جے این یو کے اسٹوڈنٹ نجیب احمد2016 سے لاپتہ ہیں۔گزشتہ دنوں سی بی آئی نے اس معاملے میں کلوزر رپورٹ سونپی ہے۔
نجیب کی ماں اپنے بیٹے نجیب کی تصویر کے ساتھ(فوٹو:پی ٹی آئی
نئی دہلی:دہلی کی ایک عدالت نے منگل کو 2 سال سے لاپتہ جے این یو کے اسٹوڈنٹ نجیب احمد کی ماں فاطمہ نفیس کو اس معاملے میں جانچ بند کرنے کی رپورٹ کے خلاف عرضی داخل کرنے کی منظوری دے دی۔عدالت نے کہا،’جانچ بند کرنے /کلوزر رپورٹ کے معاملے میں،اگر شکایت گزار چاہتا ہے تو قانوناًشکایت گزار کو پروٹیسٹ پیٹیشن دائر کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ اس معاملے میں شکایت گزار عرضی داخل کرنے کے لیے خواہش مند ہے۔’
عدالت نے کہا،’ادھوری کوششوں سے کام نہیں چل سکتا ہے اور شکایت گزار کو پروٹیسٹ پیٹیشن دائر کرنے کا مؤثر موقع دیا جانا چاہیے۔’اس سے پہلے عدالت نے جانچ بند کرنے کی رپورٹ سے متعلق سبھی بیان اور دستاویزوں کی کاپیاں 2 ہفتے کے اندر ان کی ماں کو مہیا کرانے
کی ہدایت دی تھی۔میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نوین کمار کشیپ نے سی بی آئی کو ہدایت دی کہ وہ نجیب کی ماں کو کلوزر رپورٹ کی ہارڈ کاپی دیں یا ان کو الکٹرانک صورت میں مہیا کرائیں۔
معاملے میں جانچ کرنے والے افسروں کو 7 مئی کو نجی طور پر پیش ہونے کے لیے بھی کہا گیاہے۔اس معاملے میں سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کے خلاف نجیب احمد کی ماں فاظمہ نفیس کی طرف سے دائر کی گئی عرضی پر شنوائی کے دوران عدالت نے یہ حکم دیا۔نجیب احمد کی ماں کی طرف سے پیش ہوئے وکیل نے دلیل دی کہ ان کو گواہوں کے بیان مہیا نہیں کرائے گئے۔
ان دستاویزوں میں فون کال ریکارڈ،گواہوں کے بیان اور دوسرے دستاویز شامل ہیں۔ سی بی آئی پہلے ان دستاویزوں کو فاطمہ کو مہیا کرانے سے انکار کر چکی ہے۔ 28 مارچ کو سی بی آئی نے کہا تھا کہ ان دستاویزوں کو مہیا کرانے کا قانون میں کوئی اہتمام نہیں ہے۔
نجیب احمد کے چھوٹے بھائی حسیب احمد نے کہا،’نجیب کے لاپتہ ہونے کے بعد سے یہ پہلی امیدوں بھری خبر ہے،جو ہمیں ملی ہے۔اب ہمیں امید ہے کہ میرا بھائی جلد واپس آئے گا اور اس کی گمشدگی کے ذمہ دار لوگ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔’نجیب کی ماں فاطمہ خراب صحت کی وجہ سے شنوائی کے دوران پیش نہیں ہو سکیں۔
غور طلب ہے کہ جے این یو کے ایم ایس سی بایوٹکنالوجی کے فرسٹ ایئر کے اسٹوڈنٹ نجیب احمد 15 اکتوبر 2016 کوجے این یو کیمپس سے لاپتہ ہو گئے تھے۔اس سے ایک دن پہلے ہی نجیب کی اے بی وی پی کے کچھ کارکنوں کے ساتھ مبینہ طور پر جھڑپ ہوئی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)