یہ واقعہ اتراکھنڈ کے ہری دوار ضلع کے جھبریڑا قصبے کا ہے۔ ایک مسلم فیملی کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جائیداد کو لے کر تنازعہ چل رہا ہے، جس کو لے کر انہیں پہلے بھی دھمکیاں مل چکی ہیں، جس کی شکایت انہوں نے پولیس میں بھی درج کرائی تھی۔ شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 29 اگست کو پڑوسیوں نے ہتھیاروں کے ساتھ فیملی پر مبینہ طور پر حملہ کیا تھا۔
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے ہری دوار ضلع کے جھبریڑا قصبے میں ایک مسلم فیملی نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جھگڑےکے سلسلے میں فرقہ وارانہ طور پرتشدد کرنے کا الزام لگایا ہے۔
واضح ہو کہ 29 اگست کی شام کو ایک ہجوم نے مبینہ طور پرپرویز احمد کے اہل خانہ پرحملہ کر دیا تھا، جس میں ان کے اہل خانہ اور دیگر افراد زخمی ہوئے ۔ انہوں نے احمد کے چھوٹے بھائی کے جم میں بھی توڑ پھوڑ کی تھی۔
احمد کےاہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ہجوم میں ان کے پڑوسی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے تعلق رکھنے والے کئی نامعلوم افراد شامل تھے۔
کہا جا رہا ہے کہ احمد کے خاندان اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ ان کے درمیان جاری جائیداد کا تنازعہ ہے، جس کی سماعت عدالت میں ہو رہی ہے۔
تاہم اہل خانہ کی جانب سے واقعے کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
دی وائر کے پاس دستیاب ایف آئی آر 29 اگست کو درج کرائی گئی تھی اور اس میں چھ لوگوں کے نام درج ہیں۔ اس کے ساتھ 10-14 نامعلوم افراد کا بھی ذکر ہے۔ تشدد میں ملوث افراد کے نام پرشوتم سینی، ارون دھیمان، ونود دھیمان، راجپال، انشل سینی اور پارس ہیں۔
ملزمان پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153 اے (مختلف برادریوں کے درمیان نفرت کو فروغ دینا)، 147 (فسادات)، 148 (مہلک ہتھیار رکھنے)، 149 (غیر قانونی طوپر جمع ہونے)، 323 (ارادہ کے ساتھ چوٹ پہنچانے)، 504 (امن کی خلاف ورزی)، 506 (مجرمانہ دھمکی) اور 427 (نقصان پہنچانے) کے تحت کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 15-20 لوگوں کے ہجوم نے جن میں مذکورہ افراد بھی شامل تھے، نے جم پر لاٹھیوں اور ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ خاندان کے ساتھ فرقہ وارانہ طور پرگالی گلوچ بھی کی گئی اور معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور علاقے میں امن وامان کو درہم برہم کیا گیا۔
دی وائر سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز احمد نے بتایا کہ آخر ہوا کیا تھا؟
انہوں نے بتایا، ہم پر 29 اگست کو شام 6:30 بجے کے قریب حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ منصوبہ بند تھا کیونکہ انہوں نے اپنے لوگوں کو ہمارے خلاف اکسایا تھا۔ میرے چھوٹے بھائی کا ایک جم ہے، جس پر بھگوا کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے حملہ کیا۔ اس دوران کچھ لوگوں نے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے، ہم ہجوم میں شامل چند لوگوں کو ہی ان کے کپڑوں سے پہچان سکے۔
انہوں نے مزید کہا،جم میں توڑ پھوڑ کی گئی اور گولی باری بھی کی گئی۔ جم پر حملہ کرنے کے بعد وہ سڑک پار کر کے ہماری طرف آئے۔ ان کے پاس لاٹھیاں تھیں اور انہوں نے میرے بھائی کو ویڈیو بنانے سے روکنے کی کوشش کی۔ جب میرے والد علی شیر نے ہجوم کو روکنے کی کوشش کی تو ان پر لاٹھیوں سے حملہ کیا گیا۔ گھر کی خواتین کونازیبا الفاظ کہے گئے۔ جیسے ہی بھیڑ جمع ہونے لگی، ملزم موقع سے فرار ہوگئے۔
علی شیر کے سر پر شدید چوٹ آئی ہے اور وہ اس وقت رڑکی کے سرکاری اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
احمد نے کہا ہے کہان کا خاندان اب اس علاقے میں رہنا محفوظ نہیں سمجھتا، کیونکہ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور ان کی سابقہ شکایات پر کوئی تسلی بخش کارروائی نہیں کی گئی۔
معاملے کے ملزمین میں سے ایک ارون دھیمان مبینہ طور پر اس مسلم فیملی کے پڑوسی ہیں اور احمد کے خاندان کے ساتھ جائیداد کے تنازعہ پر ایک قانونی مقدمہ لڑ ر ہے ہیں۔
احمد کا کہنا ہے کہ دھیمانوں نے ان کے گھرمیں داخل ہونے کے راستے کو بند کرتے ہوئے ایک دروازہ بنا دیا ہے جس سے جھگڑا شروع ہو ا۔
اس سے قبل 19 اگست کو بھی سونو اور ارون دھیمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں دفعہ 452 (تجاوزات/ گھس پیٹھ)، 354 (عورتوں پر حملہ)، 504 (امن وامان کو متاثر کرنا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت معاملہ درج کرایا گیا تھا۔
احمد نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ 18 اگست کی رات وہ نماز پڑھنے مسجد گئے تھے۔ اس دوران خاندان کی خواتین گھر کے باہر کھڑی تھیں، چار پانچ افراد اکٹھے ہو ئے اور انہیں دھمکیاں دیں اور گالیاں دیں۔ انہوں نے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔
دی وائر کے پاس دستیاب ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اگر خاندان کو کچھ ہوا تو ایف آئی آر میں جن لوگوں کا نام لیا گیا ہے وہ جوابدہ ہوں گے۔
احمد نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں دھیمان نے پہلے بھی دھمکیاں دی تھیں۔ احمد نے کہا، اس سے پہلے انہوں نے ہمیں کیس واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔ 19 اگست کو انہوں نے ہماری خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں دھمکیاں دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تم مسلمان ہو، تمہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں، تب ہم نے معاملے کی ایف آئی آر بھی درج کروائی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے احمد کے وکیل سلمان نے کہا، ہماری طرف سے دو ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، لیکن پولیس نے ان کو یکجا کر دیا۔
دی وائر نے جھبریڑا پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا۔ اس معاملے سے متعلق ایف آئی آر درج کرنے والے سب انسپکٹر سنجیو تھاپلیال نے کہا، ہم نے ایف آئی آر درج کر لی ہے اور معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ملزم ابھی فرارہیں۔
تنازعہ کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک پرانا تنازعہ ہے جس نے تصادم کو جنم دیا۔
مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ دو فرقوں سے تعلق رکھنے والے دو مختلف دکانوں کے مالکان کی نقد ادائیگی کو لے کر ہوئے تصادم کی وجہ سےتشدد ہوا۔ تاہم احمد کے اہل خانہ یا پولیس کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔