متھرا: شاہی عیدگاہ احاطے میں پوجا کی عرضی پر مسلم فریق کو اعتراض

متھرا کے شاہی عیدگاہ کے احاطے میں 'کرشن کوپ' میں پوجا کی مانگ کرنے والی ایک عرضی پر مسلم فریق نے اعتراض کرتے ہوئےالہ آباد ہائی کورٹ سے کہا کہ اس پر کوئی حکم جاری نہ کیا جائے کیونکہ مسجد کے وجود سے متعلق اصل مقدمہ اس عدالت میں زیر سماعت ہے۔

متھرا کے شاہی عیدگاہ کے احاطے میں ‘کرشن کوپ’ میں پوجا کی مانگ کرنے والی ایک  عرضی پر مسلم فریق نے اعتراض کرتے ہوئےالہ آباد ہائی کورٹ سے کہا کہ اس پر کوئی حکم جاری نہ کیا جائے کیونکہ مسجد کے وجود سے متعلق اصل  مقدمہ اس عدالت میں زیر سماعت ہے۔

متھرا میں شری کرشن جنم استھان مندر اور شاہی عیدگاہ مسجد۔ (تصویر: تاروشی اسوانی)

متھرا میں شری کرشن جنم استھان مندر اور شاہی عیدگاہ مسجد۔ (تصویر: تاروشی اسوانی)

نئی دہلی: مسلم فریق نے متھرا کے شاہی عیدگاہ احاطے میں ‘کرشنا کوپ’ میں پوجا کی مانگ کرنے والی ایک پر اعتراض کیا ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ سے کہا ہے کہ وہ اس عرضی پر کوئی حکم جاری نہ کرے کیونکہ مینٹینیبلٹی کا مقدمہ اس کے سامنے زیر التوا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، مسلم فریق نے مینٹینیبلٹی سے متعلق اس مقدمے کو چیلنج کیا ہوا ہے جس میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ مسجد کٹرا کیشو دیو مندر کی 13.37 ایکڑ اراضی پر بنائی گئی ہے، شاہی عیدگاہ مسجد کو ‘ہٹانے’ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دونوں فریقوں کو سننے کے بعد ہائی کورٹ نے کیس کی اگلی سماعت کی تاریخ یکم اپریل مقرر کی۔

بدھ کے روز ایک شخص آشوتوش پانڈے کی جانب سے سول پروسیجر کوڈ (عدالت کے فطری اختیار) کی دفعہ 151 کے تحت داخل کی گئی درخواست پر مسلم فریق کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔

اپنی درخواست میں پانڈے نے کہا کہ ہندو عقیدت مند ہر سال ‘ماتا شیتلا سپتمی’ اور ‘ماتا شیتلا اشٹمی’ کے موقع پر کرشن جنم بھومی مندر سے متصل شاہی عیدگاہ احاطے میں ‘کرشن کوپ’ (کنویں) میں ‘بسوڑا پوجا’ کرتے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس سال ‘شیتلا سپتمی’ یکم اپریل کو ہے اور ‘شیتلا اشٹمی’ 2 اپریل کو ہے۔ پانڈے نے عرضی میں کہا کہ ان دنوں مدعی پارٹی کو کرشن کوپ میں ‘بسوڑا پوجا’ کرنی ہے، لیکن مدعا علیہ انہیں پوجا کرنے سے روک رہے ہیں۔

درخواست میں یہ ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے کہ مدعا علیہ/مدعا علیہان کو مسلم کمیونٹی کی طرف سے شاہی عیدگاہ کے کرشن کوپ میں ہندو عقیدت مندوں کی طرف سے کی جانے والی پوجا میں مداخلت کرنے سے روکا جائے اور مناسب سیکورٹی کو برقرار رکھا جائے۔

مسلم فریق نے استدلال کیا کہ اس طرح کی درخواست پر مینٹینیبلٹی مقدمے کی سماعت تک کوئی فیصلہ نہیں دیا جانا چاہیے۔

مسلم فریق نے بھی درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ وقف جائیداد ہے اور درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

دوسری جانب ہندو فریق کا کہنا تھا کہ ہندو مذہب میں یقین اور آستھا رکھنے والوں کو کرشن کوپ میں پوجا کرنے کی آزادی دی جانی چاہیے۔ ہندو فریق کے وکیل نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ ایسی درخواستوں پر غور کرے اور ان پر فیصلہ سنائے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ سال مئی میں الہ آباد ہائی کورٹ نے کرشن جنم بھومی-شاہی عیدگاہ مسجد تنازعہ سے متعلق تقریباً 15 مقدمات کو اپنے پاس منتقل کر لیا تھا۔