یہ خیام کا فن تھا کہ انہوں نے قدامت کو یوں جدت دی کہ گویا لافانی کر دیا۔ اگر خیام نے صرف ایک دھن بنائی ہوتی تو وہ تب بھی اسی مرتبے پر فائز ہوتے جس پہ کہ ہوئے۔ اور وہ دھن تھی میر تقی میر کی غزل کی جوانہوں نے ساگر سرحدی کی فلم بازار کے لیے بنائی۔
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما، غور سے سن (ناصر کاظمی)
کوئی بیس پچیس سال ہوئے کہ دلیپ کمار اپنے اور ہمارے آبائی وطن پشاور تشریف لائے تھے۔ ایک محفل میں ان سے پوچھا گیا کہ اپنی فلموں میں سے کون سی فلم انہیں پسند ہے۔ انہوں نے دو نام لیے فُٹ پاتھ اور مسافر۔ جب وجہ پوچھی گئی تو کہا فُٹ پاتھ میں منفی کردار اور اس کی موسیقی۔ حسنِ اتفاق سے اس فلم کے ہدایتکاربھی پشاور ہی کے تھے، یعنی ضیاء سرحدی۔ بقول دلیپ کمار وہ فلم تو زیادہ نہیں چلی کہ لوگ انہیں منفی کردارمیں نہیں دیکھنا چاہتے تھے مگر اس کی موسیقی بے حد مقبول ہوئی، بالخصوص ان پر فلمایا گیا گیت؛
شامِ غم کی قسم، آج غمگیں ہیں ہم
آ بھی جا آ بھی جا آج میرے صنم
بول مشترکہ طور پر لکھے تھے علی سردار جعفری اور مجروح سلطانپوری نے، پلے بیک دیا تھا طلعت محمود نے کہجن کی آواز دلیپ کمار پر یوں جمتی تھی جیسے انگشتری میں نگینہ، اور موسیقی ترتیب دی تھی ایک نسبتاًنووارد محمد ظہور خیام ہاشمی نے۔ فلمساز سردار چندو لال اپنے میوزک ڈائریکٹر سے اس قدر خوش ہوئے کہ بولے’یہ میرا نوشاد ہے’۔ محمد ظہور اس سے قبل شرما جی کے نام سے فلم ہیر رانجھا میں ساتھی موسیقار رحمٰن ورما کے ساتھ موسیقی دے چکے تھے اور دونوں شرماجی، ورماجی کے نام سے کام کرتے تھے۔ مگر ضیاء سرحدی نے کہا کہ تم اپنے نام خیام سے کام کرو۔ اور پھر خیام نے پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا۔
خیام کے سُر کا سفر اداکاری کے شوق میں گھر چھوڑنے سے شروع ہوا۔ وہ ضلع جالندھر کے ایک متدین گھرانےمیں پیدا ہوئے، جس کا ماحول مذہبی، تعلیمی اور ادبی تھا۔ مگر ان کو فلم دیکھنے اور اداکار بننے کی چاٹ لگ گئی تھی۔ گھر والے انہیں پڑھانا چاہتے تھے مگر وہ تو اپنے جالندھری ہم وطن
کندن لال سہگل جیسا بننا چاہتے تھے اورگھر سے نکلے یا نکالے گئے۔ وہ جب گھر تیاگ کر اپنے چچا کے پاس دہلی پہنچے تو پہلے تو ان کی گوشمالی ہوئی اوراسکول وغیرہ میں داخل کروا دیا گیا۔ مگر جب چچا کو خیال ہوا کہ لڑکے کا من تو فلموں اٹکا ہوا ہے تو انہیں اپنےدوست اور جغادری سنگیت کار پنڈت امرناتھ کےپاس لے گئے۔ انہوں نے خیام کو دیکھا بھالا اور کہا کہ اداکاری سےپہلے سنگیت کی تعلیم دینا ضروری ہے۔ وہ زمانہ گاتے، بجاتے ہیرو اور ہیروئن یعنی سنگنگ اسٹارز کا تھا۔ کندن لال سہگل، ثریا اور
خورشید بیگم وغیرہ کا طوطی بولتا۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ خیام نے حامی بھری اور پنڈت جی کے شاگرد ہوگئے۔ پنڈت جی کے چھوٹے بھائی پنڈت حسن لال اور بھگت رام بھی گُنی سنگیت کار تھے، بلکہ فلموں میں پہلی موسیقار جوڑی انہیں دو بھائیوں کی تھی۔
کئی سال کی تربیت کے بعد پنڈت صاحبان خیام کی کارکردگی سے مطمئن ہوئے اور خیام نے لاہور کا رخ کیا کہ یہ شہر کلکتہ اور بمبئی کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کابڑا مرکز تھا۔ وہاں وہ مہا گرو موسیقار بابا غلام احمد
جی اے چشتی کے پاس پہنچے۔ اس پہلی ملاقات کا ذکرخیام نے بارہا اپنے انٹرویوز میں کیا ہے کہ وہ بابا چشتی کے دفتر میں پچھلی صف میں جا بیٹھے۔ بابا جی پیانو یاہارمونیم پر کوئی دھن بجا رہے تھے کہ اس کا کوئی بجایا ہوا ٹکڑا ان کے ذہن سے محو ہوگیا اور انہوں نے اپنےاسسٹنٹ یا حاضر باشوں سے پوچھا کہ بھئی وہ کیا تھا۔ خیام نے کہا کہ انہیں یاد ہے اور پھر سرگم کرکے سنا بھی دیا۔ بابا چشتی متاثر ہوئے اور انہیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔
لاہور اور کلکتہ کی جہاں گردی اور برطانوی ہند کی فوج میں دو سال ملازمت کے بعد خیام بمبئی میں وارد ہوئےاور اپنے مربّی پنڈت صاحبان حسن لال بھگت رام سے ملے جو فلم رومیو جولیٹ کی موسیقی دے رہے تھے۔ انہوں نےخیام کو آگرہ گھرانے کی کلاونت گائکہ زہرہ بائی انبالے والی کے ساتھ فیض احمد فیض کی معروف غزل ‘
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے / وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے’۔ زہرہ بائی کی گائیکی پختگی کی اوج پر تھی۔
ان کے گانے میں رچاؤ اور ٹھہراؤ، مشاقی اور مشتاقی بیک وقت نظر آتی ہے۔ خیام کی عمر لگ بھگ بیس سال ہوگی مگر انہوں نے بشکلِ دوگانہ گائی گئی اس غزل میں ترنم و تغزل کا پورا پورا اہتمام برتا۔ بطور موسیقار ان کا کیریئر اسی ترنم اور تغزل کے توازن سے عبارت ہے۔
ان کی دھنوں میں شاعری اور بول، گلوکار کی آواز اور، بلکہ سننے والوں کی توجہ کو جس تناسب سے برتا گیا ہےوہ انہیں کا خاصہ ہے۔ فُٹ پاتھ کے گیت شامِ غم کی قسم کو اگر غور سے سنیے تو کھلے گا کہ اس کی موسیقی میں ڈھولکی، طبلے یا پکھاوج وغیرہ کی سنگت نہیں ہے گو کہ اس زمانے میں سنگیت کا تصور ان کے بغیر محال تھا۔ اس نغمے میں خیام نے گٹار اور ڈبل بیس سے تھاپ یعنی percussion پیدا کی ہے اور اس زمانے کا ایک تازہ امریکی ایجاد Hammond Solovox بھی استعمال کیا ہے۔ اس باریک کام کا نتیجہ یہ ہے کہ گیت کے بول،سچویشن، طلعت محمود کی آواز اور دلیپ کمار کے تاثرات یکسر ملائمِ ہم دگر ہیں۔ کوئی بھی جزو دوسرے پر غالب آنے کی کوشش نہیں کرتا اور سننے والوں کی سماعتیں آج لگ بھگ ستر سال بعد بھی سرور پاتی ہیں ہیں۔
یہی خفیف توازن subtle balance خیام کے کام کا طرۂ امتیاز ہے۔ ان کی بنائی ہوئی غزلوں کی دُھنیں اس لیےمقبول نہیں کہ وہ فقط غزل کے موسیقار تھے، بلکہ اس لیے لاجواب ہیں کہ وہ غزل کے مزاج سے آشنا تھے۔ انہوں فلموں کی موسیقی تو دی ہی مگر غیر فلمی موسیقی بھی مرتب کی جس کے سلسلے میں انہوں نے محمد رفیع، طلعت محمود اور سب سے بڑھ کر برصغیر کی معتبر گائیکہ بیگم اختر فیض آبادی کے لیے غزلوں کی دُھنیں ترتیب دیں۔ بیگم اختر کی گائی ہوئی شکیل بدایونی کی غزل ‘
میرے ہم نفس میرے ہمنوا، مجھ دوست بن کے دغا نہ دے ‘تو گویا امر ہے۔
انہوں نے اپنے پچاس سے زائد برسوں پر پھیلا ہوئے فلمی کیریئر میں کچھ اوپر پچاس فلمیں کیں۔ وہ چاہتے تو سودو سو بھی کرسکتے مگر پھر بھرمار کے کام اور ان کے لطیف کام میں فرق ہی کیا رہتا۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی مرتب کی ہوئی ساڑھے پانچ منٹ کی ایک دُھن یعنی فلم امراؤ جان ادا میں اخلاق محمد خان شہریار کی غزل’دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے’بہت سوں کے عمر بھر کے کام پر بھاری ہے۔ جب انہوں نے ہدایتکار مظفر علی سے امراؤ جان کی موسیقی ترتیب دینے کی حامی بھری تو ان کے ذہن میں تھا کہ اس سے کچھ عرصہ قبل اسی موضوع پر کمال امروہی کی پاکیزہ اور ماسٹر غلام محمد کی دی ہوئی اس فلم کی موسیقی زبردست کامیابی حاصل کر چکے تھے۔
مگر خیام کسی اور کی چھاپ اپنے کام پر کیا پڑنے دیتے کہ وہ تو خود اپنے پرانے کام کا سایہ اپنے نئے کام پر نہیں پڑنے دیتے تھے۔ اور اپنے گلوکاروں کو بھی اسی کی ترغیب دیتے تھے۔ انہوں نے جب یہ غزل آشا بھوسلے سے جو اونچے سُروں High octave میں گاتی تھیں، سے گانے کو کہا تو ساتھ ہی یہ صلاح بھی دی کہ آپ اپنے عمومی سُروں سے ڈیڑھ سُر نیچے آ کر گائیے۔ آشا پہلے تو کچھ جزبز ہوئیں پھر اس شرط پر مانیں کہ ریکارڈنگ دونوں سُروں میں الگ الگ کی جائے۔ بقول خیام آشا نے جب نچلے سُروں میں اپنی ہی آواز سنی تو مسحور ہو کر رہ گئیں۔
اسی طرح اسی فلم میں’ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں’ بجائے خود لاجواب ہے۔ ان دونوں کا پورا لطف اٹھانے کے لیے مرزا ہادی رسوا کے ناول اور اس پر مبنی اس فلم کی کہانی کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ امراؤ دراصل ایک بچی امیرن تھی جو بدلے کی آگ کا ایندھن بنی اور اغوا کرکے کوٹھے پر پہنچا دی گئی۔ ان غزلوں کی سچویشن اب اس جوان طوائف کا بالا خانہ ہے اور گانے والی کا مزاج اس موقع پر عشوہ طراز یعنی flirtatious ہے۔ مگر اندرونی کرب اس کھُل کھیلنے نہیں دیتا۔ پس اس واسطے خیام نے آشا کو روک کرگانے کو کہا۔ کھماج، بہاگ، پہاڑی اور بھوپالی راگوں میں بنی اس فلم کی دُھنیں، آشا کا برتا ہوا سُر اور گُرو کالحاظ اور ریکھا کا رقص اور اس سے بڑھ کر چہرے کے تاثرات،
؏ آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے
کہا یہ جاتا ہے کہ پہاڑی خیام کا سب سے پسندیدہ راگ تھا اور واقعی اس میں بنی ان کی دُھنیں جیسے’
تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو‘جسے ان کی باکمال اہلیہ جگجیت کور نے فلم شگون میں گایا، یا کبھی کبھی کا مقبول عام ساحر لدھیانوی کی نظم پر مبنی’بھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے’جو فلم کی طربیہ اور المیہ دونوں صورتوں میں ہی لاجواب ہے۔ خیام خود کہتے تھے کہ ساحر نے یش چوپڑا سے اصرار کر کے خیام کوکبھی کبھی کی موسیقی دینے کے لیے سائن کروایا۔ اس پہلے ساحر رمیش سہگل کی فلم’
پھر صبح ہو گی‘ کی موسیقی بھی اسی طرح بضد ہو کر خیام سے ترتیب دلا چکے تھے۔ معاملہ یوں تھا کہ ساحر کی نظمیں بشمول چیتن آنند کے پاس تھیں اور وہ اور خیام ان سے واگذار کروانے اور اجازت لینے گئے۔ انہوں اجازت تو دی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ فرسودہ ہو چکی ہیں۔ شاید یہ بات شاعر اور موسیقار کے ذہنوں میں رہ گئی ہوگی، اور پھردنیا نے سنا کہ اسی فرسودہ کلام سے شائقین کے کان کس طرح آسودہ ہوئے۔
یہ خیام کا فن تھا کہ انہوں نے قدامت کو یوں جدت دی کہ گویا لافانی کر دیا۔ اگر خیام نے صرف ایک دھن بنائی ہوتی تو وہ تب بھی اسی مرتبے پر فائز ہوتے جس پہ کہ ہوئے۔ اور وہ دھن تھی میر تقی میر کی غزل کی جوانہوں نے ساگر سرحدی کی فلم بازار کے لیے بنائی۔ میر کی غزل کا مطلع تو یہ ہے کہ،
فقیرانہ آئے، صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
مگر خیام نے مکھڑا بنایا اس شعر کو جو واقعی بیت الغزل ہے، یعنی؛
دکھائی دیے یوں کہ بےخود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
اور مکھڑے کے لیے انہوں نے استعمال کیا راگ ایمن کو ایک اضافی سُر لگا کر جس سے غزل کی کیفیت ہی بدل گئی۔ ماہرِ موسیقی داؤد رہبر نے لکھا تھا کہ مہمان سُر تبھی جچتا ہے جب مہمان جھلکی دکھا کر چلتا بنے، دھرنادے کر نہ بیٹھ جائے۔ اور خیام نے مہمان کو بلایا اور ترنت رخصت بھی کیا۔ پرکشن کے لیے ڈرم کا استعمال جدت کےتقاضوں کے مطابق ہے اور خیام کے مخصوص توقف pause سے مزین۔ عرف عام میں اس کو خیام ٹھیکہ بھی کہا گیا ہے مگر یہ اس عظیم موسیقار کے حق میں زیادتی ہوگی اگر اس کی گہرائی اور گیرائی کو نہ ماپا جائے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ شعر اور بول کو نکھارتے اور ابھارتے ہیں، سازوں کے ذریعے پچھاڑتے نہیں۔ غالب نے کہا تھا کہ،شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں۔
بعینہٖ موسیقی مرتب کرنا بھی فقط ڈھول پیٹنا نہیں بلکہ ساز،الفاظ اور آواز کو ان کی اپنی اپنی جگہ پر یوں رکھنا ہے کہ ذرہ بھی آفتاب ہوجائے۔ خیام نے ہر غزل اوربالخصوص اس غزل کے بہاؤ کو تھاپ کے ٹھہراؤ سے یوں سنوارا ہے کہ سننے والا بھی رُک کر نہ صرف حظ اٹھاتاہے بلکہ سوچتا بھی ہے۔ اور بس یہی بات ناصر کاظمی نے کہی تھی کہ ترنم کے عین بیچ یہ سکوت ہی توموسیقی سننے کا حاصل ہے۔ غور سے سنیے تو نغمے کی نغمگی ہی تو رہنمائی کر رہی کائنات اور خود انسان کےاندرونی زیروبم کی جانب کہ سم پورن راگ تو وہاں بج رہا ہے۔ بہاؤ کے دوران یہ ٹھہراؤ خیام کا خاص سکہ ہے۔
میر تو خدائے سخن تھے ان کا کلام تو تاقیامت رہے گا مگر موسیقی کے اس اوتار خیام نے اس کو وہ آہنگ دیا کہ کلام اور ترنم ہمیشہ تازہ معلوم ہوں گے۔ خیام ہندوستانی فلمی موسیقی کے سنہرے دور کے آخری رتن تھے۔ وہ گزشتہ ہفتے
دار فانی سے کوچ کر گئے، نغمہ تار نفس خاموش ہوا مگر ان کا ساز تادیر بجتا رہے گا۔
(محمد تقی پاکستانی امریکن کالم نگار ہیں ، @mazdaki ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔)