گزشتہ 13 فروری کو کسانوں کا احتجاج شروع ہونے کے بعد یہ تیسرا موقع ہے جب مرکزی حکومت نے کسانوں اور ان کے ایشوز سے متعلق اپ ڈیٹ دینے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پابندی لگائی ہے۔
شمبھو بارڈر۔ (تصویر: وویک گپتا/ دی وائر)
جالندھر: سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم ) اور غیر سیاسی کسان مزدور مورچہ (کے ایم ایم ) کی طرف سے ‘دلی چلو’ کال سے ایک دن پہلے منگل (4 مارچ) کی رات مرکزی حکومت نے کسان یونین کے رہنماؤں اور کسانوں کے مفادات کو فروغ دینے والے لوگوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100 ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کے درمیان شمبھو، کھنوری اور ڈب والی سرحدوں پر، ایس کے ایم غیر سیاسی کے جگجیت سنگھ دلیوال اور کے ایم ایم کے سرون سنگھ پنڈھیر کی قیادت میں کسان یونین مودی حکومت کے خلاف قانونی طور پر ضمانت شدہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، لکھیم پور کھیری معاملے میں انصاف اور 20 دن سے زائد عرصے سے کسانوں کی قرض معافی کے مطالبے کو لے کر احتجاج کر رہے ہیں۔
گزشتہ 13 فروری کو کسانوں کا احتجاج شروع ہونے کے بعد سے یہ تیسرا موقع ہے جب مرکزی حکومت نے کسانوں اور ان کے ایشوز سے متعلق اپ ڈیٹ دینے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پابندی لگائی ہے۔
اس سے پہلے بھی حکومت نے 12 فروری کی رات، ان کے ‘دلی چلو کال’ سے ایک دن پہلے کسان یونین رہنماؤں کے ایک درجن سے زیادہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ساتھ—ساتھ کسان یونینوں اور ان کے حامیوں کے آفیشل پیج کو بلاک کر دیا تھا۔
اسی طرح 21 فروری کو دلی چلو کال کے پیش نظر کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ، خصوصی طور پر ایکس، فیس بک اور انسٹاگرام پر، پھر سے روک لگائی گئی تھی۔
کسان یونین کے رہنماؤں نے اسے مودی حکومت کا ‘طریقہ’ قرار دیا ہے کہ جب بھی وہ دلی جانے کی کال دیتے ہیں، توسوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بار بار روک لگا دی جاتی ہے۔
کسان یونین کے رہنما گرپریت سنگھا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 6 مارچ کی دلی چلو کال سے صرف ایک دن پہلے 4 مارچ کو ہندوستان میں کسانوں، کسان یونین کے رہنماؤں اور احتجاج کی حمایت کرنے والے لوگوں کے 100 کے قریب سوشل میڈیا اکاؤنٹ راتوں رات بند کر دیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘آج تک حکومت نے میرے تین ایکس اکاؤنٹ پر پابندی لگائی ہے، جو میں نے ایک کے بلاک ہونے کے بعد بنائے تھے۔ ہم نے اس معاملے میں سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری قانونی ٹیم اس پر کام کر رہی ہے۔’
سنگھا نے کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ ان کی آواز عوام تک پہنچے۔
انہوں نے کہا، ‘[مرکزی] حکومت کا پیغام واضح ہے؛ وہ کسانوں کو بولنے بھی نہیں دیں گے، صحیح یا غلط کی بحث تو دور کی بات ہے۔ بنیادی طور پر حکومت کو کسانوں کی مخالفت کا خوف ہے، اس لیے وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پابندی لگا رہی ہے۔ کسی بھی دور حکومت میں اپنے ہی لوگوں کو نشانہ بنانا آخری حربہ ہونا چاہیے، لیکن اسے گھبراہٹ کہیے یا مایوسی، حکومت نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔’
چھ مارچ کی دلی چلو کال پر سنگھا نے کہا کہ چاہے 100 کسان ہوں یا 10000، وہ صرف دہلی کے جنتر منتر پر پہنچیں گے اور وہاں دھرنا دیں گے۔
کئی کسانوں نے کہا کہ اس بار حکومت ان اکاؤنٹ کو بھی نشانہ بنا رہی ہے جو 2021-21 کے کسانوں کے احتجاج کے بعد سے کسانوں کی بات کو آگے بڑھا رہے تھے۔
ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ڈینٹسٹ اور امریکی شہری شینا ساہنی ہیں،جنہوں نے کہا کہ وہ 2020-21 کے احتجاج کے بعد سے کسانوں کے ایشوز سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘ہم نے امریکہ میں لوگوں کے ایک بہت بڑے گروپ کی قیادت کی اور زرعی قوانین کے خلاف مہم چلائی۔ میں لوگوں کو متحد کرنے کے لیے راکیش ٹکیت، بلبیر سنگھ راجیوال اور دیگر مثلاً ایس کے ایم کے تمام رہنماؤں سے رابطے میں رہی، لیکن کسی نے بھی میرا ٹوئٹر اکاؤنٹ بلاک نہیں کیا۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘اب، جب کسانوں کا احتجاج شروع ہی ہوا ہے، حکومت نے میرے ایکس اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی ہے، جو بنیادی طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کسان گروپوں کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو حکومت کے ساتھ ہماری جانکاری شیئر کر رہے تھے۔’
ساہنی نے کہا کہ جب ہندوستانی حکومت نے اس بار سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو بلاک کرنا شروع کیا تو انہوں نے سوچا تھا کہ ان کی امریکی شہریت کی وجہ سے وہ بچ جائیں گی۔
ساہنی نے کہا کہ لوک سبھا انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے حکومت اس وقت کوئی احتجاجی مظاہرہ نہیں چاہتی۔ لیکن کسانوں کے مفاد کے حامی کسانوں کے احتجاج کو تیز کرنے کے لیے امریکہ میں سینیٹرز، کونسل کے اراکین اور اعلیٰ حکام کو خط لکھیں گے۔
وکیل سے آزاد صحافی بنے پٹیالہ کے گروشمشیر سنگھ، جن کے ایکس اکاؤنٹ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی ہے، نے بھی کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ کسانوں کے احتجاج کے بارے میں کوئی جانکاری عوام تک پہنچے۔
انہوں نے کہا، ‘6 مارچ کی دلی چلو کال سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہندوستان میں اتنے سارے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بلاک کیے گئے۔ جب بھی انہیں بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کا امکان نظر آتا ہے، تو سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو بلاک کرنا حکومت کا طریقہ بن گیا ہے۔’
سنگھ نے مزید کہا، ‘حکومت جانتی ہے کہ کوئی بھی انہیں اس کارروائی کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرائے گا، اسی لیے ایسی جرٲت مندانہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ یہ ملک میں کسانوں کے احتجاج سے متعلق لوگوں میں خوف پیدا کرنے کی بھی کوشش ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک ایک تانا شاہی دور حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور اگر آپ پنجاب سے ہیں تو آپ کو دوسروں کے مقابلے زیادہ خطرہ ہے۔’
اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کارروائی کا سامنا کرنے والے دیگر افراد میں کسانوں کے لیے کام کرنے والی چنڈی گڑھ کی ایک آزاد محقق سمیتا کوربھی شامل ہیں، جو ‘وی سپورٹ آور فارمز’ کے نام سے ایک مہم بھی چلا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ساہنی اور کے ایم ایم سے متعلق اکاؤنٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہم صرف کسانوں کے احتجاج کی خبریں شیئر کر رہے ہیں۔ اس بار حکومت نے ان اکاؤنٹ کو بھی نشانہ بنایا جو کسانوں کے احتجاج کے ہیش ٹیگ استعمال کر رہے تھے۔ ہم نے ابھی ہیومن رائٹس واچ کا ایک مضمون کے ایم ایم پیج پر شیئر کیا تھا، جس کے بعد ہمارے اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی گئی۔’
چنڈی گڑھ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ‘نو فارمر، نو فوڈ’ مہم کی قیادت کرنے والی سمیتا کور فکر مند ہیں کہ کھیتی کارپوریٹس کے پاس جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کارپوریٹس لوگوں کے کھانے کی عادات کو کنٹرول اور تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کھائیں گے، اس لیے کسانوں اور کارپوریٹ/حکومت کے درمیان لڑائی ہے۔’
اس سے قبل فروری میں حکومت نے آزاد صحافی مندیپ پنیا کے ایکس اکاؤنٹ اور ان کے ویب پورٹل ‘گاؤں سویرا’ پر پابندی لگا دی تھی۔ پنیا خاص طور پر شمبھو اور کھنوری سرحدی علاقوں سے کسانوں کے احتجاج کی کوریج کر رہے تھے۔
بعد میں، دہلی میں ان کے ساتھی گاروت گرگ نے اپنے ذاتی ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے کسانوں کے احتجاج کے بارے میں خبریں اور اپ ڈیٹ پوسٹ کرنا شروع کیا۔ گرگ کے اکاؤنٹ پر بھی 4 مارچ کی رات پابندی لگا دی گئی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے گاروت گرگ نے کہا کہ حکومت نے معلومات کی ترسیل کے تمام ذرائع کو بند کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ صرف اظہار رائے کی آزادی پر حملہ نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے پیشہ ورانہ نقصان ہے۔ آزاد صحافی حقائق پر مبنی خبریں جمع کرنے اور اپنا کام جاری رکھنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ہمیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل حکومت نے گاؤں سویرا اور اس کے ایڈیٹر مندیپ پنیا کے آفیشل پیج پر پابندی لگا دی تھی۔ اس بار انہوں نے مجھے نشانہ بنایا۔’
گاروت نے مزید کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ زمین پر موجود ہر آواز کو دبایا جائے۔ ‘ہر طرف کسانوں کے احتجاج کی خبروں کا مکمل بلیک آؤٹ ہے۔ دیکھیے، ہم 6 مارچ کی دلی چلو کال کی جانکاری بھی سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کر سکے۔ یہ ایک خطرناک مثال ہے، بڑے میڈیا ہاؤسز کے ساتھ کام کرنے والوں پر بھی حملہ کیا جائے گا۔ اس وقت ہمیں لڑائی کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔’
دریں اثنا،کے ایم ایم کی قانونی ٹیم، جس کے کوآرڈینیٹر، راجستھان ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ اکھل چودھری اور پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی انجلی شیوران کی قیادت میں جاری ایک بیان میں کہا کہ کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹ مرکزی حکومت کی ہدایت پر بلاک کر دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا، ‘ہم اسے اپنی اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہم نے تمام متاثرہ افراد سے درخواست کی ہے کہ وہ ہماری پٹیشن میں شامل ہوں اور وکالت نامہ پر دستخط کرنے اور دیگر رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے سمیت ضروری کاغذی کارروائی کے لیے ہماری ٹیم سے رابطہ کریں۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)