نریندر مودی نے 36 رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کا سودا 41 فیصد زیادہ قیمت پر کیا
سال 2007 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے رافیل کی قیمت 643.26 کروڑ روپے فی طیارہ طے کی تھی۔ سال 2015 میں نریندر مودی کے ذریعے کئے گئے سودے کے بعد یہ رقم بڑھکر 1037.21 کروڑ روپے فی طیارہ ہو گئی۔ پچھلی حکومت میں 126 طیاروں کا سودا کیا گیا تھا وہیں مودی حکومت نے اس کو کم کرکے 36 طیارہ کر دیا۔
The post نریندر مودی نے 36 رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کا سودا 41 فیصد زیادہ قیمت پر کیا appeared first on The Wire - Urdu.
07:02 PM Jan 19, 2019 | دی وائر اسٹاف
سال 2007 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے رافیل کی قیمت 643.26 کروڑ روپے فی طیارہ طے کی تھی۔ سال 2015 میں نریندر مودی کے ذریعے کئے گئے سودے کے بعد یہ رقم بڑھکر 1037.21 کروڑ روپے فی طیارہ ہو گئی۔ پچھلی حکومت میں 126 طیاروں کا سودا کیا گیا تھا وہیں مودی حکومت نے اس کو کم کرکے 36 طیارہ کر دیا۔
(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مرکز کی نریندر مودی حکومت رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کو پہلے ہوئی ڈیل کے مقابلے میں تقریباً41 فیصد زیادہ قیمت پر خرید رہی ہے۔ د ی ہندو کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سال 2007 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے جتنی رقم میں رافیل ڈیل سائن کی تھی اس کے مقابلے میں مودی حکومت 36 رافیل طیاروں کو 41.42 فیصد زیادہ قیمت پر خرید رہی ہے۔
انڈین ایئر فورس کو 126 رافیل ہوائی جہاز کی ضرورت تھی۔ اس کے لئے سال 2007 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے فرانس کی حکومت کے ساتھ قرار کیا، جس میں 126 رافیل کو خریدنے کا سمجھوتہ ہوا تھا۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ 126 میں سے 18 ہوائی جہاز پوری طرح سے تیار اور لڑائی میں اہل حالت میں ہندوستان میں لایا جائےگا اور دیگر 108 طیاروں کو ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کے ساتھ ملکر ہندوستان میں تیار کیا جائےگا۔
اس وقت فی طیارہ کی قیمت 643.26 کروڑ روپے (79.3 ملین یورو) تھا۔ حالانکہ بعد میں اس ڈیل میں تبدیلی ہوئی اور سال 2011 میں فی طیارہ کی قیمت 818.27 کروڑ روپے (100.85 ملین یورو) ہو گئی۔ اس کے بعد 10 اپریل 2015 کو نریندر مودی نے اچانک سے یہ فیصلہ کیا کہ 126 کے بجائے صرف 36 رافیل ہوائی جہاز ہی خریدے جائیںگے اور فرانس کے دورے کے دوران یہ ڈیل سائن کر دی۔
مودی کے اس فیصلے کی کانگریس سمیت کئی پارٹیوں اور سماجی کارکنوں نے کافی تنقید کی۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے ذریعے کئے گئے فیصلے میں فی طیارہ کی قیمت میں 9 فیصد کی گراوٹ آئی ہے اور نئی قیمت 744.60 کروڑ روپے (91.75 ملین یورو) پر آ گئی۔ حالانکہ یہ ادھوری جانکاری ہے۔
د ی ہندو کے ذریعے حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتا چلا ہے کہ 10548 کروڑ روپے (1.3 بلین یورو) کی ‘ Non-recurring ڈیزائن اوروکاس لاگت ‘ کو اب 126 کے بجائے 36 رافیل طیاروں میں تقسیم کیا جائےگا۔ اس حساب سے مودی کے ذریعے کی گئی نئی ڈیل کی بنیاد پر فی رافیل طیارہ کی قیمت 1037.21 کروڑ روپے (127.86 ملین یورو) ہوگی، جو کہ سال 2007 میں یو پی اے کے وقت پر ہوئی ڈیل کے مقابلے میں 41.42 فیصد زیادہ ہے۔
بتا دیں کہ انڈین ایئر فورس نے 6 بیڑوں کے لئے 126 لڑاکو ہوائی جہاز کی ضرورت بتائی تھی۔ حالانکہ، 10 اپریل 2015 کو وزیر اعظم مودی فرانس کے دورے پر 36 طیاروں کا سودا کرکے آئے تھے۔ موجودہ این ڈی اے حکومت نے 126 بیسک رافیل ہوائی جہاز کی جگہ ہندوستان کے لئے موافق 13 خصوصیات سے لیس 36 طیاروں کے لئے 10548 کروڑ روپے (1.3 بلین یورو) میں سودا کیا جس کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوا۔
رافیل بنانے والی فرانس کی کمپنی داسو نے رافیل طیاروں میں ہندوستان کے لئے موافق 13 خصوصیات کی ‘ ڈیزائن اور ترقی ‘ کے لئے 11352.80 کروڑ روپے (1.4 بلین یورو) کا دعویٰ کیا تھا حالانکہ 10548 کروڑ روپے (1.3 بلین یورو) میں ڈیل سائن ہوئی تھی۔ اس وقت اس رقم کو 126 طیاروں میں تقسم کیا جانا تھا۔
اس حساب سے سال 2007 میں ہوئی ڈیل کے مطابق فی طیارہ کے لئے ‘ ڈیزائن اور ترقی ‘ کا خرچ 90.09 کروڑ روپے (11.11 ملین یورو) آتا۔ حالانکہ سال 2015 میں نریندر مودی کے ذریعے کی گئی ڈیل کے بعد اب یہ خرچ فی رافیل طیارہ پر بڑھکر 292.91 کروڑ روپے (36.11 ملین یورو) ہو گیا ہے۔
بتا دیں کہ ہندوستان کے لئے موافق 13 خصوصیات کا مطلب ہے کہ رافیل ہوائی جہاز میں انڈین ایئر فورس کے ذریعے بتائے گئے ہارڈویئر کے ساتھ-ساتھ سافٹ ویئر کے طور پر اضافی صلاحیت کی ترقی کی جائےگی، جو کہ ہندوستان کے لحاظ سے بہتر ہوگا۔ دی ہندو نے سرکاری دستاویز کا تجزیہ کیا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ 7 رکنی Indian negotiating team (آئی این ٹی) کے تین سینئر وزارت دفاع کےافسروں نے اس ڈیل کی اونچی لاگت پر اعتراض کیا تھا۔
بنگلورو: آر سی بی کے جشن کے دوران بھگدڑ میں 11 افراد ہلاک، اپوزیشن نے ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا
8:57 AM Jun 5, 2025 | دی وائر اسٹاف
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے بتایا کہ بدھ (4 جون) کو چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر بھگدڑ میں کم از کم 11 لوگوں کی موت ہو گئی ہے اور 47 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ واقعے کی جانچ کی جائے گی۔
ایم چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر ہجوم۔تصویر بہ شکریہ: ایکس
نئی دہلی: بنگلورو کے چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر بدھ (4 جون) کو بھگدڑ مچنے سے کم از کم 11 افراد ہلاک اور 47 زخمی ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ایک پریس کانفرنس میں واقعے کے بارے میں میڈیا کو معلومات دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے لیے 10 لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا اور کہا کہ واقعے کی جانچ کی جائےگی۔
انہوں نے کہا کہ جانچ رپورٹ جمع کرنے کے لیے 15 دن کا وقت دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سدارمیا نے میڈیا کوبتایا، ‘جن لوگوں کی جان گئی ہے،ان میں زیادہ تر نوجوان ہیں، مرد اور خواتین دونوں۔ حکومت نے متاثرہ خاندانوں کو 10 لاکھ روپےمعاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ زخمی ہوئے لوگوں کا مفت علاج کیا جائے گا، پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانے والوں کا بھی۔ کل 47 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں باہر کے مریض بھی شامل ہیں۔’
•ಚಿನ್ನಸ್ವಾಮಿ ಕ್ರೀಡಾಂಗಣದಲ್ಲಿ ಐಪಿಎಲ್ ವಿಜಯೋತ್ಸವ ಸಂದರ್ಭದಲ್ಲಿ ದೊಡ್ಡ ಪ್ರಮಾಣದ ದುರಂತ ಸಂಭವಿಸಿದೆ. ಇಲ್ಲಿ ಕಾಲ್ತುಳಿತಕ್ಕೆ ಒಳಗಾಗಿ 11ಜನರು ಮೃತಪಟ್ಟು, 47 ಮಂದಿ ಗಾಯಗೊಂಡಿದ್ದಾರೆ.
•ನಾನು ಬೌರಿಂಗ್ ಆಸ್ಪತ್ರೆ, ವೈದೇಹಿ ಆಸ್ಪತ್ರೆಗೆ ಭೇಟಿ ನೀಡಿ ಗಾಯಾಳುಗಳ ಆರೋಗ್ಯ ವಿಚಾರಿಸಿ ಧೈರ್ಯ ತುಂಬಿದ್ದೇನೆ, ತಮ್ಮವರನ್ನು… pic.twitter.com/onGjKLu52V
معلوم ہو کہ منگل کو رائل چیلنجرز بنگلور(آر سی بی) نے 2025 انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کاخطاب اپنے نام کیا تھا۔ اس جیت کا جشن منانے کے لیے اسٹیڈیم کے باہر وکٹری پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں بھگدڑ مچ گئی۔
سدارمیا نے کہا کہ اسٹیڈیم میں 35000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، لیکن جشن منانے کے لیے ‘دو سے تین لاکھ’ لوگ وہاں پہنچے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘ہمیں اتنی بڑی بھیڑ کی امید نہیں تھی۔ توقع تھی کہ ہجوم اسٹیڈیم کی گنجائش کے اندر ہوگا۔’
وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا، ‘جشن کے دوران ایسا سانحہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں اس واقعے پر شدید افسوس ہے۔’
واضح ہو کہ شائقین اسٹیڈیم کے گیٹ نمبر 3 کے قریب جمع تھے، جہاں فاتح ٹیم کے ودھانا سودھ سے شروع ہونے والی اوپن بس پریڈ کے حصے کے طور پر آئی پی ایل ٹرافی کے ساتھ پہنچنے کی توقع تھی، اور جہاں سدارمیا اور شیوکمار کی جانب سے ٹیم کو استقبالیہ دیے جانےکا پروگرام تھا۔
دی ہندو کے مطابق، لوگوں کی بڑی تعداد اور تنگ راستوں نے بھیڑ میں اور اضافہ کر دیا۔ اخبار کے مطابق، ریاستی ٹریفک پولیس بھاری بھیڑ کی وجہ سے مرکزی کاروباری ضلع کے علاقے میں گاڑیوں کی آسانی سے نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
اس دوران، بنگلورو میٹرو میں بھی مسافروں بڑی بھیڑدیکھی گئی ۔
شیوکمار نے پہلے کہا تھا کہ اگرچہ پولیس نے اسٹیڈیم میں جمع ہونے والے ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ مشکل رہا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر بنگلورو میں ٹیم کے استقبال کے لیے اوپن بس پریڈ کو ٹریفک کی بھاری بھیڑ کی وجہ سے رد کر دیا گیا تھا۔
دی ہندو کے مطابق، صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شیوکمار نے کہا، ‘میٹرو اسٹیشنوں پر بہت زیادہ رش، ٹریفک کے مسائل اور لوگوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے، ہم نے پروگرام کو شیڈول کے مطابق جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا… اس لیے ہم نے کھلاڑیوں کے لیے کھلی گاڑیوں کے استعمال سے گریز کیا اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے دس سے 15 منٹ کے اندر پروگرام کو ختم کر دیا۔’
اس سلسلے میں، آر سی بی نے بدھ کو دیر رات گئے کہا کہ اسے اس واقعے سے ‘گہرا دکھ’ ہوا ہے۔ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں جاننے کے بعد انہوں نے اپنے شیڈول میں ‘ترمیم’ کی اور ‘مقامی حکام کی رہنمائی اور مشورے پر عمل کیا۔’
اپوزیشن نے ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا
دریں اثنا،اپوزیشن لیڈر حکومت کی بدانتظامی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ اور جنتا دل (سیکولر) کے ایچ ڈی کمارسوامی نے کہا، ‘اس بڑے سانحہ کی بنیادی وجہ مناسب منصوبہ بندی کی کمی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں مکمل ناکامی ہے۔ کانگریس کی قیادت والی ریاستی حکومت کو اس تباہی کی پوری ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔’
بی جے پی کی کرناٹک اکائی نے بھی ریاست میں کانگریس حکومت کو نشانہ بنایا اور ایکس پرکہا کہ ‘7 لوگوں کی موت ۔ کانگریس حکومت کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے بہت سے لوگ بھگدڑ میں زندگی اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔ بھیڑ کو کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ بنیادی انتظامات نہیں۔ صرف افراتفری۔’
7 dead. Many are battling for life after a stampede due to the irresponsibility of Congress govt.
No crowd control measures. No basic arrangements. Just chaos.
وزیر اعظم نریندر مودی نےایکس پر اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا۔
ان کے دفتر نے ایکس پر لکھا، ‘بنگلورو میں ہوا حادثہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس دکھ کی گھڑی میں میری تعزیت ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ جو زخمی ہیں وہ جلد صحت یاب ہو جائیں۔’
The mishap in Bengaluru is absolutely heartrending. In this tragic hour, my thoughts are with all those who have lost their loved ones. I pray that those who are injured have a speedy recovery: PM @narendramodi
لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے بھی تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایکس پر کہا، ‘میں دکھ کی اس گھڑی میں بنگلورو کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ کرناٹک حکومت کو متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن مدد اور راحت فراہم کرنی چاہیے۔’
The tragic stampede near Bengaluru’s Chinnaswamy Stadium during RCB’s IPL victory celebrations is heartbreaking.
My condolences to the families who lost their loved ones. Wishing a swift and full recovery to all those injured.
In this hour of grief, I stand with the people of…
انہوں نے مزید کہا ، ‘یہ سانحہ ایک دردناک یاد دہانی ہے۔ کوئی بھی جشن انسانی زندگی سے بڑا نہیں ہے۔ عوامی تقریبات کے لیے ہر حفاظتی پروٹوکول کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور اسے سختی سے لاگو کیا جانا چاہیے – زندگی ہمیشہ پہلے آنی چاہیے۔’
تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا
8:46 AM Jun 5, 2025 | افتخار گیلانی
دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
Illustration: The Wire, with Canva
تقریبا تین دہائیوں تک ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کا حصہ رہنے کے بعد اس کی تنزلی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
حالیہ ہندوپاک کشیدگی کے دوران جھوٹی خبروں کی یلغار کرکے ہندوستانی میڈیا نے ایسے منظرنامے کی تصویر کشی کی جو تجارتی دباؤ، نظریاتی غلامی، اور نمائشی تماشے کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
صحافی ہونے کے علاوہ میں ہندوستان میں میڈیا سے متعلق کئی اداروں سے بھی وابستہ رہا ہوں۔ پارلیامنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کا ڈپٹی چیئرمین، سینٹرل پریس ایکریڈیٹیشن کمیٹی کا ممبر پریس کونسل کے ساتھ وابستگی کے علاوہ میں نے برکس میڈیا فورم میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔
اس کے علاوہ پریس کلب آف انڈیا، پریس ایسوسی ایشن اور دہلی یونین آف جرنلسٹس کا بھی عہدیدار رہا ہوں۔ان تجربات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہندوستان میں کبھی بھی میڈیا ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں تھا، مگر آزادی کی ایک ظاہری اور موہوم شکل موجود تھی۔
میڈیا کو جمہوریت کا چوتھاستون تو کہا جاتا ہے، مگر اس کو چلانے والے صحافیوں یا نان-صحافیوں کے نان و نفقہ کا کوئی ڈھانچہ کبھی بھی کھڑا نہیں ہو پایا ہے۔ پہلے تین ستون یعنی پارلیامنٹ، ایگزیکٹو، عوامی ٹیکس کے دم پر ایک سسٹم کے تحت چلتے ہیں ۔ مگر میڈیا جیسے اہم شعبہ کو اشتہاری اور تجارتی اجارہ داری کے مگرمچھ کے حوالے کردیا گیا ہے۔
ہندوستان میں اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب اخبارات شائع ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں 850 سے زائد ٹی وی نیوز چینلز ہیں۔
ہندوستان میں اشتہاری معیشت کا حجم نوسو بلین کے لگ بھگ ہے۔ یہ معیشت اس وسیع میڈیا کو سنبھال نہیں سکتی ہے۔ دیکھا جایے تو میڈیا کی آمدن کا کوئی پائیدار ماڈل موجود ہی نہیں ہے۔ اس پر طرہ کہ ٹی آر پی نظام شفافیت سے مبرا ہے۔
ہندوستان کے ایک سابق وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری کے بقول اس خامی سے ہی سنسنی خیزی کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، جس کو مقابلہ جاتی غیرذمہ داری کا بھی نام دیا گیا ہے۔ جب پورا نظام ہی اشتہارات اور ٹی آر پی پر منحصر ہو، تو سچ کی ہی سب سے پہلے قربانی دی جائےگی۔
اس کے علاوہ ہندوستان میں میڈیا ملکیت کا پیٹرن بھی اس کا ذمہ دارہے۔ جنوبی ہندوستان کے بنگلور میں دکن ہیرالڈ گروپ کے علاوہ باقی سبھی قومی میڈیا کے ادارے ایک مخصوص طبقہ یعنی بنیا یا ویشیہ کی ملکیت ہیں۔ ان کے دیگر کاروبار ہیں ۔
ہندوستان ٹائمز کے مالکان ہندوستان موٹرس اور کئی دیگر کمپنیاں چلاتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مالکان دالمیا گروپ آف انڈسٹریز کے بھی مالکان ہیں۔ زی نیوز، ویان اور ڈی این اے کے مالک سھاش چندرا نامی گرامی بلڈر ہونے کے ناطے ایس ایل گروپ کے مالک ہونے کے علاوہ تیس سے زائد کمپنیوں کے مالک ہیں۔
ان کمپنیوں کے مقابلے میڈیا ادراوں سے ان کو نہایت ہی کم منافع حاصل ہوتا ہے، چند ادارے تو نقصان میں ہی چلائے جاتے ہیں۔ مگر وہ اس کو اپنی طاقت کے بطور استعمال کرکے دیگر بزنس اداروں کےلیے اکثر و بیشتر مراعات حاصل کرتے ہیں۔
میڈیا کے زوال کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہندوستانی میڈیا میں ہمیشہ ہی حکومت کے ورژن کو ہی حرف آخر تصور کیا جاتا رہا ہے۔ مگر پھر بھی کسی وقت رگ صحافت پھڑک ہی جاتی تھی۔ کرگل جنگ کے وقت مجھے یاد ہے کہ انڈیا ٹوڈے کی ہریندر باویجا نے وہاں ناگا بریگیڈ کے کیمپ کے گیٹ پر پاکستانی سپاہیوں کے سروں کو بطور وار ٹرافی لٹکانے کی واردات کو رپورٹ کیا تھا۔
اس کے بعد ایک عرصہ تک ان کو کرگل جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کےلیے انہوں نے اپنے صحافتی اقدار کا سودا نہیں کیا۔ جبکہ اس کو رپورٹ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی۔
کم و بیش بڑی حد تک اس جنگ کی رپورٹنگ متوازن ہی تھی۔ لیکن 2014 کے بعد خوف، نظریاتی جبر، اور تجارتی دباؤ نے ادارتی آزادی کو نگل لیا ہے۔جس سے آج کا میڈیا دراصل ‘پرفارمیٹو جرنلزم’بن گیا ہے ۔
یہاں تک کہ نیٹ فلکس جیسے عالمی پلیٹ فارم بھی اب ہندوستان میں خود کو سینسر کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا، مگر خوف اندر تک بیٹھ گیا ہے۔
ہر سانحہ، ہر خبر، جھوٹ کے سرکس میں کھو جاتی ہے۔ یہ صحافت نہیں، ایک تماشہ سا بن گیا ہے، جس سے ہم سب کی معتبریت مجروح ہو گئی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی میڈیا کی ساکھ اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ اس کا نقصان سب سے پہلے حکومت کو ہی عالمی سطح پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کل جماعتی وفد جو سفارتی مشن پر مختلف ممالک کے دورہ پرہے، کو یہ ادراک ہو رہا ہے کہ میڈیا نے ملک کی کس قدر سبکی کی ہے۔
تیواری کے مطابق، دو ہزار سات میں کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے میڈیا ریگولیشن کا بل لانے کی کوشش کی، مگر میڈیا ہاؤسز نے شدید مزاحمت کی۔ انہیں ریاستی کنٹرل سے نہیں بلکہ کسی بھی کنٹرول سے پرہیز تھا۔ انہوں نے سیلف ریگولیشن کی وکالت کی، جس کی آئے دن دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جب تک اشتہارات کے کیبل ایکٹ کی طرز پر اس سیلف ریگولیشن کو کسی قانونی دائرہ میں نہیں لایا جاتا ہے، تب تک اس کا وجود ہی بے معنی ہے۔
ہندوستانی جمہوریت ایسے میڈیا ہاؤسز بنانے میں ناکام رہی ہے جو کاروباری مفادات سے آزاد ہوں۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
بنیے کا میڈیا آزاد معیشت اور ہندو تو نظریہ کو ضم کر چکا ہے۔ اب حکومت کو کچھ کرنے کی ضروت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ صحافت کو پیشہ ورانہ بنانے کی ہر کوشش کو میڈیا گروپس نے خود ناکام بنایا ہے، کیونکہ اب وہ خود ہی صحافتی اسکول بھی چلاتے ہیں اور معیار بڑھانے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
اگر ایک صحافی کی ضرورت ہے، تو اس کےلیے بیس کو ایڈمیشن دیتے ہیں، تاکہ مارکیٹ میں ان کی کثرت رہنے سے مسابقت رہے اور ان کو زیادہ تنخواہیں نہ دینا پڑیں۔
پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگ میں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے باضابطہ کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ فوج کے سربراہ کا بھی کہنا تھا کہ اس نازک وقت میں ان کا پندرہ فی صد وقت غلط خبروں سے نمٹنے میں صرف ہوا۔
پاکستانی شہر ہندوستانی فوج کے قبضے میں آ گئے، یا اعلیٰ افسران ملک چھوڑ گئے، یہ نہ تو سرکاری بیانات تھے، نہ ہی کسی معتبر ذرائع سے تصدیق شدہ۔ یہ دعوے خود میڈیا اداروں نے گھڑے تھے۔ اور یہ زیادہ خطرناک ہے۔
جنگی جنون اور حالیہ مس انفارمیشن ایک پیٹرن کا حصہ ہے ، جس میں ، اقلیتوں کے خلاف نفرت، اور سرکاری بیانیے کی اندھی تکرار اور اس سے بھی آگے جاکر شاہ کی وفاداری میں مسابقت کرنااب ایک معمول ہے۔
چونکہ میڈیا کے حالیہ رویہ سے ملک اور حکومت کی سب سے زیادہ سبکی ہوگئی ہے اور بین الاقوامی طور پر ہندوستان کا بیانیہ کتنا ہی سچا کیوں نہ رہا ہو، پٹ گیا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ میڈیا کے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا جائے۔ ایک بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے یہ خطہ نے دیگر ممالک کےلے بھی مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔
نہ صرف میڈیا کی ملکیت کے حوالے سے شفافیت ہونی چاہیے بلکہ کراس ہولڈنگ پر بھی پابندی ہو۔ جو براڈکاسٹر ہے، وہ پروڈیوسر نہ ہو۔ ایک آزاد میڈیا کونسل کی بھی اشد ضرورت ہے، جو خود مختار اور سبھی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ادارہ ہو۔ اس میں کسی ایک پارٹی کا غلبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ادارہ ہمہ وقت معیار، اشتہارات کی نگرانی کے علاوہ احتساب کا بھی کام کرے۔
کئی میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہزار چودہ کے بعد میڈیا نے جس طرح کی مثال قائم کی ہے، اگر وزیر اعظم مودی کی حکومت اقتدار سے باہر بھی ہو جاتی ہے، توبھی آئندہ آنے والی حکومتوں کےلیے بھی ایک نظیرقائم کی گئی ہے۔ وہ بھی میڈیا کی اسی طرح کی تابعداری کی توقع کریں گے اور اگر کوئی ادارہ اس سے انکار کرےگا تو اس کو اسی طرح بھگتنا پڑے گا۔
دی وائر کی ایڈیٹر سیما چشتی نے حال ہی میں معروف قانون دان کپل سبل کے ایک پروگرام میں کہا کہ سیاست دانوں نے سیکھ لیا ہے کہ میڈیا پر جتنا دباؤ ڈالو وہ اتنامطیع رہےگا۔ اب کوئی بھی پاور میں آئےگا تو وہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو غلام بنانے پر پورا زور صرف کرےگا۔
اندرا گاندھی کے ذریعے ایمر جنسی لگانے کے بعد 1977 میں جب ایل کے اڈوانی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے، تو انہوں نے ہندوستانی میڈیا پر طعنہ کستے ہوئے کہا کہ ان کو رکوع کرنے کےلیے کہا گیا تھا مگر وہ پیٹ کے بل لیٹ گئے۔ موجودہ میڈیا کے حوالے سے اب کیا کہا جاسکتا ہے۔ وہ لیٹنے کے عمل کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
سبل کے مطابق یہ صرف میڈیا کا نہیں، بلکہ جمہوریت کے وجود کا مسئلہ ہے۔ جب سچ کی جگہ جھوٹ، اور احتساب کی جگہ تماشا لے گا، توملک ایک ہیجان زدہ قوم کا مسکن بن جائےگا، جو پورے خطے کےلیے خطرناک اور پریشان کن صورتحال ہے۔
ہندوستان کا میڈیا ایک باخبر عوام کے بجائے قوم کو ایک ہیجان زدہ جنونیوں کے قالب میں ڈھالتا جا رہا ہے۔دنیا بھر کے ذی ہوش اور ذی حس افراد کو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس کو دیے 5000 کروڑ، راہل گاندھی بولے – پیسہ عوام کا، فائدہ اڈانی کا
4:08 AM Jun 5, 2025 | دی وائر اسٹاف
سرکاری انشورنس کمپنی ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس کو 15 سال کے لیے 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جس پر ہر سال 7.75 فیصد سود ملےگا۔ راہل گاندھی نے اسے عوام کے پیسے کا استعمال کرکے ایک پرائیویٹ کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا اقدام قرار دیا ہے۔ خبروں کے مطابق، یہ ڈیل نجی طور پر اوپن مارکیٹ سے باہر کی گئی ہے۔
راہل گاندھی۔تصویر بہ شکریہ: فیس بک
نئی دہلی: سرکاری ملکیت والی لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون (اے پی ایس ای زیڈ) کے 5000 کروڑ روپے کے بانڈ کو مکمل طور پرسبسکرائب کر لیا ہے۔ یہ سودا 7.75فیصد کے کوپن ریٹ پر ہوا ہے۔
اس کے بارے میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے منگل (3 جون 2025) کو حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عوام کا پیسہ نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ایل آئی سی نے عام لوگوں سے انشورنس پریمیم کے طور پر اکٹھا کیا گیا پیسہ اڈانی گروپ میں لگایا ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘پیسہ، پالیسی، پریمیم آپ کا۔ سیکورٹی، سہولت، فائدہ اڈانی کا!
راہل گاندھی نے اس پوسٹ کے ساتھ بلومبرگ کی ایک رپورٹ بھی شیئر کی ، جس میں کہا گیا ہے کہ ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈ کے ذریعہ جاری کردہ 5000 کروڑ روپے کے بانڈز اکیلے ہی خریدے ہیں۔ یعنی اس بانڈ کا صرف ایک خریدار تھا – ایل آئی سی۔
آسان لفظوں میں کہیں تو، اکیلے ایل آئی سی نے اڈانی کی کمپنی کو 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جسے 15 سال بعد واپس کرنا ہوگا اور اسے ہر سال 7.75 فیصد سود ملے گا۔
رپورٹ کے مطابق، اڈانی پورٹس اس رقم کو اپنے کاروباری اخراجات کو پورا کرنے اور پہلے لیے گئے غیر ملکی قرضوں (ڈالر کے قرضوں) کی ادائیگی کے لیے استعمال کرے گی۔
اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈنے بھی گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے اب تک کی سب سے بڑی گھریلو بانڈ فروخت کے ذریعے 5000 کروڑ روپے اکٹھے کیے ہیں۔ یہ رقم ایل آئی سی سے 15 سالہ مدت کے نان کنورٹیبل ڈیبینچرز (این سی ڈی) کے ذریعے جمع کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے بزنس اسٹینڈرڈ نے ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا، ‘اس بانڈ ایشو میں صرف ایک بولی ایل آئی سی کی طرف سےآئی تھی اور یہ پہلے سے طے شدہ اور نجی طور پر بات چیت کے ذریعےطے شدہ ڈیل تھی۔ کوئی اور بولی نہیں آئی۔ اور چونکہ اسے اوپن مارکیٹ میں جاری نہیں کیا گیا تھا، اس لیے اس میں ‘گرین شو آپشن’ (اضافی سرمایہ کاری کا آپشن) نہیں تھا۔’
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ اگر کمپنی اسے اوپن مارکیٹ میں لاتی تو اسے اس سےبھی زیادہ شرح سود ادا کرنا پڑتی اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔
‘پندرہ سال کی مدت کے بانڈ عام طور پر بینکوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دیگر انشورنس کمپنیاں یا پراویڈنٹ فنڈ کے ادارے حصہ لے سکتے تھے، لیکن اڈانی نے اس لین دین کے لیے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔’
کرناٹک: سوشل میڈیا پر ’مسلمانوں کی نسل کشی‘ کی اپیل کرنے والے بی جے پی لیڈر کے خلاف معاملہ درج
3:58 AM Jun 5, 2025 | دی وائر اسٹاف
سنیچر کو کرناٹک کے بی جے پی لیڈرمنی کانت نریندر راٹھوڑکےفیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں وہ مسلم کمیونٹی کے خاتمے کی اپیل کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ‘لو جہاد’ کے ملزموں کو بھی آٹھ دن کے اندر ختم کرنے کی اپیل کرتے نظر آ رہے ہیں۔
منی کانت نریندر راٹھوڑ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: کرناٹک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما منی کانت نریندر راٹھوڑ کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے مسلم کمیونٹی کے بارے میں متنازعہ تبصرہ کرنے پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، سنیچر کو راٹھوڑ کے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں انہیں لمبانی زبان میں اشتعال انگیز تبصرہ کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں مسلم کمیونٹی کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے اور ‘لو جہاد’ کے ملزموں کو بھی آٹھ دن کے اندر ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
اخبار نے اس ویڈیو کی صداقت کی تصدیق کی ہے۔
معلوم ہو کہ ‘لو جہاد’ کی اصطلاح ہندو رائٹ ونگ کی تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور اسے حکومت یا عدالتوں نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس اصطلاح کو اکثر ‘مسلم مخالف’ بیان بازی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں سید علیم الٰہی نامی شخص نے سنیچر (31 مئی) کو کلبرگ سینٹرل پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔
منی کانت کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس)کی دفعہ 196 (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 197 (قومی یکجہتی کے لیے نقصاندہ الزام، دعوے)، 299 (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کام، جن کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، 351 (مجرمانہ دھمکی) اور دیگر متعلقہ دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کلبرگی پولیس کمشنر شرنپا ایس ڈی نے کہا، ‘راٹھوڑ نے مبینہ طور پر ایک اشتعال انگیز ویڈیو فیس بک پر اپلوڈ کیا ہے۔ ہم معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور سزا کی حد کا تعین کرنے کے لیے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔’
ایران میں اغوا تین ہندوستانی شہری پاکستانی ایجنٹوں کے چنگل سے آزاد کرائے گئے
3:58 AM Jun 5, 2025 | کُسم اروڑہ
آسٹریلیا جانے کے لیے ایران پہنچے پنجاب کے تین افراد کو پاکستانی ایجنٹوں نے اغوا کر لیا تھا۔ اغوا کاروں نے ان کے اہل خانہ کو ویڈیو کال کر کے رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ اب خبر آئی ہے کہ ایرانی پولیس نے ان تینوں کو بچا لیا ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
جالندھر: پنجاب کے تین افراد کو ایک ہفتے تک لاپتہ رہنےکے بعد ایرانی پولیس نےبچا لیا ہے۔ یہ تمام افراد ورک پرمٹ ویزے پر آسٹریلیا جا رہے تھے، لیکن انہیں ایران کے دارالحکومت تہران سے پاکستانی ڈونکروں نے اغوا کر لیا تھا۔
ان تین نوجوانوں کی شناخت نواں شہر کے جسپال سنگھ (32)، ہوشیار پور کے امرتپال سنگھ (23) اور سنگرور کے حسن پریت سنگھ (23) کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ سب یکم مئی 2025 کو تہران ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔
ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ اتوار (1 جون) کی شام کو ایرانی پولیس نے دارالحکومت تہران میں اغوا کاروں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا اور ان سب کو بازیاب کرالیا۔ ‘وہ اب اپنے خاندانوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ہندوستانی سفارت خانہ ان کا علاج کروا رہا ہے اور ایگزٹ فارمیلیٹی کے بعد انہیں ہندوستان واپس لایا جائے گا۔’
پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ اغوا کار بنیادی طور پر پاکستانی شہریوں کا ایک گروہ تھا۔ چھاپے کے دوران کچھ پاکستانی شہریوں کو بھی بازیاب کرایا گیا، جنہیں اسی گینگ نے اغوا کیا تھا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ تینوں ہندوستانیوں کو چاقو سے زخمی کیا گیا تھااور گینگ کے ارکان نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
معلوم ہو کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ تقریباً 900 کلومیٹر کی سرحد لگتی ہے، جس کی وجہ سے سرحد عبور کرنا نسبتاً آسان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ‘ایران سے پاکستان میں ڈیزل کی بڑی اسمگلنگ ہوتی ہے اور اس میں بہت سے گروہ ملوث ہیں۔’
تین جون کی شام دو افراد نے اپنے اہل خانہ سے مختصر بات چیت کی۔ پاکستانی انسانی اسمگلروں نے ان نوجوانوں کو تہران کے ہوائی اڈے سے اغوا کیا تھا اور ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا، جسے بعد میں کم کر کے 54 لاکھ روپے کر دیا گیا، یعنی ہر نوجوان کے لیے 18 لاکھ روپے۔
خاندان کے افراد نے بتایا تھا، ‘ڈونکروں (انسانی اسمگلروں یا اغوا کاروں کے لیے استعمال ہونے والی مقامی اصطلاح) نے ہمارے بیٹوں کو اغوا کیا اور ان پر تشدد کیا۔ وہ ویڈیو کال کراتے تھے اور ہم سے 18 لاکھ روپے مانگتے تھے۔ کال کے دوران ہمارے بیٹے برہنہ ہوتے تھے اور ان کے جسموں پر گہرے زخم اور کٹے ہوئے نشانات صاف دکھائی دے رہے تھے۔’
دی وائر سے بات کرتے ہوئےہوشیار پور کے رہنے والے امرت پال سنگھ کے کزن یدھویر سنگھ نے بتایا کہ انہیں 3 جون کی شام 5:30 سے 6 بجے کے درمیان امرت پال کا فون آیا تھا۔ ‘بہت مختصر گفتگو میں امرت پال نے مجھے صرف اتنا بتایا کہ انہیں بچا لیا گیا ہے اور انہیں تہران میں ہندوستانی سفارت خانے لے جایا جا رہا ہے۔’
یدھویر نے یہ بھی بتایا کہ امرت پال نے کہا کہ وہ اگلی صبح یعنی 4 جون 2025 کو دوبارہ کال کریں گے۔
اسی طرح حسن پریت سنگھ کے کزن من پریت سنگھ نے بھی کہا کہ ان کا بھائی محفوظ ہے اور اسے بچا لیا گیا ہے۔
تاہم جسپال سنگھ کے بھائی اشوک کمار نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں میڈیا سے نوجوانوں کے ریسکیو آپریشن کے بارے میں معلوم ہوا۔ ‘ہمیں اپنے بھائی کی محفوظ رہائی کا علم میڈیا رپورٹس سے ہی ہوا، خاص طور پر کچھ پنجابی اخبارات سے۔ ابھی تک، ہمیں میرے بھائی یا پنجاب پولیس کے کسی افسر کا کوئی فون نہیں آیا۔’
اشوک نے کہا کہ ان کے بھائی کے بچنے کی خبر پورے خاندان کے لیے بڑی راحت کی بات ہے۔ ‘ہم نے ہر لمحہ اس کے لیے دعا کی۔ اب ہم صرف ان کی کال یا کسی سرکاری اہلکار کی تصدیق کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ہماری پریشانیاں دور ہو ں۔’ انہوں نے کہا.
اس سے قبل 28 مئی کو تہران میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران میں تین ہندوستانی لاپتہ ہیں اور ان کا سراغ لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔
بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 143، 318 (4)، 61 (2) اور پنجاب ٹریول پروفیشنلز (ریگولیشن) ایکٹ 2014 کی دفعہ 13 کے تحت ہوشیار پور کے تین ٹریول ایجنٹوں – دھیرج اٹوال، کمل اٹوال اور سویتا سویا کے خلاف نوجوانوں کے اہل خانہ کی شکایت پر ایف آئی آردرج کی گئی تھی۔
اشوک کمار نے پہلے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے اور دیگر دو نوجوانوں کے بھائیوں نے پیسے اکٹھے کرکے ٹریول ایجنٹ دھیرج اٹوال کو خود چنڈی گڑھ کے ہوائی اڈے پر ڈراپ کیا تھا۔ یہ ایجنٹ 4 مئی 2025 کو ایک پرواز میں سوار ہونے کے بعد سے لاپتہ ہے جو مبینہ طور پر ایران جا رہی تھی۔
‘دھیرج شروع میں تین دن تک ہمارے ساتھ رابطے میں تھا۔ پھر اس نے کہا کہ وہ تینوں کی تلاش میں ایران جا رہا ہے اور تب سے لاپتہ ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی کمل اٹوال بھی لاپتہ ہے۔ گاؤں میں ان کا گھر بھی بند ہے، ‘ انہوں نے کہا۔