مدھیہ پردیش میرج اسسٹنس اسکیم کےتحت 30.4 کروڑ روپے کا یہ گھوٹالہ 2019 اور 2021 کےبیچ کا ہے۔ اس گھوٹالے کے تحت ہزاروں لڑکیوں کی فرضی شادیاں کرائی گئیں تاکہ گھوٹالہ کرنے والے مکھیہ منتری کنیا وواہ یوجنا کے تحت فائدہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دے سکیں۔
مدھیہ پردیش میرج اسسٹنس اسکیم میں کروڑوں روپے کےفراڈ کا معاملہ سامنےآیا ہے۔ 2019 اور 2021 کے درمیان ہونے والے اس گھوٹالہ کی مالیت 30.4 کروڑ روپے بتائی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق،اقتصادی جرائم ونگ (ای او ڈبلیو) کی بھوپال یونٹ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے مطابق، اس گھوٹالے کی زد میں 93 گرام پنچایتیں اور 20 بینک ہیں۔
اس گھوٹالے کے تحت ہزاروں لڑکیوں کی فرضی شادیاں کرائی گئیں تاکہ گھوٹالہ کرنے والے مکھیہ منتری کنیا وواہ یوجنا کے تحت فائدہ اٹھانے کے لیے درخواست دے سکیں۔
دراصل اس اسکیم کے تحت مزدوروں کی بیٹیوں کو ان کی شادی پر 51000 روپے کی مالی امداد دی جاتی ہے۔
یہ گھوٹالہ 22 دسمبر 2021 کو اس وقت سامنے آیا جب بی جے پی کے ایم ایل اے اوما کانت شرما نےسرونج جن پد پنچایت میں لڑکیوں کی شادی کی اس اسکیم کےمستحقین کومختص فنڈز کے بارے میں ریاست کے وزیر محنت برجیندر پرتاپ سنگھ سےجانکاری طلب کی۔
شرما نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے یہ جانکاری اس لیے مانگی کیونکہ گھٹوا گاؤں کے دو لوگوں نے ان سے شکایت کی تھی کہ انہیں اسکیم کے تحت 51000 روپے کی پوری رقم نہیں ملی ہے۔
انہوں نے کہا، ان کے اس دعوے کی چھان بین کی گئی اور ان کا دعویٰ سچ ثابت ہوا۔ اس کے بعد میں نے سرونج بلاک میں اسکیم کےمستحقین کی تفصیلات طلب کی تو معلوم ہوا کہ ایسے تقریباً 6000 لوگ ہیں۔
شرما کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ سرونج جن پد پنچایت میں اس اسکیم کے تحت 5976 لوگوں کو کل 30.4 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
شرما نے اسکیم کی ریاست گیرجانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس جانچ کے بعد 4 جنوری کو سرونج جن پد پنچایت کے چیف ایگزیکٹیو افسر شوبھت ترپاٹھی کو سسپنڈکر دیا گیا۔
چھ جنوری کو ای او ڈبلیو نے ترپاٹھی اورہیمنت عرف جتیندر ساہو اور یوگیندر شرما کے ساتھ جعلسازی اور بدعنوانی ایکٹ، انسداد بدعنوانی ایکٹ، آئی پی سی کی دفعہ 420 (دھوکہ دہی اور بے ایمانی)، 467 (جعل سازی) اور 468 (دھوکہ دینے کے ارادے سےجعل سازی)کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
ترپاٹھی اور اس کے مبینہ ساتھیوں کو 3 فروری 2022 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت جیل میں ہیں۔
یہ گھوٹالہ کیسے ہوا
اس گھوٹالے کی ای او ڈبلیوجانچ سے یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے نام نہاد فائدہ اٹھانے والوں نے اسکیم کے لیے درخواست تک نہیں دی تھی۔ جانچ سے معلوم ہوا کہ ان میں سے کئی پہلے سے شادی شدہ تھے، وہیں کچھ بچے ایسےبھی پائے گئے جو اس سکیم کے تحت مستفید نہیں تھے اور جن لوگوں نے اسکیم کے لیے اپلائی کیا تھا ان میں سے بہت سے لوگوں کو رقم نہیں ملی جبکہ ان لوگوں کے نام پرپیسےٹرانسفر کردیے گئے تھے۔
ایک معاملےمیں27 سالہ شخص کی تین بیٹیوں کی قانونی طور پر شادی کرا دی گئی اور حکومت نے ان تینوں کے نام 153000 روپے ٹرانسفر کیے۔ تاہم یہ رقم دوسرے بینک کھاتوں میں چلی گئی۔
ان میں سے زیادہ تر شادیاں کووڈ کے دوران ہوئیں(جب شادی کی تقریبات اور اجتماعات پر یا تو پابندی تھی یا اس میں شامل ہونے والے لوگوں کی تعداد محدودکر دی گئی تھی) جو زیادہ مشتبہ ہے کہ سرکاری آڈیٹرز نے اس لین دین کی کوئی جانچ نہیں کی۔
ای او ڈبلیو کے مطابق، ترپاٹھی نے 2019 اور 2021 کے درمیان3500 لوگوں کی شادیوں کے لیے 185232000 روپے کا لین دین کیا۔
کچھ تفصیلات کی تصدیق کے بعدای او ڈبلیوکو معلوم ہوا کہ کل 5923 شادیاں ہوئی تھیں اور 301839000 روپے کا لین دین کیا گیا۔ تاہم تفتیش ابھی جاری ہے۔
ای او ڈبلیو کا خیال ہے کہ یہ رقم 304022000 روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے،جس کا اندازہ انہوں نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں لگایا ہے۔
اتفاق سے ترپاٹھی مدھیہ پردیش کابینہ کے ایک وزیر گوپال بھارگو کے بہنوئی ہیں۔ اس معاملے میں ترپاٹھی کے ساتھ گرفتار ساہو اور یوگیندر شرما اس گھوٹالے کے سلسلے میں جیل میں ہیں اور وہ سرونج جن پد پنچایت میں کمپیوٹر آپریٹر تھے۔
نچلی عدالت میں ترپاٹھی کی ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد وہ ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
ترپاٹھی کی گرفتاری کے فوراً بعد ای ڈی نے گوپال بھارگو کے بیٹے اور مدھیہ پردیش میں بی جے وائی ایم کےلیڈر ابھیشیک بھارگوکی تفتیش شروع کر دی ہے۔ ای ڈی 80 کروڑ روپے کے چٹ فنڈ گھوٹالہ میں ابھیشیک بھارگوکی جانچ کر رہی ہے۔
یہ چٹ فنڈ گھوٹالہ مبینہ طور پر مدھیہ پردیش کی ایک سرمایہ کاری کمپنی شردھا سبوری کموڈٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ نے کیا تھا۔تقریباً 400 سرمایہ کاروں، جن میں سے زیادہ تر ریٹائرڈ اہلکار اور خواتین تھیں، نے ابھیشیک بھارگو سمیت تین لوگوں پر رقم کو دوگنا کرنے کے بہانے سرمایہ کاری کے لیےبہلانے کا الزام لگایا تھا۔
(آکانکشا دیشمکھ ایک آزاد صحافی ہیں۔)
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)