اگر معیشت کی ترقیاتی شرح کو بنائے رکھنا ہے تو سرکار کو زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا ہوگا۔ لیکن کو رونا بحران کے نام پراعلان کیے گئے پیکیج میں جی ڈی پی کی قریب قریب ایک فیصدی رقم خرچ کرنے کی بات کی گئی ہے، جو کہ بہت کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مودی کے 20 لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج سے سرکاری خزانے پر 2.5 لاکھ کروڑ روپے سے بھی کم کا بوجھ پڑے گا
یعنی کہ 2019-20 کے مقابلے 2020-21 میں کم پروڈکشن ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ زراعت، کاروباراور معیشت کے سیکٹرکی کمائی(گراس ویلیو ایڈیڈ یعنی کہ جی وی اے) میں کمی آئےگی۔جب آمدنی میں کمی آتی ہے تو تین طرح کی چیزیں ہوں گی۔پہلا، ہماری اور آپ کی طرح کے لوگ خرچ کرنے میں کمی کرنے لگیں گے۔ بالخصوص ہمارے اضافی خرچ، چاہے پرانی گاڑی بدل کر نئی گاڑی لینا ہو، اپنے لائف اسٹائل کو بہتر بنانے میں خرچ کرنا ہو، نیا کپڑا لینا ہو یا ایک زیادہ سگریٹ جیسے خرچ میں فوری طور پر کمی آئےگی۔ دوسرا، خرچ میں کمی کی وجہ سے مانگ میں گراوٹ آئے گی ،بزنس میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے اور وہ سرمایہ لگانےکے لیے آنے والے وقت کا انتظار کریں گے۔تیسرا، سرکار کی کمائی میں بہت بڑی گراوٹ آئےگی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر سرکار مالی گھاٹے (سرکار کی کمائی اور خرچ میں فرق) کو بنائے رکھنا چاہتی ہے تو اسے اس سال اپنے خرچ میں کٹوتی کرنی ہوگی۔ ان تین طرح کے ‘خرچ’ یعنی کہ فرد، بزنس اور سرکار کےخرچ کو ملاکر ہندوستان کا جی ڈی پی بنتا ہے۔ اس میں ایک چوتھا حصہ بھی ہوتا ہے جسے ہم کل ایکسپورٹ کہتے ہیں، لیکن عالمی مانگ میں گراوٹ کی وجہ سے اس میں اضافےکا کافی کم امکان ہے۔جی ڈی پی اضافہ کے ان چار انجنوں میں صرف سرکار ہی ایک انجن ہے جو اس وقت زیادہ پیسے خرچ کر سکتی ہے، اس وقت بھی جب اس کے پاس پیسے نہ ہو۔ کیونکہ جب سرکار 100 روپے خرچ کرتی ہے تو معیشت 100 روپے سے بھی کافی آگے بڑھتی ہے۔ سرکار کے خلاف ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ وہ مناسب مقدار میں پیسے خرچ نہیں کر رہی ہے، اتنا بھی نہیں جتنا کہ معیشت میں گراوٹ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔معیشت میں جب خرچ بڑھتا ہے تو اس سے کھپت بڑھتی ہے اور جب کھپت بڑھتی ہے تو پروڈکشن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح رکی ہوئی معیشت کی سائیکل چلنے لگتی ہے۔ اس لیےکئی ماہرین اقتصادیات یہ مانگ اٹھا رہے تھے کہ غریبوں کے ہاتھ میں پیسہ دیاجانا چاہیے تاکہ وہ خرچ کریں۔ جب لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ ہوگا تو وہ چیزیں خریدیں گے، جب وہ خریداری کریں گے تو معیشت میں کھپت بڑھےگی اور جب کھپت زیادہ ہوگی تو کاروبایوں کےپروڈکشن سیل ہوں گے اورپروڈکشن میں اضافہ ہوگا۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق،نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائنانس اینڈ پالیسی(این آئی پی ایف پی)کے پروفیسر این آر بھان مورتی کے تجزیہ، جس کو نیشنل کاؤنسل آف اپلائیڈ اکانومک ریسرچ (این سی ای آئی ار)نے چھاپا ہے، کے مطابق اگرچیزیں اسی طرح سے چلتی رہیں تو اس سال ہندوستان کی جی ڈی پی میں 12.5 فیصدی کی گراوٹ آئےگی۔ اس لیے نمو کو بڑھانے کے لیے سرکار کو اور زیادہ خرچ کرنا ہوگا۔ ریسرچ کے مطابق اگر سرکار 2020-21 میں اعلان کیے گئے بجٹ کے علاوہ جی ڈی پی کا صرف تین فیصدی اضافی خرچ کر دیتی ہے تو معیشت کو سنبھالنا آسان ہو جائےگا۔یہ بات درست ہے کہ اگر سرکار خرچ بڑھاتی ہے تو مالی گھاٹا بڑھےگا، افراط زر بڑھےگا لیکن اگر شرح نمو نیچے جاتا ہے تو بڑے پیمانے پر اقتصادی بحران آئےگا، لوگوں کی نوکریاں جائیں گی اور یہاں تک کہ لوگوں کی موت بھی ہوگی۔ اس وقت سرکار نے کو رونا بحران سے نجات پانے کے نام پر جو راحت پیکیج اعلان کیا ہے، اس میں سرکار کا اصل خرچ جی ڈی پی کا قریب قریب ایک فیصدی ہی ہے، جبکہ پیکیج جی ڈی پی کا 10 فیصدی ہے۔ اکثر ماہرین اقتصادیات، ریٹنگ ایجنسیوں وغیرہ کے اندازے یہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ جو بھی جی ڈی پی کا ایک فیصدی خرچ کرنے کااعلان کیا گیا ہے وہ اس سال کے لیے طے بجٹ کا اضافی خرچ ہوگا یا الگ الگ منصوبوں کے بجٹ میں کٹوتی کر اسے اسی میں ایڈجسٹ کیا جائےگا۔اس لیے یہاں یہ صاف ہے کہ نریندر مودی کا آتم نربھر بھارت پیکیج ہندوستان کی معیشت کو سنبھالنے میں خاطرخواہ خدمات شاید ہی دے پائے اور اس لیے اس کی تنقید ہو رہی ہے۔