ممبئی کی سماجی کارکن ہرشالی پوتدار کا نام ایلگار پریشد معاملے میں کلیدی ملزم کے طور پر درج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سوموار کو انہیں مبینہ طور پر ایک فیس بک پوسٹ شیئر کرنے کے الزام میں پولیس نے غیر قانونی طریقے سے حراست میں لیا تھا۔
ممبئی کے سیشن کورٹ کے ذریعےسماجی کارکن ہرشالی پوتدار کی پیشگی ضمانت کی عرضی رد کرنے کے ہفتے بھر بعد ممبئی پولیس نے انہیں11جنوری کوجنوبی ممبئی کے ایک کیفے سے گرفتار کر لیا۔ حالانکہ پانچ گھنٹے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔
پوتدار، جن پر دو کمیونٹی کے بیچ فرقہ وارانہ دشمنی بھڑ کانے کاالزام لگایا گیا تھاکو مطلع کیا گیا کہ انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان کی فیملی اور وکیلوں کو منگل کو ہونے والی شنوائی کے لیے عدالت میں موجود رہنے کو کہا گیا۔حالانکہ کچھ گھنٹوں بعد پولیس نے اپنا من بدل لیا۔ ہرشالی نے د ی وائر کو بتایا،‘اچانک انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے بس پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا تھا اور میں جا سکتی ہوں۔’
ٹس سے پڑھائی پوری کرنے والی ہرشالی نے مبینہ طور پر فیس بک پر ایسی پوسٹ شیئر کی تھی، جس میں کورونا وبا سے نمٹنے کو لےکرسرکار کی تنقیدکی گئی تھی۔یہ پوسٹ بنیادی طورپر ایک سیاسی کارکن محسن شیخ کے ذریعے لکھی گئی تھی، جسے ہرشالی نے کچھ وقت کے لیے شیئر کیا تھا اور آخرکار ہٹادیا تھا۔
پولیس کے مطابق، یہ پوسٹ فرقہ وارانہ تھا اور دو کمیونٹی کے بیچ دشمنی کو ہوا دیا۔ ایف آئی آر میں اس پیغام کے کچھ لفظوں کا ذکر کیا گیا ہے:‘کورونا… میڈیا…مسلم اور براہمن۔’یہ صاف نہیں ہے کہ ان میں سے کس لفظ سے فرقہ وارانہ دشمنی بھڑکی۔
بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کی طرح ہی مہاراشٹر کی شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کی سرکار نے بھی گزشتہ سال دہلی کے نظام الدین مرکز میں ہوئے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں حصہ لینے والوں کے خلاف کئی کیس درج کیے تھے۔ فیس بک پر لکھی گئی اس پوسٹ میں مبینہ طور پر ان معاملوں سے نمٹنے میں سرکار کے رول اور مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کو لےکرالزام لگایا گیا تھا۔
یہ پہلا معاملہ نہیں ہے، جس میں ہرشالی کا نام ملزم کے بطور درج کیا گیا ہے۔ پوتدار بھیما کورےگاؤں شوریہ دن پریرنا ابھیان کا حصہ ہیں، جس کے زیراہتمام31 دسمبر 2017 کو پونے میں ایلگار پریشد کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1 جنوری 2018 کو یہاں ہوئےتشدد کے فوراً بعد درج ہوئی ایف آئی آر میں پونے (دیہی)پولیس نے ہرشالی کا نام کلیدی ملزمین میں رکھا تھا۔
یہ کیس این آئی اے دیکھ رہی ہے اور اب تک اس معاملے میں ان کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
ایک سیاسی کارکن کے طور پر پوتدار کےخلاف مظاہرہ میں حصہ لینے اور موجودہ اقتدار کےخلاف تنقیدی تبصرہ کرنے کو لےکر کئی معاملے درج ہوئے ہیں۔ پچھلے ہفتے ان کی گرفتاری سےپہلے ضمانت کی عرضی کی مخالفت کرنے کے لیے انہی معاملوں کو بنیاد بنایا گیا تھا۔
عدالت میں پولیس کے تحریری بیان میں انہیں گرفتار کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔ ان کی وکیل عشرت جہاں نے دی وائر کو بتایا،‘پولیس نے صرف اس بات پر دھیان دیا کہ انہیں جانچ کے لیے ہرشالی کا فون (جسے مبینہ طور پر پوسٹ شیئر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا)چاہیے۔ان کا فون اپنے قبضے میں لینے کے بجائے وہ ان کی کسٹڈی لینا چاہ رہے تھے۔’
سوموار کو ہرشالی ایک غیررسمی بیٹھک کے لیے کچھ دیگر کارکنوں کے ساتھ جنوبی ممبئی کے ایک کیفے میں تھیں جب پولیس آکر پوتدار کو لے گئی۔
پوتدار نے بتایا،‘مجھے صاف بتایا گیا تھا کہ یہ گرفتاری ہے۔ مجھے کچھ کاغذوں پر دستخط کرنے کو کہا گیا اور جب میں نے اس بارے میں سوال کرتے ہوئے سائن کرنے سے انکار کر دیا تب پولیس نے اپنا رویہ بدل دیا۔ اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے کہ انہوں نے کیوں اور کیسے مجھے جانے دینے کا فیصلہ لیا۔’
پوتدار نے اپنی حراست کو غیر قانونی بتاتے ہوئے کہا، ‘انہوں نے کوئی سمن جاری نہیں کیا تھا۔ انہوں نے مجھے ایک پبلک پیلس سے بنا کسی وارننگ کے اٹھایا تھا۔ اور پانچ گھنٹے بعد پھر جانے کو کہہ دیا۔ کسی قانونی ضابطے پرعمل نہیں ہوا۔’
سال 2020 میں لاک ڈاؤن کے دوران مہاراشٹر پولیس نے میڈیااہلکاروں اور کارکنوں کے خلاف کئی معاملے درج کیے تھے۔ زیادہ تر معاملوں میں ایف آئی آر کا نام ونشان نہیں تھا اور ریاستی سرکار کی ان کے کووڈ 19سے نمٹنے کو لےکر سوال اٹھانے والے کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کو لےکر کافی تنقیدہوئی تھی۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)