امرتسر کے پروفیسر لاہور کی یونیورسٹی یا کالج میں امتحان لینےیا کاپیاں چیک کرنےصبح جاتے تھے اور شام کو واپس آجاتے تھے۔ پنجاب کے اکثر لوگوں کے لیے تقسیم کبھی بھی نفسیاتی دوری کی وجہ نہ بن سکی۔
ایک اور سچائی یہ ہے کہ سماجیات اور سیاسیات کے تقریباً تمام مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ جدید قومی ریاستیں عموماً ایک خیالی کمیونٹی ڈویژن اور ان کی سخت درجہ بندی کی پیداوار ہیں۔ اگر کوئی چیز ابدی طور پر لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے تو وہ باہمی تعاون اور باہمی بھائی چارے یا بہناپے کا جذبہ ہے۔ اس میں پوری انسانی تہذیب کا مستقبل محفوظ ہے۔ جنگ، نفرت اور تعصب یہ سب مٹھی بھر لوگوں کے استحقاق اور مسلسل منافع کے نظام کو برقرار رکھنے کے اوزار ہوتے ہیں۔
یہ انسانی تہذیب کا مشترکہ المیہ ہے کہ جدید کھیلوں کے میدان مسابقتی قوم پرستی کے انہی غیر مرئی ذرائع کے لیے زور-آزمائش کی جگہ بن چکے ہیں۔ ارشد ندیم اور نیرج چوپڑہ جیسے کھلاڑی بعض اوقات عام سے انسانی وقار کے ساتھ اپنے برتاؤ اور حسن سلوک سے خیالی خوف پر مبنی نفرت اور جنگی جنون کے پورے منصوبے کی حقیقت کو بے نقاب کردیتے ہیں۔
نیرج چوپڑہ کی ماں کا یہ خیال کہ جس نے گولڈ جیتا ہے وہ بھی ان کا اپنا ہی لڑکا ہے، ہندوستان اور پاکستان کے شہریوں کے درمیان باہمی تعامل، دوستی اور خیر سگالی کی ضرورت پراصرار کرتا ہے۔ نیرج چوپڑہ کی ماں جیسے لوگوں کی پاکیزہ اور معصوم آواز،کیا ہندوستان اور پاکستان کے سیاستدانوں اور قوم کے معماروں کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہو گی؟ یا دونوں ملکوں کے سیاستدان ایسی توانا اور صحت بخش آوازوں کو نظر انداز کرنے کے لیےہمیشہ سے ملعون ہی ہیں؟
(انل کمار مِشر، ہری دیو جوشی یونیورسٹی آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن، جئے پور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے مہاتما گاندھی انٹرنیشنل ہندی یونیورسٹی، وردھا سے ہندوپاک تعلقات میں میڈیا کے رول پر پی ایچ ڈی کی ہے۔)