یہ واقعہ 14 جنوری کو اجین ریلوے اسٹیشن پر پیش آیا۔ الزام ہے کہ بجرنگ دل کے کارکنوں نے ایک مسلمان پر ‘لو جہاد’ کا الزام لگا کرمار پیٹ بھی کی۔ دونوں شادی شدہ ہیں اور فیملی فرینڈ ہیں ۔
وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی اسٹوڈنٹ ونگ بجرنگ دل کے تین لوگوں نے اجمیر جارہی ٹرین میں ایک ساتھ سفر کر رہے ایک مسلمان شخص اور اس کی ہندو دوست کو زبردستی مدھیہ پردیش کے اجین ریلوے اسٹیشن سےکھینچ کر باہر اتار دیا۔
ان کارکنوں نے اس مسلمان شخص پر ‘لو جہاد’ کا الزام بھی لگایا۔ یہ واقعہ 14 جنوری کی شام کو پیش آیا۔
بتادیں کہ 30 سالہ آصف شیخ اپنی فیملی فرینڈ کے ساتھ ٹرین میں سفر کر رہے تھے کہ وی ایچ پی کے لوگوں نے دونوں کو ٹرین کے کوچ سے کھینچ کر باہر اتار دیا۔
دونوں اندور کے رہنے والے ہیں۔ بجرنگ دل کے ممبران دونوں کو پوچھ تاچھ کے لیےزبردستی اجین ریلوے پولیس اسٹیشن لے گئے۔ پولیس نے دونوں کے بیان قلمبند کرنے کے بعد انہیں جانے دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں فیملی فرینڈ ہیں۔
متاثرین نے شکایت درج کرانے سے انکار کر دیا ہے، جس کے بعد جی آر پی نے وی ایچ پی کےلوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
मुस्लिम लड़का और गैर मुस्लिम लड़की MP उज्जैन से ट्रेन में जा रहे थे, हिंदू संगठन वालों को खबर लगी तो वहाँ पहुँचकर लड़के को पीटते हुए थाने ले गए, जाँच के बाद पुलिस ने बताया कि लड़का और लड़की दोनों शादीशुदा हैं, दोनों में पारिवारिक संबंध भी है, जिसके बाद पुलिस ने उन्हें जाने दिया… pic.twitter.com/Q6u0md3pMC
— Ashraf Hussain (@AshrafFem) January 18, 2022
جی آر پی کے مطابق، شیخ اندور میں ایک دکان چلاتے ہیں اور شادی شدہ ہے۔ ہندو خاتون بھی شادی شدہ ہیں اور اندور ہی کے ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ دونوں فیملی فرینڈ ہیں اور وہ پشکر میلے میں شرکت کے لیے اجمیر جا رہے تھے۔
یہ معاملہ 18 جنوری کو اس وقت سامنے آیا، جب ایک دائیں بازو کے کارکن نےانتہائی گمراہ کن کیپشن کے ساتھ اس واقعہ کا ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں بجرنگ دل کے تین کارکن شیخ کو پیٹتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس دوران ان کارکنوں نے شیخ کو اجمیر جانے والی ٹرین کے اے سی کوچ سے کھینچ کر باہر نکالا اور ان کی پٹائی کی۔ پھر یہ کارکن شیخ کو تھانے لے جا رہے ہیں اور خاتون ہاتھ میں اپنا سامان لیے ہوئے ان کے پیچھے ہیں۔
اس معاملے کے ایک اور ویڈیو میں پولیس اسٹیشن کے اندر خاتون وی ایچ پی کےلوگوں سے یہ کہتے سنائی دے رہی ہیں کہ ، تمہاری ایک غلط فہمی سے میری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ تم مجھے ریکارڈ کر رہے ہو لیکن اس کے لیےتم پہلے میری اجازت لے لیتے۔ میں بالغ ہوں۔مجھے پتہ ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ میں ایک ٹیچر ہوں۔
اس ویڈیو میں خاتون کو چیختے ہوئے سنا جا سکتا ہے جبکہ پولیس خاموش بیٹھی یہ سب دیکھ رہی ہے۔ ان میں سے ایک وی ایچ پی رکن کی پہچان پنٹو کوشل کے طور پر ہوئی ہے، جو خاتون سے کہہ رہا ہے، کیا میں تم سے بات کر رہا ہوں؟
دی وائر سے بات کرتے ہوئے، اجین کے جی آر پی انسپکٹر آر ایس مہاجن کا کہنا ہے، وی ایچ پی کے لوگ 14 جنوری کو دو لوگوں کو لے کریہاں آئے تھے اور لو جہاد کا شبہ ظاہر کیا تھا، جو بعد میں پوچھ تاچھ کے دوران غلط ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں کےگھر والے اس بات سے واقف تھے کہ وہ ایک ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ بتادیں کہ دونوں کو تب تک تھانے میں انتظار کرایا گیا، جب تک کہ ان کے رشتہ دار اندور سے وہاں نہیں پہنچ گئے۔
अभी GRP SP नेवेदिता गुप्ता से बात हुई। उन्होंने बताया कि लड़की इंदौर की रहने वाली है और 2016 में शादी हुई थी। साथ में जिस लड़के को VHP वालो ने पकड़ा वह भी इंदौर का है दुकान चलाता हैं।
दोनों से पूछ ताछ कर जाने दिया गाय। चुकीं लड़का/ लड़की ने VHP के गुंडों के खिलाफ़ कंपलेंट 1/2 https://t.co/oi4Q7zRcwT
— काश/if Kakvi (@KashifKakvi) January 18, 2022
مسافروں کے تحفظ اور ان سے مارپیٹ کے لیے ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کیے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پرجی آر پی کی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نویدیتا گپتا نے کہا، ہمیں اجین کے واقعے کے بارے میں پتہ چلا، جس میں وی ایچ پی کے لوگوں کے لو جہاد کے شبہ کے بعدمسلمان شخص کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ۔ پوچھ تاچھ کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ دونوں مسافروں کو اسی دن جانے دیا گیا، لیکن انہوں نے وی ایچ پی کارکنوں کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کرائی تھی۔
وی ایچ پی کے مالوہ صوبے کےپرچار پرمکھ کندن چندراکر نے کہا،ہمیں باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ ایک مسلمان شخص ایک ہندو بیٹی کو بہلا پھسلا کراس سے نکاح کرنے کے لیے اجمیر لے جا رہا ہے۔ لو جہادکے شک میں ہمارے کارکنوں نے اسے پکڑ لیا اور انہیں جی آر پی تھانے لے گئے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے بعد پولیس نے کیا کیا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان شخص ایک ہندو عورت کو ورغلا کر لے جارہا تھا، چندراکر نے کہا، ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لوگ مسلمان مردوں کےذریعےہماری ہندو بیٹیوں کےاستحصال کو لے کر فکرمند ہیں۔ یہ مسلمان لوگ لو جہاد میں ملوث ہیں۔ ہماری بہنوں کا خیال رکھتےہوئے ہی ہمارے کارکنوں نے مداخلت کی۔
بتادیں کہ ‘لو جہاد’ ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو خواتین کو زبردستی یا بہلا پھسلا کر اسلام قبول کروانے کے بعد مسلمان مرد سے اس کی شادی کر ائی جاتی ہے۔
(اس رپورٹ انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)