مودی جی! وہ دن ہوا ہوئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے

غنیمت ہے کہ اپنی خود ستائی اور خودنمائی میں مہارت کو رائےدہندگان کو پھانسنے کے جال کی طرح استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایئراسٹرائک پر جا رہے پائلٹوں کو رام کا نام لینے، کوئی منتر بدبدانے یا ہنومان چالیسہ پڑھنے کا مشورہ نہیں دیا۔

غنیمت ہے کہ اپنی خود ستائی اور خودنمائی میں مہارت کو رائےدہندگان کو پھانسنے کے جال کی طرح استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایئراسٹرائک پر جا رہے پائلٹوں کو رام کا نام لینے، کوئی منتر بدبدانے یا ہنومان چالیسہ پڑھنے کا مشورہ نہیں دیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

جیسے1987سے1988 میں پہلا ای میل کرنا ہی کافی نہ ہو، تکششلا کو پاکستان کے حصے والے پنجاب سے ہندوستان واقع بہار میں کھسکا کر لانے سے بھی کام نہ چل پایا ہو اور اس کا اور نالندہ کا فرق مٹا دینے، ساتھ ہی بہاریوں کے ہاتھوں سکندر کو منھ کی کھلوا دینے سے بھی من نہ بھرا ہو!راشٹرکوی  میتھلی شرن گپت کے اتر پردیش کے جھانسی ضلع میں چرگاؤں  واقع جائے پیدائش کو مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد میں کھینچ کر لے جانے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے آسمان میں اڑتے آوارہ بادلوں کی معرفت الکٹرانک سینسر سے آپریٹنگ پاکستانی رڈار کی آنکھیں بند کر دینے کا بھی’کرشمہ ‘ کر دکھایا ہے!آپ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ایسے کرشمے تو وہ 2014 میں وزیر اعظم کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے سے ہی کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے حامی یوں ہی نہیں کہتے کہ انہی کرشموں  کی بنیاد پر انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں ملک کا نام بہت اونچا کر دیا ہے۔

سوال ہے کہ تب اس میں نیا کیا ہے اور جواب یہ کہ ایک نیوز چینل کو دئے انٹرویو میں انہوں نے خود اپنی زبان سے پاکستان کے بالاکوٹ میں کی گئی ایئراسٹرائک کی بابت جس کرشمہ کا راز کھولا ہے، اس کے بعد ان کے سارے پرانے کرشمے کی چمک دھندلی پڑ گئی ہے!ان کے اس کرشمہ کا لب ولباب ان کے ہی الفاظ میں یہ تھا : ایئراسٹرائک سے پہلے بالاکوٹ میں بھاری بارش ہوئی تھی اور بادل گھرے ہوئے تھے۔ ایسے میں ماہرین کی رائے تھی کہ اسٹرائک کی تاریخ بدل دینی چاہیے۔ لیکن ‘ میں نے کہا کہ اتنے زیادہ بادل ہیں اور بارش ہو رہی ہے، تو اس کا ایک فائدہ بھی ہے بادلوں کی اوٹ میں ہمارے ہوائی جہاز پاکستانی رڈار سے بچ سکتے ہیں۔ ‘غنیمت ہے کہ اپنی اس خودستائی والی’مہارت ‘ کو رائےدہندگان کو پھانسنے کے جال کی طرح استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایئراسٹرائک پر جا رہے پائلٹوں کو رام کا نام لینے، کوئی منتر بدبدانے یا ہنومان چالیسہ پڑھنے کا مشورہ نہیں دیا۔

ورنہ وہ یہ دعویٰ بھی کر سکتے تھے کہ مذکورہ اسٹرائک کے بعد پاکستان نے ایٹمی حملے کا اختیار اس لئے نہیں چنا کہ ہم نے گائے کے گوبر سے ایٹمی  حملے سے بےحدکارگر حفاظتی تکنیک تیار کر لی تھی۔یقیناً،یہ غنیمت ہی ہے کہ وہ ملک کی فوجی مہارت اور آئین کی دفعہ 51-اے کی کھلی ہی اڑاکر رہ گئے، جو کہتی ہے کہ سائنسی نقطہ نظر، انسانیت، مطالعہ اور اصلاح کے جذبہ کی ترقی کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ہاں، انہوں نے اس آئین کی بھی کھلی اڑائی ہی، جس کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پونگاپنتھ کے برعکس سائنسی اور منطقی غوروفکر کو بڑھاوا دے۔اس کھلی اڑانے کا فی الحال ایک ہی حاصل ہے۔ یہ کہ اب عوام نے ان کو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا ہے۔

کئی تو مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگے ہیں کہ مہاکوی کالی داس کو آوارہ بادلوں کا ایسے جنگی استعمال کا پتہ ہوتا تو وہ اس سے اپنی پریہ کے میسنجر کا ہی کام تھوڑے لیتے، کچھ آگے کی سوچتے اور پاتے کہ مہاکوی ہوکر بھی تخیل کے معاملے میں مودی جی کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تو خود کو پھر سے بےوقوف کہنے لگ جاتے!پھر بھی اس بات پر اعتبار نہیں کر پاتے کہ اس دن پاکستانی فضائیہ نے رڈار کی جگہ پر ٹاٹا اسکائی کی چھتری لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے وہ بالاکوٹ میں بادلوں کے بیچ سے گئے ہندوستانی فائٹر جیٹوں کو نہیں دیکھ پائی۔لیکن سچ پوچھیے تو ملک کی حفاظت سے جڑے بےحد حساس معاملے میں وزیر اعظم کی یہ عدم واقفیت اورغیر سائنسی علم سے بھرا  رویہ مذاق کا نہیں، گہررنج  کا باعثہے۔ اس لئے اور بھی کہ یہ نہ صرف پرانا پڑ گیا بلکہ اثر بھی کرتا جا رہا ہے۔

اکتوبر، 2014 میں مکیش امبانی کی دعوت پر وہ ایچ این ریلائنس فاؤنڈیشن کے سپر اسپیشلٹی ہاسپٹل کا افتتاح کرنے ممبئی گئے تو نہ صرف ڈاکٹروں بلکہ طبی سائنس کے دیگر کئی پیشہ وروں کو بے دھڑک بتا آئے تھے کہ مہابھارت کے کرن کا ماں کنتی کے پیٹ کے بجائے دوسرے پروسیس سے جنم لینا اس کی زندہ مثال ہے کہ اس وقت ملک میں جینیٹک سائنس عروج پر تھا۔اسی طرح انہوں نے کہا تھا کہ وہ کوئی پلاسٹک سرجن ہی رہا ہوگا، جس نے گنیش کے کٹے ہوئے سر کی جگہ کامیابی سے ہاتھی کا سر نصب کر دیا۔پھر تو ان سے متاثر لوگوں نے بڑے-بڑے سائنس دانوں کو بھی سر دھننے کو مجبور کر ڈالنے والی ایسی جانکاریوں کی جھڑی ہی لگا دی۔ مثلاً-مور اس لئے مقدس ہے کہ وہ جنسی تعلقات نہیں بناتے اور ان کے بچے ان کے آنسوؤں کے ملن سے پیدا ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ شمسی توانائی کا ایسا ہی استعمال جاری رہا تو سورج جلد ہی ٹھنڈا پڑ جائے‌گا۔ جینس پہننے والی دوشیزائیں ہجڑوں کو جنم دیتی ہیں۔ہمارے وقت کے بے مثال طبیعیات کے عالم اسٹیفن ہاکنگ ویدوں کے علم کو آئنسٹائن سے آگے مانتے تھے۔ مسلسل تبدیلی کے ذریعے قدرت کی ارتقا کا چارلس ڈارون کا اصول سرے سے غلط ہے۔اتناہی نہیں-500 ٹن لکڑی جلاکر اوزون کی تہہ بچائی جا سکتی ہے۔گھی جلانے سے آکسیجن اور ہون کرنے سے ہائیڈروجن پیدا ہوتی ہے۔ ویدوں کے کچھ شلوکوں سے چاند پر پانی ہونے کی بات واضح ہوتی ہے۔ گائے کا گوبر جوہری حملے سے اثردار طریقے سے حفاظت کر سکتا ہے اور مہابھارت کے وقت جینیٹک سائنس داں اور پلاسٹک سرجن ہی نہیں تھے، انٹرنیٹ بھی ہوا کرتا تھا!قدیم دور میں ہی ہندوستانیوں نے ایسا ایئرکرافٹ کھوج لیا تھا، جو الگ الگ سمتوں میں اڑ سکتا تھا اور الگ الگ سیاروں پر بھی پہنچا تھا۔

مہابھارت کے کورووں کی پیدائش اسٹیم سیل اور ٹیسٹ ٹیوب کی تکنیک سے ہوئی تھی، جبکہ بھگوان رام کے پاس ‘ گائیڈیڈ میزائل’ہوا کرتی تھیں۔ راون کے پاس 24 طرح کے ایئرکرافٹ تھے اور لنکا میں ان دنوں ایئر پورٹ بھی ہوا کرتے تھے۔البتہ، ان میں سے کسی نے بھی اب تک یہ نہیں بتایا کہ ایودھیا میں ایسے کتنے ایئر پورٹ تھے؟ ورنہ اب تک لنکا کے مقابلے ایودھیا کی’عظمت’بھی آسمان چھو رہی ہوتی۔ یہاں ایک بات اور سمجھ لینی چاہیے۔ وزیر اعظم کا یہ رویہ جیسا کہ حزب مخالف جماعت کہہ رہی ہیں، لوک سبھا انتخاب میں ہار‌کے اندیشوں سے پیدا بدحواسی کی ہی اولاد نہیں ہے-مشہور امریکی رسالہ ‘ٹائم ‘ کے ذریعے ان کو دئے گئے ہندوستان کے‘ڈیوائڈر ان چیف’کے تمغہ کا ڈیمیج کنٹرول بھی نہیں ہے۔

اس سے ہوئے نقصان کو تو وہ مذکورہ رپورٹ کے مضمون نگار آتش تاثیر کو پاکستانی بتاکر بھی کنٹرول نہیں کر پائے۔ آخرکار لوگ جان ہی گئے کہ آتش پاکستانی شہری نہ ہوکر بی جے پی اور نریندر مودی کے کٹر حامی ہندوستانی مصنفہ تولین سنگھ کے بیٹے ہیں۔دراصل، یہ بات ہاتھ کے کنگن کی طرح ہونے کی وجہ سے آئینے کی بھی مانگ نہیں کرتی کہ پچھلے پانچ سال کی مودی حکومت گواہ ہے کہ وہ اور ان کی حکومت نیو انڈیا کے نام پر ہندوستان کو اسی طرح پیچھے اور پیچھے لے جانے کی قواعد کرتی رہی ہیں۔ایسے کہ کہا جا سکے

دامن پہ کوئی چھیٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامت کرو ہو

واقعی، یہ کسی کرامت سے کم نہیں کہ مودی اپنی مذمت سے بھی ہمدردی بٹور لیتے رہے ہیں۔ ان کی بدقسمتی ہے کہ ‘ راکٹ سائنس ‘کے بعد آئے ان کے ‘رڈار سائنس ‘ کا ایسا عالم گیر مذاق اڑ رہا ہے کہ اس کے برعکس نہ کوئی کرامت کام آ رہی ہے، نہ وہ کمیونی کیشن اسکل ہی، جس کی بنا پر کبھی وہ اتراکھنڈ میں قدرتی آفت کے وقت بڑی تعداد میں لوگوں کو موت کے منھ سے نکالنے کا کرشمہ کر آئے تھے۔سنسکرت کے سینئر شاعر ڈاکٹر رادھاولبھ ترپاٹھی کی مانیں تو اب حالت یہ ہو گئی ہےکہ ، کچھ لوگ کیسری کو راجا کہنے لگے ہیں، کچھ لنگڑے کو، کچھ بادام کے لئے للچا رہے ہیں، تو کچھ دیگر دشہری کو راجا بتانے لگے ہیں۔ کوئی ہاپوس کے لئے مرنے-مارنے پر تلا ہے، تو آم کے درخت بیچارے عام آدمی کی طرح کھڑے ہیں دور۔ظاہر ہے کہ اب مودی جی اکیلے راجا یا ہیرو نہیں رہ گئے ہیں۔ کاش، ابھی بھی وہ سمجھ پاتے کہ ان کے بےپر کی اڑانوں کے دن ہوا ہو چکے ہیں۔ وہ دن بھی بدلنے سے نہیں ہی بچ پائے ہیں، جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)