ایک بین الاقوامی فورم پر ہندوستان میں مسلمانوں کو منظم طورپر نشانہ بنانے کے حوالے سے نریندر مودی کی دوٹوک الفاظ میں تردید ان صحافیوں کے لیے حیران کن ہے جو ان کی حکومت میں ملک کے مسلمانوں کے ساتھ روزانہ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم و جبرکو درج کر رہے ہیں۔
(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
وزیر اعظم نریندر مودی کا امریکی دورہ بلا شبہ تاریخی ہے، لیکن ان وجوہات سے نہیں جو ان کے دوست ہمیں باور کراناچاہتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں سے وزیراعظم نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی ہے اور نہ ہی انہوں نے ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کسی صحافی کے ایسے سوال کا سامنا کیاہے، جوپہلے سے ہی طے شدہ نہ ہوں۔ آخری بار جب انہوں نے پریس کانفرنس کی تھی (یہ واقعہ نومبر 2015 میں لندن میں پیش آیاتھا)،اس کے بعد سے وہ پریس کانفرنس جیسی کسی بھی چیز کےسب سے قریب مئی 2019 میں آئے تھے۔ لیکن وہ اس بار صحافیوں کے سامنے امت شاہ کے ساتھ بیٹھے تھےاور انہوں نے بذات خود کسی سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔
مودی سے ان کی حکومت کی کی کارکردگی پرکس طرح کے سوال اب تک پوچھے گئے ہیں ان کی ایک جھلک یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں؛
آپ آم کیسے کھاتے ہیں؟آپ تھکتے کیوں نہیں ہیں؟ آپ کون سا ٹانک لیتے ہیں؟ کیا آپ جیب میں پرس رکھتے ہیں؟
کئی صحافی ہیں، جو سوال پوچھ رہے ہیں اور ان سے اور ان کی حکومت سے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگراب تک صرف مایوسی ہی ان کے ہاتھ لگی ہے۔
ماضی میں دی
وائر نے سوالات کی ایک فہرست شائع کی تھی ،جس میں وہ سوال شامل تھے جو ہم ان سے کسی پریس کانفرنس میں (اگر کبھی ایسا موقع میسرآتا) پوچھنا چاہتے یاہم کوئی اور ان سے کسی انٹرویو میں پوچھتا۔ لیکن یہ اب تک ہم سب کے لیے ناممکن امرہی ثابت ہوا ہے۔
‘من کی بات’ کے 100 سے زیادہ ایپی سوڈ پورے ہونے اور ان کے’مونولاگ’ والے طرز سخن کے عادی ہونے کے بعد بھی میں یہ خبر پڑھ کر یقین نہیں کر پائی کہ نریندر مودی واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کرنےجا رہے ہیں۔حالانکہ انہوں نے ایک ہندوستانی اور ایک امریکی رپورٹر سے صرف 1-1 سوال لینا ہی طے کیا تھا۔
دی وال اسٹریٹ جرنل کی وہائٹ ہاؤس رپورٹر سبرینا صدیقی کو نریندر مودی سے ایک سوال پوچھنے کا موقع دیا گیا۔
سبرینا صدیقی نے مودی سے جوسوال کیا ، اس کا لب ولباب کچھ یوں ہےکہ؛
‘ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر ہمیشہ سے فخر رہا ہے، لیکن انسانی حقوق کی بہت سی تنظیمیں ہیں جو کہتی ہیں کہ آپ کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش کی ہے۔ آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق میں بہتری لانے کے لیے اور اظہار رائے کی آزادی کو برقراررکھنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر بی جے پی کے حامی امتیازی سلوک اور تشدد کے الزامات کی اس واضح تردید کو مودی کے ذریعے ‘پاکستانی صحافی کی بولتی بند کرانے’ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
صدیقی، جو دراصل ہندوستانی نژاد امریکی ہیں، پر ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے آن لائن پلیٹ فارم پر ان کی پہچان کے حوالے سےبھی حملے کیے جا رہے ہیں۔ اس ٹرولنگ کے جواب میں انہوں نے وہ
تصاویر پوسٹ کیں، جس میں وہ اور ان کے والد نیلی جرسی پہن کر ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت کہ صدیقی کو جواب دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا، بذات خود ایک الگ ہی کہانی بیان کرتا ہے کہ پچھلے نو سالوں میں ہندوستان کیا بن گیا ہے۔ اور اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کو جس منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ، س سے مودی کاواضح طور پر انکار کرنا ان کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ روزانہ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم و جبرکی رپورٹنگ کرنے والے ہر صحافی کے لیےتکلیف دہ ہے۔
یہ بھی بے حد حیران کن ہے کہ مودی نے اتنی آسانی سے ایک عالمی پلیٹ فارم پر حقائق کو جھٹلا دیا اور کسی نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔
سال 2014 سے مودی اور ان کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے
ابلاغ کے تمام ذرائع پر قبضہ کر رکھا ہے اور سچائی کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے لوگوں کو گمراہ کرنے اور ورغلانے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ لیکن سچ ہے کہ سامنے آ ہی جاتا ہے۔
مودی کا دور حکومت تفرقہ انگیز سیاست کا گواہ رہا ہے۔ وہ رجعت پسند قوانین اور پالیسیاں لے کرآئے ہیں،جن کا مقصد ہندوستان کی بنیادی شناخت کو ایک پراعتماد جدید اور ترقی پسند ملک و قوم سے بدل کر تاریخ میں جکڑے ہوئے ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا مقصد معاشرے میں ان کی مساوی حیثیت چھین کر انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔
یہاں تک کہ ان کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ سرکاری اسکیمیں بلا تفریق مذہب و ملت سب کے لیےیکساں طور پر دستیاب ہیں۔ حج سبسڈی کا خاتمہ (جبکہ دیگر بہت سے مذہبی زائرین کو حکومت کی طرف سے تعاون حاصل ہے) اور اقلیتی طلبا کے لیے
مولانا آزاد نیشنل اسکالرشپ کا بند ہونا، اس کا بین ثبوت ہے۔
دراصل، ملک کے اندر بی جے پی فخر کے ساتھ اس امتیاز کو ماضی میں مسلمانوں کو دی گئی ‘خصوصی سہولیات’ کو بند کرنے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ لیکن مودی حکومت کی مسلم دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ہم یہاں اسے سات مثالوں کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں؛
مسلم خواتین کے لیے شادی کے حقوق کا تحفظ ایکٹ، 2019
مسلم خواتین کے لیے شادی کے حقوق کا تحفظ ایکٹ،2019 کے ذریعے مودی حکومت نے مسلمانوں میں شوہر کی جانب سے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین بار ‘طلاق’ کہہ کر طلاق دینے کے پہلے سے ہی غیر قانونی قرار دیے گئےعمل کو جرم بنا دیا۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ پہلے ہی طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے چکی تھی، لیکن نئے قانون نے مسلمان مرد کے لیے یہ لفظ تین بار کہہ کر اپنی بیوی کوطلاق دینے کی کوشش کوجرم بنا دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیویوں کو چھوڑنا- خواہ طلاق ثلاثہ کی مدد سے مسلمان مرد کی جانب سے ہویا کسی اور مذہب کے مرد کے ذریعے- ہندوستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ لیکن مودی نے قانون کی ہدایت کے مطابق طریقہ کار پر عمل نہیں کرنے کے لیے صرف مسلمان مرد کو ہی مجرم بنا دیا۔
‘لو جہاد’
ہندوستان میں ان دنوں ‘لو جہاد’ سے متعلق قوانین بنانے کی ریس لگی ہوئی ہے، جبکہ ملک کی کسی بھی عدالت کو مسلمانوں کی طرف سے ہندو خواتین کو اسلام قبول کروانے کی کسی سازش (جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی کے دماغ کی اختراع ہے) کے وجود کاٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے۔
کسی بھی بی جے پی مقتدرہ حکومت کے پاس ‘لو جہاد’ کے حوالے سے نہ کوئی اعداد و شمار ہے اور نہ ہی وہ اس کی وضاحت کر پائے ہیں۔ لیکن 2022 کے اواخر تک کم از کم 11 ایسی ریاستوں نے کسی نہ کسی شکل میں قوانین بنائے تھے، جس نے بین مذہبی شادیوں کو جرم بنا دیا۔
دی کیرالہ اسٹوری جیسی فلمیں اسی طرح کے اسلامو فوبک نظریات کو تقویت دینے کا کام کرتی ہیں، جن کے مطابق، متعصب مسلمان مردوں کے ذریعے ہندو خواتین کو اسلام قبول کروانے کے لیے اور اس طرح سے ہندوستان کو ایک اسلامی مملکت میں تبدیل کرنے کے لیے انہیں محبت کے جال میں پھنسایا جا رہا ہے۔خود
ہندوستان کے وزیر اعظم کی جانب سےایسی فلموں (اور ان فلموں کے ذریعے پروان چڑھائی گئی مضحکہ خیز سازشی تھیوری) کی تشہیر ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح مقبول سنیما ہندوتوا کے پروپیگنڈے کا ایک آلہ بن گیا ہے اور اس کے لیے اس کو سرکاری حمایت بھی حاصل ہے۔
شہریت (ترمیمی) ایکٹ
ہندوستان کے شہریت (ترمیمی) ایکٹ نے پہلی بار ہندوستان کے شہریت کے قوانین میں مذہب کی بنیاد پر درجہ بندی متعارف کرائی۔ اس میں تین پڑوسی ممالک— پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش —سے 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان آنے والے اور بغیر کسی قانونی دستاویزکے یہاں رہنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا۔ مسلمان پناہ گزینوں کو اس سےمحروم کر دیا گیا ہے، قطع نظر اس کے کہ انہوں نے یہاں کتناہی وقت گزارا ہویا ان کی شادی کسی ہندوستانی سے ہوئی ہو، چاہے ان کے بچے ہندوستان میں ہی کیوں نہ پیدا ہوئے ہوں۔
مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون مسلم مخالف نہیں ہے، بلکہ یہ صرف پڑوسی ممالک کی مظلوم اقلیتوں کی مدد کرنے والا قانون ہے۔ لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ آخرسری لنکا کے تامل یا میانمار کے روہنگیا یا کاچن ہندوستان کی ہمدردی کے حقدار کیوں نہیں ہیں۔
آرٹیکل 370 کا خاتمہ: ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کی خودمختاری چھیننا
پانچ اگست 2019 کو مودی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کی دفعات کو ختم کر دیا اور اسے کم درجہ والے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ اب یہ واضح ہے کہ یہ تبدیلی کشمیر کے بنیادی کردار کو ہر لحاظ سے بدلنے کے لیے کی گئی تھی۔
انٹیگریشن کے نام پر کیا گیا یہ حملہ نہ صرف جموں و کشمیر کی خود مختاری اور مسلم شناخت پر ہے بلکہ اس کے ذریعے کشمیر کی زمین، سیاست، ثقافت، رہن سہن اور کشمیریوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ دیگر چیزوں کے علاوہ، نئی تبدیلی نے غیر کشمیریوں کو جائیداد خریدنے اور ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کی اجازت دے دی، جو کہ اب تک ریاست کے لوگوں کے لیے مخصوص تھیں، جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام اور بائیکاٹ کی اپیل پر بی جے پی ممبران پارلیامنٹ/ایم ایل اے/نمائندگان کی خاموشی
تقریباً ڈیڑھ سال قبل، دسمبر 2021 میں ہری دوار میں ہندو مذہبی رہنماؤں، بنیاد پرستوں اور ہندوتوا تنظیموں کے ارکان کا
ایک بڑا اجتماع ہوا تھا۔ جہاں تین روزہ ‘دھرم سنسد’ میں مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ کی جھڑی لگ گئی تھی،جس میں ریپ کی کھلی دھمکیاں تک شامل تھیں ۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے مقررین کا تعلق بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم سنگھ پریوار سے ہے۔
ہیٹ اسپیچ دینے والے زیادہ تر لوگ آج نہ صرف آزاد ہیں، بلکہ ہیٹ اسپیچ اور تشدد کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اکتوبر 2022 میں بی جے پی ایم پی پرویش ورما نے وی ایچ پی کی ایک ریلی میں شرکت کی اور مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی۔
چھ ماہ قبل ہی ‘ارلی وارننگ پروجیکٹ’ نے ہندوستان کو بڑے پیمانے پر قتل عام کے خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں
آٹھویں نمبر پر رکھا ہے۔
مسلمانوں کے گھروں، دکانوں، مدارس اور مزاروں کاغیر قانونی انہدام
مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو غیر قانونی طریقے سےمسمار کرنا، خاص طور پر اتر پردیش اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں مسلمانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کا ایک نیا اوزار بن گیا ہے۔ کسی مسلمان کو مجرمانہ فعل میں ملوث ہونے کے چھوٹے سے چھوٹے بہانے کی بنیاد پر ریاستی حکومتوں کے ذریعےملزم کی جائیدادوں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر بھیج دیا جاتاہے۔ عدالت میں معاملے کا فیصلہ ہونے تک انتظار کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔
جہاں آسام میں مدارس کو مسمار کیا جا رہا ہے، وہیں اتراکھنڈ میں ریاستی حکومت نے مزاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ خود حکومت نے
‘330 غیر قانونی مزارات’ کو گرانے کا اعلان کیا ہے۔
مودی ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں یا ہندو راجا
بہت دھوم دھام سے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے مودی ایک مذہبی رہنما کی طرح زیادہ اور مختلف مذاہب اور نسلوں کے 1.4ارب لوگوں کے منتخب نمائندے کم نظر آئے۔ 5 اگست 2020 کو انہوں نے اسی جگہ پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا جہاں 6 دسمبر 1992 کو پانچ سو سال پرانی مسجد کو منہدم کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے ذریعے کیا گیا ‘بھومی پوجن’ دراصل ہندوستان کی سیکولر جمہوریت سے غیر سیکولر ہندو ترجیحی جمہوریت میں تبدیلی کا سرکاری اعلان تھا۔
یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، جو اتفاق سے 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کا بھی گھر ہے، جنہیں اپنے ہی ملک میں یتیم ہونے کا احساس کرایا جا رہا ہے، کا سر کے بل پلٹ دینے والامنظرنامہ ہے۔
انہوں نے پارلیامنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اسی مذہبی اور برہمنی سوچ کے مظاہرے کااعادہ کیا۔ ویدک رسومات کے بعد کی جانے والی ‘سرودھرم پرارتھنا’ نے بھی مودی کے خیالات میں ہندومت کی بالادستی کو- سماجی، ثقافتی اور سیاسی دونوں ہی سطحوں پر— ہی ظاہر کیا۔
‘جمہوریت ہمارے ڈی این اے میں ہے اور ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے’- بین الاقوامی فورم پر مودی کو اکثرہندوستان کے مالا مال جمہوری ورثے، تنوع اور تکثیری ثقافت پر فخر کرتے ہوئےدیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات ان کی طاقت کی بنیادہے کہ وہ 1.4ارب لوگوں کی نمائندگی کرنے والےرہنما ہیں ۔ لیکن اپنے ملک میں جمہوریت کا یہ وشو گرو طرز عمل میں بالکل الٹےراستےپر عمل پیرا ہے یعنی ہندو بالادستی کی سیاست۔
اب وقت آگیا ہے کہ دنیا مودی کی منافقت کو سمجھے اور یہ جانے کہ وہ اپنی حکمرانی کے حوالے سے مغرب کی تنقید سےتحفظ کے لیے جمہوریت کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)