پارلیامنٹ میں منی پور بجٹ پر بحث میں پی ایم مودی کی غیر حاضری پر ہنگامہ، اپوزیشن نے بجٹ کو عوام مخالف قرار دیا

تشدد متاثرہ منی پور میں صدر راج نافذ ہے، جس کے باعث مرکزی حکومت نے ریاستی بجٹ پارلیامنٹ میں پیش کیا ہے۔ بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن نے کہا کہ یہ زمینی حقیقت سے بالاتر ہے۔ منی پور کے دونوں ممبران پارلیامنٹ نے بھی کہا کہ تشدد متاثرہ ریاست کے لوگوں کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔

تشدد متاثرہ منی پور میں صدر راج نافذ ہے، جس کے باعث مرکزی حکومت نے ریاستی بجٹ پارلیامنٹ میں پیش کیا ہے۔ بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن نے کہا کہ یہ زمینی حقیقت سے بالاتر ہے۔ منی پور کے دونوں ممبران پارلیامنٹ نے بھی کہا کہ تشدد متاثرہ ریاست کے لوگوں کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔

پارلیامنٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران ایم پی گورو گگوئی (تمام تصویریں ،  بہ شکریہ: پی ٹی آئی/سنسد ٹی وی)

پارلیامنٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران ایم پی گورو گگوئی (تمام تصویریں ،  بہ شکریہ: پی ٹی آئی/سنسد ٹی وی)

نئی دہلی: منی پور میں جاری نسلی تشدد کی بازگشت منگل (11 مارچ) کو لوک سبھا میں اس وقت سنائی پڑی،  جب اپوزیشن ارکان نے 2025-26 کے منی پور بجٹ پر بحث کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے تشدد متاثرہ ریاست کا دورہ نہ کرنے اور مرکزی حکومت کے بحران سے نمٹنے کے طریقے پر سوال اٹھائے۔

معلوم ہو کہ مالی سال 2025-26 کے لیے منی پور بجٹ کے ساتھ ہی 2024-25 کے لیے گرانٹس کے ضمنی مطالبات اور 2021-22 کے لیے گرانٹس کے اضافی مطالبات پر بھی پارلیامنٹ میں تبادلہ خیال کیا گیا۔

منی پور کے دونوں ممبران پارلیامنٹ نے ریاست میں تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونے والے 60000 لوگوں کی حالت زار پر توجہ نہ دینے پر منی پور کے بجٹ پر تنقید کی اور اسے ‘عوام مخالف’ قرار دیا۔ اپوزیشن ارکان نے کہا کہ بجٹ دستاویز ریاست کی زمینی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی، جہاں  اب صدر راج نافذ ہے۔

تاہم، مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنے جواب میں یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) کے دور حکومت میں ریاست کی حالت کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حکمراں پارٹی سے سوال کرنے سے پہلے اپوزیشن کو اپنے دور حکومت کی خامیوں کو دیکھ لینا چاہیے۔

منگل، 11 مارچ کو لوک سبھا میں منی پور کے بجٹ پر بحث کے دوران لی گئی تصویر۔

منگل، 11 مارچ کو لوک سبھا میں منی پور کے بجٹ پر بحث کے دوران لی گئی تصویر۔

بجٹ میں پہاڑی اور وادی کے لوگوں کے لیے واضح شق کا فقدان

باہری منی پور کے ایم پی الفریڈ کنگم آرتھر نے کہا کہ منریگا اور دیگر سماجی بہبود کی اسکیموں کے لیے  2023 سے فنڈز مختص نہیں کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، بجٹ دستاویزوں  میں اہم پہاڑیوں اور وادیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ شق کا فقدان  ہے۔

انہوں نے کہا، ‘یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بجٹ میں اس کا واضح طور پر ذکر ہونا چاہیے، وزارت داخلہ کی طرف سے نوٹیفکیشن ہے۔ آج ریاست کو وزارت داخلہ چلا رہی ہے – پہاڑی وادیوں کو الگ کرنا لازمی ہے۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی چیز کہاں جا رہی ہے؟ اس لیے میں وزیر خزانہ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس بجٹ کو ملتوی کر کے حقیقی بجٹ لائیں تاکہ ہم اس بات پر بات کر سکیں کہ پہاڑیوں اور وادیوں میں کیا ہو رہا ہے اور ریاست کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔’

بجٹ کو ‘عوام مخالف’ قرار دیتے ہوئےانہوں نے مزید کہا کہ اس میں تشدد میں بے گھر ہونے والے 60000 لوگوں اور ان کی بازآبادی کی کوششوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیاہے، جن کے مکانات  ٹوٹ گئے ہیں ،تباہ ہو گئے ہیں۔ بجٹ میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میری ریاست چھوٹی ریاست ہے لیکن ہم چھوٹے لوگ نہیں ہیں۔ اس ملک میں ہم برابر ہیں۔ میں ایک بار پھر اس ایوان سے اپیل کرتا ہوں۔ اگر میرا بار بار بولنا اس معزز ایوان کو سمجھ نہیں آرہا   ہےتو مجھے اپنی نشست چھوڑنے کی اجازت دیں اور دوبارہ واپس نہ آنے دیں۔ یہاں آنا اور بار بار اس کے بارے میں بات کرنا اور پھر گھر واپس جانا اور افسوسناک زمینی حقیقت دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں، وہا ں لوگ سڑکوں پر ہیں۔ اور آج آپ ایک ایسا بجٹ لے کر آئے ہیں جس میں تشدد متاثرہ لوگوں کے کسی ایک طبقے کو بھی مخاطب نہیں کیا گیا ہے۔ میں حیران ہوں، مجھے مرکزی قیادت سے زیادہ توقعات تھیں۔’

وزیر اعظم کی عدم موجودگی

اندرون منی پور کے ایم پی انگومچا بیمول اکوئیجم نے کہا کہ ملک کی پارلیامنٹ میں پیش کیا جا رہا ریاستی بجٹ منی پور کی حیثیت اور اس کے بائیکاٹ کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘جب 2023 میں بحران شروع ہوا تو مجھے افسوس تھا کہ وزیر اعظم نے ریاست کا دورہ نہیں کیا، آج میں تقریباً لاتعلق ہوں۔ اب وہ ریاست کا دورہ کریں نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن باقی ملک کو معلوم ہونا چاہیے کہ وزیر اعظم کو منی پور جانے کے لیے ویزا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ یوکرین جا کر امن کی بات کر سکتے  ہیں جب ان  کے اپنے شہریوں کا قتل عام ہو چکا ہو اور 60000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہوں۔ ایسے میں اس طرح کے رویے کو قوم پرستی کی بات کرنے والے کسی بھی شخص کی طرف سےجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔’

انہوں نے مزید کہا کہ منی پور کی مالیاتی دین داری مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار کا 37.07 فیصد ہے۔ لیکن بجٹ میں اس معاشی بحران کو دور کرنے کے لیے کچھ نہیں دکھایا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘ہم 60000 لوگوں کےبے گھر ہونے والے صوبہ  ہیں، جو  مرکز کی مدد کے بغیر اس بحران سے نمٹنے کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم اقوام متحدہ کی مداخلت یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی تلاش نہیں کر رہے ہیں، ہم ہندوستان کی ایک آئینی ریاست کے طور پر وفاقی حکومت سے فنڈز کے اضافی ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ اگر یہ بحران بہار اور یوپی میں ہوتا تو آپ کو اس بجٹ میں کچھ اور ہی نظر آتا۔’

دیگر اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ نے بھی منی پور تشدد اور وزیر اعظم کی غیر حاضری کا مسئلہ اٹھایا

لوک سبھا میں دوسرے سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی نے کہا کہ اگست 2023 میں تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران پی ایم مودی نے خود کہا تھا کہ منی پور میں جلد ہی امن لوٹ آئے گا، پھر صدر راج کیوں نافذ کیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘وزیر داخلہ کو منی پور میں صدر راج لگانے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ جب دو سال پہلے بدامنی شروع ہوئی تھی تو وزیر داخلہ نے منی پور میں کہا تھا کہ وہ جلد واپس آجائیں گے۔ دو سال گزرنے کے باوجود وزیر داخلہ نے دورہ نہیں کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ وزیر داخلہ ذمہ داری لیں اور وزیر اعظم ریاست کا دورہ کریں۔ بندوق کی نوک پر شمال- مشرق اور منی پور میں امن قائم نہیں ہوگا۔’

ٹی ایم سی ایم پی سایونی گھوش۔

ٹی ایم سی ایم پی سایونی گھوش۔

ٹی ایم سی ایم پی سایونی گھوش نے ریاست میں تشدد سے متاثرہ لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم کی غیر موجودگی پر سوال اٹھائے۔

انہوں نے کہا، ‘وزیر اعظم نے 2022 کے بعد منی پور کا دورہ نہیں کیا ہے۔ لیکن اس عرصے میں وہ 40 بین الاقوامی اور 240 ملکی دورے کر چکے ہیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے صرف ایک بار منی پور کا دورہ کیا۔ وزیر خزانہ اور بی جے پی پارٹی صدر نے دورہ نہیں کیا۔ ایک کہاوت ہے کہ ‘روم جل رہا تھا، نیرو بانسری بجا رہا تھا’۔

سایونی کی تقریر کو حکمراں جماعت کی طرف سے بار بار روکا گیا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے کہا کہ امت شاہ جب منی پور کا دورہ کرتے ہیں تو وہ ان علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں اپوزیشن ارکان جانے کی ہمت نہیں کرتے۔

نتیانند رائے نے جواب دیا،’وہ ان علاقوں میں گئے جہاں ان کے دور حکومت میں تشدد میں 10000 لوگ مارے گئے تھے۔ آپ لوگ بجٹ پر بات کرنے کے بجائے ایوان کو کیوں گمراہ کر رہے ہیں؟’

نرملا سیتا رمن ایوان میں۔

نرملا سیتا رمن ایوان میں۔

‘یو پی اے کی بدنظمی’

تمام اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ کی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے منی پور میں کانگریس اور یو پی اے حکومت کی بدنظمی کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ امت شاہ نے 2023 میں منی پور کا دورہ کیا، لیکن جب یو پی اے کے دور میں تشدد ہوا تھا تو کوئی وزیر وہاں نہیں گیا تھا۔ یہاں تک کہ 1993 میں، جب ناگا اور کُکی برادریوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا جس میں 700 سے زیادہ لوگ مارے گئے، تب بھی وزیر مملکت برائے داخلہ راجیش پائلٹ نے پارلیامنٹ سے خطاب کیا  تھااور اپوزیشن لیڈر سشما سوراج نے وزیر اعظم پر ردعمل کے لیے دباؤ نہیں ڈالا تھا۔

سیتا رمن نے پوچھا، ‘کیا وزیر اعظم جو 1991 سے 1996 تک اقتدار میں تھے، نے کبھی منی پور کا دورہ کیا؟ 1993 میں تشدد میں 750 افراد مارے گئے۔ کیا وہ پہلے اس کے لیے معافی مانگیں گے؟ انہیں اپنی بدنظمی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ 1997-98 میں، آئی کے گجرال کے دور میں مزید جھڑپیں ہوئیں۔ کیا انہوں نے منی پور کا دورہ کیا؟’

سیتارمن نے کہا کہ منی پور میں سب سے بدترین ناکہ بندی 2011 میں ہوئی تھی، جب ایل پی جی کی قیمت فی سلنڈر 2000 روپے تھی اور’یہ ان کے دور میں ہوا’ تھا۔ انہوں نے کہا، ‘اس طرح کے رویے کے ساتھ مجھے امید ہے کہ کانگریس اس بارے میں  بات نہیں کرے گی کہ کون منی پور جا رہا ہے اور کون نہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )