دی وائر کی خصوصی رپورٹ: گنگا کی صفائی کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی نیشنل گنگا کونسل کی آج تک ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی۔قاعدہ ہے کہ کونسل کی سال میں ایک میٹنگ ضرور ہونی چاہیے۔
نئی دہلی: گنگا صفائی کے لئے بنی وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی نیشنل گنگا کونسل ( این جی سی) کی آج تک ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ دی وائر کے ذریعےدائر آرٹی آئی میں اس کا انکشاف ہوا ہے۔ قاعدے کے مطابق سال میں کم سے کم ایک بار اس کونسل کی میٹنگ ہونی چاہیے۔اکتوبر 2016 میں کونسل بنائی گئی تھی۔اس کا مقصد گنگا ندی کا تحفظ، نگرانی اور ایڈمنسٹریشن ہے۔ سات اکتوبر 2016 کو منسٹری آف واٹر ری سورس اینڈ ریور ڈیولپمنٹ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کونسل اپنی صوابدید سے ہرسال کم سے کم ایک یا اس سے زیادہ میٹنگ کر سکتی ہے۔
حالانکہ8 جنوری 2019 کو آر ٹی آئی کے ذریعے آبی وسائل کی وزارت کے تحت کلین گنگا مشن (این جی سی) سے ملی جانکاری میں انکشاف ہوا ہے کہ ا س کی تشکیل کے بعددو سال سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد بھی آج تک کونسل کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ گنگا صفائی اور اس سے متعلق کاموں کی نگرانی کے لیے یہ قومی گنگا کونسل ممکنہ طورپر سب سے بڑی کمیٹی ہے۔واضح ہو کہ این جی سی کی تشکیل کے ساتھ ہی نیشنل گنگا ریوربیسن اتھارٹی(این جی آر بی اے) کو ختم کر دیا گیا تھا۔ این جی آر بی اے کا طریقہ کار تقریباً این جی سی کی ہی طرح تھا۔ اس کمیٹی کے بھی صدر وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔
سال 2009 میں کانگریس کی رہنمائی والی یو پی اے حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد این جی آر بی اے کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس کا پہلا اجلاس اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی صدارت میں پانچ اکتوبر 2009 کو ہوا تھا۔2009 سے لےکر2012 تک میں این جی آر بی اے کے کل تین اجلاس ہوئے تھے اور منموہن سنگھ نے تینوں اجلاس کی صدارت کی تھی۔ اس کے بعد 2014 اور 2016 کے درمیان تین اجلاس ہوئے تھے، جس میں سے دو اجلاس کی صدارت اس وقت کی آبی وسائل کی وزیر اوما بھارتی نے کی تھی۔ 26 مارچ 2015 کو ہوئے این جی آر بی اے کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم نریندر مودی نے کی تھی۔
گنگا صفائی کی سمت میں کام کرنے والے ماہر ماحولیات سورج چوپڑا نے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم گنگا ندی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، گنگا کو لےکر یہ آخری فیصلہ کن باڈی ہے۔ اس کا کم سے کم سال میں دو اجلاس ہونا چاہیے تھا۔ اگر وزیر اعظم ایک بھی اجلاس نہیں کر پا رہے ہیں تو اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی میں یہ کوئی فیصلہ کن باڈی ہے یا کوئی جملہ ہے۔این جی سی میں وزیر اعظم کے علاوہ آبی وسائل کے وزیر نائب صدر کے عہدے پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ ریاستوں-بہار، جھارکھنڈ، اتراکھنڈ، اتر پردیش اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ سمیت ماحولیات کے وزیر، وزیر خزانہ، شہری ترقیات کے وزیر، نیتی آیوگ کے نائب صدر وغیرہ اس کے ممبر ہوتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2017 میں جاری نیشنل کلین گنگا مشن(این ایم سی جی)پر کمپوٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی یا کیگ)کی آڈٹ رپورٹ میں حکومت کے ذریعے اس سمت میں صحیح سے کام نہ کرنے کی وجہ سے پھٹکار لگائی گئی تھی۔ رپورٹ میں ندی کی صفائی، سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹوں کی تنصیب اور گھروں میں بیت الخلا کی تعمیر سے متعلق دیری اور ادھورے کام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔وہیں، بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامنٹری اسٹیمیٹس کمیٹی نے گنگا تحفظ کے بارے میں اپنی پندرہویں رپورٹ (16 ویں لوک سبھا) میں گنگا صفائی کو لےکر حکومت کے ذریعے کی جا رہی کوششوں پر سخت مایوسی کا اظہار کیا تھا اور اس کام کے لئے بڑے پیمانے پر خود مختار اتھارٹی کی تشکیل کی سفارش کی تھی۔
خاص بات یہ ہے کہ حکومت نے اس سفارش پر کمیٹی کو دئے جواب میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ گنگا صفائی کے لئے آبی وسائل کی وزارت نے مرکزی ، ریاستی اور ضلع کی سطح پر پانچ سطحی سسٹم تیار کیا ہے جس میں سے این جی سی سب سے اہم ہے۔حالانکہ کیگ اور پارلیامانی کمیٹی سمیت کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے گنگا صفائی کی تشویش کے بعد بھی این جی سی کی ایک بھی میٹنگ نہیں کرنا نریندر مودی حکومت کی گنگا صفائی کے دعوے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
پارلیامانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ گنگا ندی میں گندگی کے لیے تیزی سے شہر کاری، صنعت کاری اور آبادی میں اضافہ ذمہ دار ہیں ۔ آب پاشی، صنعتی، پینے کے مقصد وغیرہ سے پانی کی نکاسی کی وجہ سے ندی کی روانی میں رکاوٹ آ رہی ہے اور مسئلہ لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔کمیٹی نے آگے کہا، نہ صرف گنگا کی اہم دھارا بلکہ 11 ریاستوں سے ہوکر گزرنے والی پوری گنگا بیسن میں سیویج ٹریٹمنٹ(صاف کرنے کی)صلاحیت میں بھاری کمی ہے۔ گنگا کی اہم دھارا پر پانچ ریاستوں (اتراکھنڈ، اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال) میں ہر دن 730.01 کروڑ لیٹر (7301 ملین لیٹر روزانہ، ایم ایل ڈی) سیویج تیار ہوتا ہے لیکن صرف 212.6 کروڑ لیٹر (2126 ایم ایل ڈی) سیویج کو ہی صاف کرنے کا انتظام ہے۔ ‘
اسٹیمٹس کمیٹی نے کہا کہ 118.8 کروڑ لیٹر (1188 ایم ایل ڈی) تک کا سیویج صاف کرنے کے لئے سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ زیرتعمیر ہے ۔ اس حساب سے کچھ سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ بننے کے بعد بھی روزانہ نکلنے والے 3987 ای ایل ڈی پانی کو صاف کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔اس کے علاوہ کمیٹی نے کہا تھا کہ سات آئی آئی ٹی نے ملکر گنگا ندی بیسن کی اسکیم تیار کی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ 11 ریاستوں میں کل ملاکر روزانہ 1205.1 کروڑ لیٹر (12051 ایم ایل ڈی) سیویج تیار ہوتا ہے اور اس میں سے صرف 571.17 کروڑ لیٹر (5717 ایم ایل ڈی) ہی سیویج صاف کرنے کا نظام موجود ہے۔ اس حساب سے 633.4 کروڑ لیٹر (6334 ایم ایل ڈی) کا سیویج بنا صاف کئے ہی ندی یا دیگر آبی وسائل میں گرتا ہے۔
پارلیامانی کمیٹی نے تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا، بےحد تشویش کی بات ہے کہ گنگا دنیا کی دس سب سے آلودہ ندیوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ بے قابو شہر کاری، انتہائی خطرناک کچڑا اور گھریلو سیویج کو ندی میں ڈالنے کی وجہ سے گنگا کی صفائی اور کثافت کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ مرکز اور ریاست کی سطح پر اداروں کی اکثریت اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مؤثر تال میل کی کمی سے متعلق، کمیٹی کا مشورہ ہے کہ ندی کی صفائی کے لئے ایک بڑے اور خود مختار اتھارٹی کی تشکیل کی جائے۔ ‘
کمیٹی کی اس سفارش کے بعد حکومت نے این جی سی کی تشکیل کی تھی۔ لیکن ابھی تک اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہو پایا ہے۔این جی آر بی اے کے ممبر رہے اور’ جل پرش ‘کے نام سے مشہور سماجی کارکن راجیندر سنگھ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی دکھاوا کر رہے ہیں اور گنگا کے نام پر لگاتار اس ملک کی عوام سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، گنگا ندی کو دل کی بیماری ہے لیکن دانت کا ڈاکٹر اس کا ٹریٹمنٹ کر رہا ہے۔ حکومت نے باندھ بناکر گنگا کی روانی کو روک دیا ہے۔ حکومت کہیں گھاٹ بنا رہی ہے، ریورفرنٹ بنا رہی ہے، واٹرویج بنائے جا رہے ہیں، چار دھام منصوبہ کے ذریعے سارا ہمالیہ کاٹکر گنگا میں ڈال رہے ہیں، یہ گنگا کو ختم کرنے کے طریقے ہیں، اس سے گنگا کبھی صاف نہیں ہوگی۔ ‘
غور طلب ہے کہ حکومت ہند نے گنگا ندی کے تحفظ کے لئے مئی 2015 میں نمامی گنگے پروگرام کو منظوری دی تھی۔ اس کے تحت گنگا ندی کی صفائی کے لئے رہنما اصول بنائے گئے تھے۔ جیسےشہروں سے نکلنے والے سیویج کا ٹریٹمنٹ، صنعتی آلودگی کا ٹریٹمنٹ، ندی کی سطح کی صفائی، دیہی صفائی، ریورفرنٹ کی ترقی، گھاٹوں اور شمشان گھاٹ کی تعمیر، درخت لگانا اور حیاتیاتی تنوعکا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔اب تک اس پروگرام کے تحت 24672 کروڑ روپے کی قیاسی لاگت سے کل 254 منصوبوں کو منظوری دی گئی ہے۔ اس میں سے 30 نومبر 2018 تک 19772 کروڑ روپے کی لاگت سے سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹوں کے131 منصوبوں (105 گنگا پر اور 26 معاون ندیوں پر)کو منظوری دی گئی تھی، جس میں سے ابھی تک 31 منصوبہ ہی پورا ہو پائے ہیں۔
باقی کے 4930 کروڑ روپے کی لاگت سے 123 منصوبوں کو ریورفرنٹ بنانے، گھاٹ بنانے اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کرنے، ندی کی سطح کی صفائی، درخت لگانے، دیہی صفائی وغیرہ کے لئے مختص کیا گیا ہے۔حالانکہ مودی حکومت کے ذریعے شروع کی گئے گنگا منصوبے سوالوں کے گھیرے میں ہیں۔ ماہر ماحولیات پروفیسر جی ڈی اگروال اپنی حیات میں نریندر مودی کو لکھے اپنے خطوط میں یہ سوال اٹھاتے رہے تھے کہ حکومت کے ذریعے ان چار سالوں میں گنگا صفائی کے لئے جن منصوبوں کو منظوری دی گئی ہے وہ کارپوریٹ سیکٹر اور تجارتی گھرانوں کے فائدے کے لئے ہیں، گنگا کو بہتر بنانے کے لئے نہیں۔
جی ڈی اگروال 112 دنوں تک بھوک ہڑتال پر رہے انہوں نے گنگا صفائی کو لےکر نریندر مودی کو تین بار خط لکھا تھا حالانکہ انہوں نے کسی بھی خط کا جواب نہیں دیا۔راجیندر سنگھ نے کہا، این جی بی آر اے میں ہماری بات سنی جاتی تھی۔ جو ہم کہتے تھے، وہ ہوتا تھا۔ اگر کوئی دقت ہوتی تھی تو وزیر اعظم ہمیں خود بلاکر بات کرتے تھے۔ لیکن، ابھی کے وزیر اعظم ماہرین سے بات کرنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ جو گنگا کے لئے سچی بات بولنے والے لوگ ہیں ان کو یہ بالکل نہیں پوچھتے ہیں اور نہ ہی ان سے صلاح لیتے ہیں۔ گنگا کے نام پر ہزاروں کروڑ بانٹ دئے گئے لیکن گنگا کی صحت پر رتی بھر کام نہیں ہوا۔ ‘
گزشتہ سال اکتوبر میں دی وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ پہلے کے مقابلے میں کسی بھی جگہ پر گنگا صاف نہیں ہوئی ہے، بلکہ سال 2013 کے مقابلے گنگا ندی کئی ساری جگہوں پر اور زیادہ آلودہ ہو گئی ہیں۔ جبکہ 2014 سے لےکر جون 2018 تک میں گنگا صفائی کے لئے 5523 کروڑ روپے جاری کئے گئے، جس میں سے 3867 کروڑ روپے خرچ کئے جا چکے تھے۔اس کے علاوہ ماحولیات کی وزارت کے تحت سی پی سی بی نے اپنے مطالعے میں پایا ہے کہ جن 39 مقامات سے ہوکر گنگا ندی گزرتی ہے ان میں سے صرف ایک مقام پر سال 2018 میں مانسون کے بعد گنگا کا پانی صاف تھا۔
سپریم کورٹ کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہوئے سی پی سی بی نے Ganga River Biological Water Quality Assessment 2017-18کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ گنگا کی روانی والے 41 مقامات میں سے تقریباً37 پر سال 2018 میں مانسون سے پہلےآلودگی بیچ سے سنگین زمرہ میں رہی تھی۔