سنبھل: کیا مسجد سے متعلق تنازعہ منصوبہ بند تھا؟

08:46 PM Dec 03, 2024 | شروتی شرما | انکت راج

درخواست 19 نومبر کو دائر کی گئی اور 19 تاریخ کو ہی عدالت نے سروے کی اجازت دے دی۔ اسی دن سروے ہو بھی گیا۔ جامع مسجد کا پہلا سروے رات کے اندھیرے میں ہوا، جبکہ دوسرا صبح سویرے۔ وہ سرکاری کارروائی جو دن کے اجالے میں پوری کی جا سکتی تھی، اس کو بے وقت انجام دیا گیا۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ کسی تاریخی عمارت کا سروے پہلے اندھیرے میں ہو اور اس کے بعد صبح کے وقت جب لوگ عموماً اپنی دکانیں بھی نہیں کھول پاتے۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر تعینات پولیس(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

سنبھل: سنبھل کی سڑکوں پر رات اترنے والی ہے۔ شہر دن بھر پولیس کے بوٹوں  کی ٹاپ  سے گونجتا رہا۔ بند دکانوں، انٹرنیٹ سروس میں خلل، مختلف مقامات پر پولیس کی رکاوٹوں کے درمیان شاہی جامع مسجد کی طرف جانے والی سنسان سڑک پراسٹریٹ لائٹ چمک رہی ہے۔سنبھل تشدد میں پانچ مسلمانوں کی موت کو ایک ہفتہ ہو گیا ہے، مقامی عدالت کو ہدایت دیتا ہواسپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ چکا ہے، لیکن اس تشدد سے متعلق  تمام سوال ابھی تک سوال ہی ہیں۔

 کیا یہ تنازعہ کسی بڑے منصوبے کا حصہ تھا؟

پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو یہ سارا واقعہ اس قدر ڈرامائی معلوم ہوتا ہے، گویا یہ منصوبہ بند تھا۔ 19 نومبر کو جامع مسجد کے ہری ہر ہندو مندرہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے چندوسی عدالت میں عرضی دائر کی گئی۔ سنبھل کے کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج گری اور دیگر پانچ مدعیان نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا کہ 1529 میں مغل بادشاہ بابر نے ‘قدیم ہری ہر مندر’ کو مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔

سنبھل کی ایک رات (تصویر: اتل ہووالے/ دی وائر )

اسی دن عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا اور سروے کے لیے ایڈوکیٹ کمشنر رمیش سنگھ راگھو کو مقرر بھی کر دیا۔ حالانکہ عدالت نے سروے کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی تھی، لیکن راگھو نے سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ راجیندر پنسیا سے سروے کی اجازت بھی لی اور پھر راگھو کی قیادت میں ایک ٹیم سروے کرنے پہنچی اور سروے بھی اسی دن ہوگیا۔ غور کریں،جس دن درخواست دائر کی گئی، اسی دن عدالت نے سروے کا حکم دے دیا اور اسی دن سروے ہو بھی گیا۔

کیا اتنی عجلت پہلے سے منصوبہ بند  کسی سازش کی جانب اشارہ کرتی ہے؟

سنبھل کی شاہی جامع مسجد (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

سروے کے دوران مسجد میں کافی ہجوم تھا لیکن یہ سارا عمل پرامن طریقے سے مکمل ہوا۔ لیکن جب ٹیم 24 نومبر کو دوبارہ سروے کے لیے پہنچی تو زبردست تشدد ہوا۔ پانچ افراد کی جانیں گئیں، حالانکہ پولیس چار افراد کی موت کا دعویٰ کر رہی ہے کیونکہ پانچویں فرد کے اہل خانہ نے لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ تشدد کے دوران تقریباً 20 سرکاری ملازمین زخمی ہوئے۔

کیا مسجد کمیٹی کو اس سروے کا علم تھا یا سروے ٹیم اچانک پہنچ گئی؟

مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ انہیں مناسب وقت پر اس سروے کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔ اس کے علاوہ دوسرے سروے کے لیے بھی عدالت سے اجازت نہیں لی گئی۔

سنبھل کے سرکل آفیسر (سی او) انج چودھری نے دی وائر کو بتایا،’سروے کے سلسلے میں ظفر علی (مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین) کو نوٹس دینے میں اور ایس ڈی ایم صاحب گئے تھے۔ ریسیو بھی کرایا تھا۔’

شاہی جامع مسجد کی طرف جانے والا راستہ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

ظفر نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے ان باتوں کی تردید کی۔ ‘ 19 تاریخ کو عدالت کی سماعت میں ہماری طرف سے کوئی موجود نہیں تھا۔ سروے سے صرف پانچ منٹ پہلے بتایا گیا۔ 24 تاریخ  کے سروے کے لیے(گزشتہ) رات 9 بجے نوٹس دیا گیا تھا۔ وہ بھی عدالتی حکم نہیں تھا۔ ڈی ایم نے سروے کی اجازت دی تھی۔ اگر پہلے دن سروے مکمل نہیں ہوا تھا تو انہیں عدالت جانا چاہیے تھا، وہاں سے اجازت لینی چاہیے تھی اور پھر ڈی ایم اجازت دیتے۔ عدالت کی طرف سے دوبارہ سروے کرنے کا کوئی حکم نہیں تھا،’ انہوں نے کہا۔

تشدد کے بعد حالات بگڑنے پر بالآخر 28 نومبر کو شاہی جامع مسجد کمیٹی نے سروے آرڈر کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ 29 نومبر کو سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کو حکم دیا کہ جب تک سروے کے حکم کو چیلنج کرنے والی مسجد کمیٹی کی درخواست ہائی کورٹ میں لسٹ  نہیں ہو جاتی تب تک کوئی کارروائی نہ کرے۔

سنبھل کی ایک گلی (تصویر: شروتی شرما/دی وائر)

پہلا سروے رات کو اور دوسرا صبح سویرے: ایسی کیا عجلت تھی؟

جب دی وائر نے مقامی لوگوں سے بات کی تو ان میں سے زیادہ تر کا ایک ہی سوال تھا کہ جب سروے 19 نومبر کو ہوگیا تھا تو پھر 24 نومبر کو دوبارہ کیوں کرایا گیا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا مسجد انتظامیہ کو سروے سے پہلے مطلع کیا گیا تھا؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، 23 نومبر کو رمیش سنگھ راگھو نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سروے کا کام مکمل نہیں ہوا ہے۔ سروے 24 نومبر کو صبح سات سے گیارہ بجے کے درمیان دوبارہ کیا جائے گا۔

سنبھل کوتوالی۔ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر)

ایک پریس کانفرنس میں دوبارہ سروے کی وجہ بتاتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ راجیندر پنسیا نے کہا تھا، ‘سروے پہلے دن تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ سب کچھ  بخوبی ہوا۔ لیکن وہ سروے رات کو کیا گیا تھا اور آپ جانتے ہیں کہ رات کے وقت بہت سے فیچرز دستیاب نہیں ہوتے، اس لیے ایڈووکیٹ کمشنر نے 23 نومبر کو ہم سے دوبارہ درخواست کی۔ ہم 24 نومبر کی صبح پونے سات بجے کوتوالی سنبھل پہنچے۔ وہاں انتظامیہ کمیٹی کے ارکان کو  بلایا گیا۔ انہوں نے اپنے چار ارکان کو (سروے میں) لے جانے کی بات کہی۔ اس کے علاوہ مدعی کی طرف سے ایڈووکیٹ کمشنر اور دو وکیل تھے۔ ان سب کے ساتھ سروے 7.30 بجے شروع ہوا۔’

غورطلب ہے کہ پہلا سروے رات کو جلدی میں کیا گیا تھا، جبکہ دوسرا صبح سویرے کیا گیا تھا۔ وہ سرکاری عمل جو دن کی روشنی میں مکمل ہو سکتا تھا بےوقت انجام دیا گیا۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ کسی تاریخی عمارت کا سروے پہلے اندھیرے میں کیا جاتا ہو اور اس کے بعدصبح کے وقت جب لوگ عموماً اپنی دکانیں بھی نہیں کھول پاتے۔ کیا سروے ٹیم اتنی صبح آتی ہے؟ ایک ضلع کا پورا محکمہ اتنی صبح کیوں جمع ہو گیا؟

ضلع مجسٹریٹ کے مطابق سروے ختم ہونے کے بعد تشدد شروع ہوا۔ ‘سروے صبح 10 بجے مکمل ہوا۔ …سوا نو بجے تک کہیں بھی پتھراؤ نہیں ہوا تھا۔ سروےپونے دو گھنٹے تک آرام  جاری رہا۔ لیکن اس کے بعد کچھ پتھراؤ ہوا تو ہم نے انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے ہلکی طاقت کا استعمال کیا۔ جیسے ہی مسجد سے اعلان ہوا کہ سروے مکمل ہو گیا ہے، زبردست پتھراؤ اور فائرنگ شروع ہو گئی۔’

مسجد کے پیچھے والے علاقے میں جہاں سب سے زیادہ تشدد ہوا،لکڑی کی دکان چلانے والے شہاب الدین اس صبح کے بارے میں  بیان کرتے ہیں۔ ‘جب میں صبح تقریباً سات بجے اپنی دکان کھولنے آیا تو میں نے دیکھا کہ پولیس نے بیریکیڈٖنگ کی ہے۔ میری دکان آگے تھی،بیریکیڈنگ پار کرکے آ گیا، پولیس نے روکا نہیں۔ جب میں مسجد کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ سامنے گلی میں لوگوں کا ہجوم ہے۔’

شاہی جامع مسجد کے پیچھے والی گلی (تصویر: اتل ہووالے/ دی وائر )

ماسٹر شریف بتاتے ہیں کہ جب مسجد کے اندر سروے جاری تھا تو ایک افواہ پھیلی کہ اندر کھدائی ہو رہی ہے کیونکہ پیچھے کے نالے سے اچانک پانی تیزی سے بہنے لگا۔ اس سے لوگوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وضو  کےٹینک کو خالی کرنے سے پانی بہا تھا۔

پولیس نے مسلم کمیونٹی پر تشدد کا الزام لگایا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ سروے کے دوران بھیڑ نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کے بعد پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ تشدد کے دوران پانچ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے چار کو گولی لگی تھی۔

شاہی جامع مسجد کی پچھلی دیوار کے قریب آتشزدگی کے نشان۔(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر)

پولیس نے ایس پی لیڈروں پر بھی الزام لگایا ہے۔ سی او انج چودھری کے مطابق، اب تک 12 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ تیس افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 250 سے زیادہ لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق اور ایس پی ایم ایل اے اقبال محمود کے بیٹے نواب سہیل اقبال کے نام بھی شامل ہیں۔ تاہم، دونوں نے تشدد میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور انتظامیہ پر حالات کو ٹھیک سے نہ سنبھالنے کا الزام لگایا ہے۔

انج چودھری نے کہا، ‘اس دن ایم ایل اے (اقبال محمود) کا بیٹا (نواب سہیل اقبال) صبح پانچ بجے نماز پڑھنے پہنچ گیا تھا، حالانکہ وہ وہاں کبھی نماز پڑھتا بھی نہیں۔’

پولیس اور انتظامیہ کے بیانات میں تضاد

سرکل آفیسر انج چودھری پر گولی چلانے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن دی وائر سے بات کرتے ہوئے چودھری نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ آنسو گیس کے شیل جیسے غیر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ واقعہ کے فوراً بعد منعقدہ پریس کانفرنس میں ضلع مجسٹریٹ نے کہا تھا کہ پولیس نے پیلٹ گن کا استعمال کیا۔

اس کے برعکس اس دن موقع پر تعینات پولیس اہلکار کرم سنگھ نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس کی طرف سے ہوائی فائرنگ کی گئی تھی۔

انج چودھری کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پولیس اس دن کسی ‘تیاری ‘ کے ساتھ نہیں گئی تھی کیونکہ انہیں کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ ‘ہمیں تیار رہنے کی کیا ضرورت تھی؟ زمین پر قبضہ کرنے تھوڑے جا رہے تھے۔ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو گا۔’

شاہی جامع مسجد کے قریب سڑک (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

مسجد کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ 24 نومبر کو کم از کم 1000 پولیس اہلکار سروے ٹیم کے ساتھ آئے تھے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار کے مطابق، دوسرے سروے کے دوران مسجد کے پیچھے والے علاقوں میں ہی 200 پولیس اہلکار موجود تھے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے مطابق پہلے سروے کے مقابلے دوسرے سروے کے دوران زیادہ پولیس فورس تعینات کی گئی تھی۔

لیکن سرکل آفیسر کہہ رہے ہیں کہ ان کی پولیس تیار نہیں تھی۔

اسی طرح 28 نومبر کو پریس کانفرنس میں کمشنر آنجنیا کمار نے بتایا کہ انتظامیہ کے پاس پہلے سے ہی ان پٹ تھا کہ تشدد ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے ضلع مجسٹریٹ نے بھی کہا تھا، ‘ ہماری انٹلی جنس جتنی باتیں ہمیں بتائی تھی، ہم اس سے زیادہ تیاری کے ساتھ پہنچے تھے۔خاطر خواہ  فورس تھی۔ اس کو آپ ایسے سمجھیں کہ ہم نے جامع مسجد کے سامنے ایک بھی شخص کو آنے نہیں دیا۔’

انتظامیہ کی لاپرواہی؟

اگر انتظامیہ کو معلوم تھا کہ تشدد ممکن ہے تو مسجد کمیٹی اور مقامی کمیونٹی کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ ایک اہم  مذہبی مقام کو پولیس نے اس طرح کیوں گھیر لیا؟

شاہی جامع مسجد کے مین گیٹ کی طرف جانے والی سڑک کو پولیس نے بند کر دیا ہے۔ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر)

بے حساب پولیس فورس: فضا میں خوف وہراس

ان سوالوں  کی دھندلی روشنی میں، آپ 24 نومبر کو دوسرے سروے کے دوران ہونے والے تشدد کو پڑھ سکتے ہیں۔ اس تشدد کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے، لیکن خوف اور اندیشہ فضا میں موجود ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چار افراد ہلاک ہوئے ہیں تاہم کم از کم پانچ جاں بحق ہونے والوں کے نام سامنے آ چکے ہیں۔

دیوار پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر)

کڑی نگرانی کے لیے مسجد کے اطراف نئے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔’ ایک آر اے ایف، دو آر آر ایف، 13 کمپنی پی اے سی، کل 16 کمپنیاں تعینات ہیں۔ باہر کی  فورس ہے، ہمارے پاس مقامی فورس بھی ہے، کچھ کو اسٹینڈ بائی پر بھی رکھا گیا ہے،’ مراد آباد کے کمشنر آنجنیا کمار کہتے ہیں۔

سنبھل شہر کی آبادی دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ، مسلمان کل آبادی کا 70 فیصد سے زیادہ ہیں اور ہندو 20 فیصد سے کچھ زیادہ ہیں۔ شہر کی زیادہ تر آبادی لوئر مڈل کلاس یا انتہائی غریب ہے۔

سنبھل کی گلیوں میں پولیس (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

مسجد کے قریب گلی میں جنرل اسٹور چلانے والے ماسٹر شریف کہتے ہیں،’ہم نے تو صدر صاحب (مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے صدر ایڈووکیٹ ظفر علی) کے مشورے پر دکان کھولی ہے لیکن گاہک نہیں ہیں۔’

آنجنیا کمار کی 28 نومبر کو کی گئی پریس کانفرنس سے پتہ چلتا ہے کہ شہر کا ماحول جلد معمول پر نہیں آنے والا ہے۔ ‘یہ نظام جاری رہے گا۔ حالات مکمل طور پر نارمل ہونے تک ہم ہر جگہ چوکسی رکھیں گے۔’

کس کی گولی سے مرے لوگ ؟

سنبھل تشدد میں پانچ لوگوں کی موت کی تصدیق ہوئی ہے – نعمان، بلال، اعیان، کیف اور نعیم۔ نعمان کے علاوہ باقی چار گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے۔ وائر ٹیم نے نعمان، بلال، اعیان اور نعیم کے اہل خانہ اور پڑوسیوں سے بات کی۔

اعیان کی عمر 17 سال تھی۔ وہ مسجد کے قریب ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ اس دن بھی میں گھر سے  کام کرنے ہی  نکلا تھا۔ اعیان کی بہن ریشما کا کہنا ہے کہ ‘اچانک کچھ لوگ اعیان کو کندھوں پر اٹھائے لے آئے۔ اس وقت تک اس کی  سانس چل رہی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ اسے پولیس نے گولی ماری ہے۔’

واقعہ کے اتنے دن گزرنے کے بعد بھی اہل خانہ کے پاس نہ تو ایف آئی آر کی کاپی ہے اور نہ ہی پوسٹ مارٹم  کی رپورٹ۔

اعیان کی بہن ریشما (تصویر: شروتی شرما/دی وائر)

نعیم کے گھر والوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ مٹھائی کی دکان چلاتے تھے اور سامان خریدنے کے لیے نکلے تھے۔ اہل خانہ کے مطابق نعیم نے بھی پولیس کی گولی لگنے کی بات بتائی تھی۔ اسپتال لے جاتے وقت ان کی موت ہوگئی۔اس کے بعد پولیس گھر پہنچی اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے لے گئی ۔ لیکن ابھی تک اہل خانہ  کو پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں ملی ہے۔

مسجد سے چار کلومیٹر دور سرائے ترین کا رہائشی 22 سالہ بلال شاہی جامع مسجد کے قریب ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان چلاتا تھا۔ والد حنیف ٹھیلے پر پھل بیچتے ہیں۔

بلال (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

جائے وقوعہ سے چار کلومیٹر دور حیات نگر کا رہائشی نعمان (45) سائیکل پر کپڑے بیچا کرتے  تھے۔ اس دن مسجد کی طرف پھیری  کے لیے گئے تھے۔ اہل خانہ کے مطابق ان کی طبیعت پہلے سے ناساز تھی۔ دنگے میں بھیڑ کے نیچے کچلنےسے ان  کی موت ہوگئی۔ ان کے جسم اور چہرے پر نشان تھے۔

واقعے کے بعد پولیس نعمان کے اہل خانہ کے پاس پہنچی اور پوسٹ مارٹم کرانے کا کہا لیکن اہل خانہ نے انکار کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس اس موت کو تشدد میں ہلاک ہونے والوں میں شمار نہیں کر رہی ہے۔

‘چار لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ مرنے والے کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ چار افراد کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے۔ مرادآباد کا ایک شخص زیر علاج ہے،’ کمشنر آنجنیا کمار نے دی وائر کے سوالوں کے جواب میں کہا۔

سنبھل کی  ایک سڑک (تصویر: شروتی شرما/دی وائر)

اس سوال پر کہ کس کی گولی سے موت ہوئی، کمشنر نے کہا، ‘ایک نہیں بلکہ دس الزامات لگائے جائیں گے۔ 100 لگیں گے۔ ہم جو بھی کہہ رہے ہیں، ثبوت کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ گولی کس نے چلائی اس کے ثبوت دیجیے،اگر پولیس نے چلائی ہوگی  تو ہم اس کو بھی بری نہیں کریں گے۔ … صرف ایک ویڈیو کی بنیاد پر آپ سب کچھ نہیں کہہ سکتے ۔’

ان کا اشارہ  سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کی طرف تھا، جس میں پولیس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ ایس پی کا دعویٰ ہے کہ یہ پیلٹ گن تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ متاثرہ خاندان کو نہ دیے جانے پر کمشنر نے کہا، ‘اس کے لیے ایک عمل ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تین کاپیاں بنتی ہیں۔ عمل کے ایک حصے کے طور پر، اسے خاندان کے افراد کو بھی دیا جائے گا۔ ہم چھپا کچھ بھی نہیں رہے ہیں۔’

حکومت دعویٰ بھلے کرے، لیکن وہ کیا  چھپا رہی ہے، یہ کسی سے چھپا نہیں ہے ۔ سب سے پہلے پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔