اٹھارویں لوک سبھا میں مسلمان ارکان پارلیامنٹ کی حصے داری چھ دہائیوں میں سب سے کم

موجودہ لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی مجموعی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بنی بی جے پی میں فی الحال مسلم کمیونٹی کا کوئی پارلیامانی نمائندہ نہیں ہے۔ وہیں کانگریس کے مسلم ممبران پارلیامنٹ کی حصےداری میں اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی مجموعی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بنی بی جے پی میں فی الحال مسلم کمیونٹی کا کوئی پارلیامانی نمائندہ نہیں ہے۔ وہیں کانگریس کے مسلم ممبران پارلیامنٹ کی حصےداری میں اضافہ ہوا ہے۔

 (تصویر بہ شکریہ: PIB/Pixabay)

(تصویر بہ شکریہ: PIB/Pixabay)

نئی دہلی: چار  جون کو لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے کے ساتھ ہی اٹھارویں لوک سبھا کے ممبران پارلیامنٹ کی تصویر بھی واضح ہو گئی ہے۔ تاہم ، اس بار لوک سبھا میں مسلم ارکان پارلیامنٹ کی حصے داری  گزشتہ چھ دہائیوں میں سب سے کم دیکھنے کو ملی ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، موجودہ ارکان پارلیامنٹ میں مسلم ارکان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے، حالانکہ ملک کی کل آبادی  میں اس کمیونٹی کی آبادی 15 فیصد سے زیادہ ہے۔

مجموعی طور پر دیکھیں تو اس وقت لوک سبھا میں کل 24 مسلم ممبران پارلیامنٹ (4.4 فیصد) ہیں۔ اس بار حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے مسلم ممبران پارلیامنٹ کی حصہ داری میں اضافہ ہوا ہے لیکن لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی کل تعداد میں ریکارڈ کمی آئی ہے۔

اس بار، 2024 کے انتخابی نتائج میں سب سے بڑی پارٹی بنی – بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پاس فی الحال مسلم کمیونٹی کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔

تاریخ کی بات کریں تو 1990 کی دہائی میں لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی حصے داری میں گراوٹ بی جے پی کے عروج کے ساتھ  ہی شروع ہوئی تھی۔ تب بی جے پی ممبران پارلیامنٹ کی تعداد  10ویں لوک سبھا (1991-96) میں پہلی بار 100 کا ہندسہ عبور کر گئی تھی۔

اسی  کی دہائی میں لوک سبھا میں مسلمانوں کی حصے داری  سب سے زیادہ تھی

لوک سبھا میں مسلمانوں کی حصے داری 1980 کی دہائی میں سب سے زیادہ 8.3 فیصد تھی۔ اس وقت ساتویں (1980-84) اور 8ویں (1984-89) لوک سبھا کے دوران کانگریس اقتدار میں تھی۔

پھر مسلم ارکان پارلیامنٹ کی تعداد میں گراوٹ  کے بعد 14ویں لوک سبھا (2004-09) میں متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کے پہلے دور حکومت میں مسلم ارکان پارلیامنٹ کی تعداد میں پھر اضافہ ہوا اور یہ تقریباً 7 فیصد ہوگئی۔ اس وقت ایوان میں بی جے پی ممبران پارلیامنٹ کی تعداد میں کمی دیکھی گئی تھی۔

موجودہ لوک سبھا سمیت پچھلی چار لوک سبھا کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یو پی اے کے دوسرے دور میں 4.8 فیصد مسلم ممبران پارلیامنٹ تھے، وہیں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے پہلے دور میں ان کی تعداد کم ہو کر 4.7 فیصد ہوگئی۔

سال 2019 میں، این ڈی اے 2 میں یہ دوبارہ بڑھ کر 5 فیصد ہو گئی، لیکن این ڈی اے 3 میں یہ تعداد گھٹ کر 4.4 فیصد رہ گئی۔

کانگریس پارٹی میں سب سے زیادہ مسلم ممبران پارلیامنٹ ہیں

اس وقت کانگریس پارٹی سات مسلم ارکان پارلیامنٹ کے ساتھ اس فہرست میں سرفہرست ہے جو کہ کانگریس کے کل ارکان پارلیامنٹ کا 7 فیصد ہے۔

آٹھویں لوک سبھا (1984-89) کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کانگریس میں مسلم ارکان پارلیامنٹ کی حصہ داری 7 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں لوک سبھا (1977-89) میں یہ حصے داری تقریباً 7.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد سے، سترہویں لوک سبھا (2019-2024) میں حصے داری تیزی سے اور مستقل طور پر 1.1 فیصد تک گر گئی۔

کانگریس کے بعد آل انڈیا ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) بالترتیب پانچ اور چار مسلم ارکان پارلیامنٹ کے ساتھ فہرست میں ہیں۔

ایس پی کے 11 فیصد ایم پی مسلمان  ہیں اور 17 فیصد ترنمول کے ہیں۔ دیگر مسلم ارکان پارلیامنٹ میں انڈین یونین مسلم لیگ سے تین، جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس سے دو، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سے ایک اور دو آزاد ارکان شامل ہیں۔

آسام اور کیرالہ میں مسلم ارکان پارلیامنٹ کی حصے داری  کم

تازہ ترین لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی کم تعداد کے پیچھے بنیادی وجہ آسام اور کیرالہ میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی حصے داری  میں زبردست گراوٹ ہے۔ اس بار آسام میں ان کی حصے داری 14 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد رہ گئی ہے۔ جبکہ کیرالہ میں یہ 19 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد رہ گئی ہے۔

اتر پردیش میں بھی، 2024 میں ‘انڈیا’ اتحاد کے سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے باوجود، ریاست میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی حصے داری گزشتہ لوک سبھا کے 8 فیصد سے کم ہو کر 2024 میں 6 فیصد ہو گئی ہے۔

مجموعی طور پر، موجودہ پارلیامنٹ میں صرف دس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے کم از کم ایک مسلم رکن منتخب ہوکر آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ، گوا، منی پور، میگھالیہ، میزورم، سکم اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں نے کبھی بھی مسلم ممبران پارلیامنٹ کا انتخاب نہیں کیا ہے۔