جارج کورین نے کہا کہ ،عیسائی لڑکیاں اسلامی انتہاپسندوں کے لیے سافٹ ٹارگٹ ہیں۔انہوں نے اس معاملے میں این آئی اے سے جانچ کرانے کی اپیل کی ہے۔
نئی دہلی: قومی اقلیتی کمیشن کے نائب چیئر مین جارج کورین نے عیسائی لڑکیوں کے حوالے سے وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ کیرل میں انہیں لو جہاد کاشکار بناکر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔کورین نے کہا کہ عیسائی لڑکیاں اسلامی انتہاپسندوں کے لیے سافٹ ٹارگٹ ہیں۔انہوں نے اس معاملے میں این آئی اے سے جانچ کرانے کی اپیل کی ہے۔
اپنے ایک صفحے کے خط میں جارج کورین نے کہا کہ یہ کافی ضروری ہے کہ وزارت داخلہ اس خطرناک رجحان پر غور کریں اور این آئی اے کو جانچ کا حکم دیں ۔ساتھ ہی ساتھ شدت پسندوں کی دھوکے والی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لئے ایک مؤثر قانون لائے۔غورطلب ہے کہ کورین نے یہ بات دو عیسائی فیملی سے شکایت ملنے کے بعد کہی ہے۔اقلیتی کمیشن کے نائب چیئر مین نے امت شاہ سے کہا ہے کہ پچھلے سال میں 4 ہزار عیسائی لڑکیاں لوجہاد کی شکار ہوئی ہیں۔ان لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر جبراً مذہب تبدیل کرایا گیا۔زیادہ تر معاملات میں عیسائی لڑکیوں کا برین واش کیا گیا۔
امت شاہ کو لکھے گئے خط کی کاپی، فوٹو بہ شکریہ، ٹوئٹر
کورین نے کہا کہ لڑکیوں کی بلیک میلنگ بھی کی گئی ہے۔انہوں نے اس کے لیے کالی کٹ اور دہلی کے حادثوں کی مثال دی ہے۔کالی کٹ کے عیسائی کالج کی بچیوں کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔مبینہ طور سے ملزم نے ریپ کا دیڈیو بھی بنایا اور دھمکی دے کر متاثرہ کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔وہیں،دہلی کی ایک لڑکی کو مغربی ایشیائی ملک میں اغوا کر لیا گیا تھا ۔قابل ذکر ہے کہ آرایس ایس اور وشو ہندو پریشد جیسی دائیں بازو کی تنظیمیں لوجہاد کے خلاف مہم چلا رہی ہے ۔مگر اب اقلیتی کمیشن نے بھی اس مہم کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے۔
کورین کے مطابق، متاثرہ کے والدین نے 19 سالہ جسیم کے خلاف پولیس اسٹیشن میں معاملہ درج کرایا۔ملزم کو کالی کٹ کے ایک کوچنگ سینٹر میں متاثرہ کا ہی ہم جماعت بتایا گیا۔ متاثرہ کے والد کے ذریعہ کی گئی شکایت کے مطابق،ان کی بیٹی اپنے دو دوستوں کے ساتھ 7 جولائی کو شہر کے سروور م بایو تھیم پارک گئی تھی اور وہاں جسیم سے ملاقات ہوئی تھی۔والد نے مزید الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کو بعد میں پارک کی ایک عمارت میں نشیلی اشیا پلائی گئی اور جنسی استحصال کیا گیا۔ملزمین نے بچی کو بلیک میل کرنے کے لیے پورے واقعہ کا ویڈیو بھی بنایا۔جسیم نے مبینہ طور پر ویڈیو کےساتھ بلیک میل کیا اور بچی کو اسلام مذہب قبول کرنے کے لیے مجبور کیا۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کیرل سے آئی ایس میں شامل ہونے والے 21 لوگوں میں سے 5 عیسائیوں کا مذہب تبدیل کیا گیا تھا۔امت شاہ کو لکھے اپنے خط میں کورین نے کیرل کیتھولیک بشپس کانفرنس کمیشن فار سوشل ہارمنی اینڈ ویجلنس کے ذریعہ شائع ہوئی جانکاری کا بھی ذکر کیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ 2005 سے 2012 تک تقریباً 4000 بچیاں لو جہاد کا نشانہ بنیں۔
اس سے پہلے کیرل میں این آئی نے لو جہاد کے معاملوں میں یہ کہتے ہوئے
جانچ بند کر دی تھی کہ ان معاملوں میں لو تو ہے لیکن جہاد نہیں ہے۔ این آئی اے کے ایک افسر نے کہاتھاکہ ہندوستان کا آئین تمام شہریوں کو کسی بھی مذہب کو اپنانے اور ماننے کے بنیادی حقوق دیتا ہے۔ غور طلب ہے کہ این آئی اے ایسے معاملوں کی جانچ کر رہی تھی ، جس میں مسلم لڑکوں نے ہندو لڑکیوں سے شادی کی تھی۔ اس کے بعد لڑکیوں نے مذہب تبدیل کیا۔ پھر الزامات لگے کہ یہ جہادی دماغوں کی سازش ہے جس میں مسلم لڑکے محبت کے نام پر ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر ان کا مذہب تبدیل کر وا رہے ہیں۔
غور طلب ہے کہ کیرل میں ہادیہ سے جڑا معاملہ لو جہاد کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ہادیہ ہندو تھی جس نے شیفین نامی لڑکے سے شادی کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام بدل کر ہادیہ کر لیا تھا۔ اس کے والد کی عرضی پر کیرل ہائی کورٹ نے اس شادی کو رد کر دیا تھا۔ اس بنیاد پر کہ یہ شادی زبردستی کرائی گئی ہے ۔ لیکن بعد میں
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا تھا اور یہ بھی کہا کہ ایجنسی ہادیہ کے نکاح کی جانچ نہیں کر سکتی ۔
سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ کیا ہائی کورٹ بالغوں کی شادی کو رد کر سکتی ہے۔ واضح ہو کہ این آئی اے اسی طرح کے 11 معاملوں کی جانچ کر رہی تھی جن میں 89 کپل نے دوسرے مذہب کے لڑکے یا لڑکی سے شادی کی تھی۔