مدھیہ پردیش: متاثرہ خاندان کا دعویٰ –کارپوریشن افسر کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے مکان توڑا گیا

مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے بان گنگا علاقے میں 27 اگست کو ایک مسلم فیملی کے گھر کو میونسپل کارپوریشن نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرا دیا تھا۔ فیملی نے اپنے مکان کو قانونی بتاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے گھر کو انتقامی کارروائی کے تحت توڑا گیا، کیونکہ 20 اگست کو انسداد تجاوزات مہم کے دوران کارپوریشن کے ایک اہلکار کا اس مکان میں رہنے والی ایک خاتون کے بیٹے کے ساتھ جھگڑا ہوگیا تھا۔

مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے بان گنگا علاقے میں 27 اگست کو ایک مسلم فیملی کے گھر کو میونسپل کارپوریشن نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرا دیا تھا۔ فیملی نے اپنے مکان کو قانونی بتاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے گھر کو انتقامی کارروائی کے تحت توڑا گیا، کیونکہ 20 اگست کو انسداد تجاوزات مہم کے دوران کارپوریشن کے ایک اہلکار کا اس مکان میں رہنے والی ایک خاتون کے بیٹے کے ساتھ جھگڑا ہوگیا تھا۔

مکان توڑے جانے کے دوران کی تصویر۔ (فوٹو: اسکرین گریب ٹوئٹر/@Satyamooknayak)

مکان توڑے جانے کے دوران کی تصویر۔ (فوٹو: اسکرین گریب ٹوئٹر/@Satyamooknayak)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے بان گنگا علاقے میں 27 اگست کو میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ منہدم کیے گئے گھر کے مکینوں نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی ان کے ایک رشتہ دار سے کارپوریشن کے ایک اہلکار کے ساتھ ہاتھا پائی  کےانتقام میں کی گئی ہے۔

گزشتہ 20 اگست کو ایک چائے کے اسٹال کے مالک الطاف خان نے بھوپال میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کے ایک اہلکار قمر ثاقب کو اس وقت تھپڑ مار دیا تھا،  جب انسداد تجاوزات مہم کے دوران ان کا اسٹال ہٹایا جانا تھا۔

واقعے کے ایک ہفتے بعد اس  گھرکو توڑ دیا گیا، جس میں الطاف کی والدہ رہتی ہیں۔ یہ گھر دراصل الطاف کے چچازاد بھائی کی ملکیت ہے۔ اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ بی ایم سی افسر کے ساتھ جو کچھ ہوا، یہ صرف اس کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا۔

تاہم میونسپل کارپوریشن کا دعویٰ ہے کہ مکان غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔

قمر ثاقب کی شکایت پر ٹی ٹی نگر پولیس اسٹیشن میں 20 اگست کو الطاف، اعجاز بیگ اور منوج لودھی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ان تینوں کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 353 (سرکاری ملازم پر حملہ)، 294 (فحاشی)، 506 (مجرمانہ دھمکی)، 323 (چوٹ پہنچانا) اور 34 (یکساں ارادے سےکئی لوگوں کے ذریعےکیا گیا کام) کے تحت معاملہ درج ہوا ہے۔

ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اعجاز اور منوج کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جبکہ الطاف فرار ہے۔ ان کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا فون بند ہے اور ان کی لوکیشن کا پتہ نہیں چل رہا ہے کیونکہ وہ 20 اگست کے جھگڑے کے بعد سے گھر واپس نہیں لوٹے ہیں۔

دی وائر کے پاس دستیاب ایف آئی آر کی کاپی میں انسداد تجاوزات افسر کا کہنا ہے کہ بھوپال کے نیو مارکیٹ علاقے میں اس مہم کے دوران ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی تھی۔

ثاقب نے کہا ہے کہ ان کے کام میں اس وقت خلل ڈالا گیا جب وہ الطاف کے چائے کے اسٹال کو ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان  کا الزام ہے کہ انہیں اور ان کے عملے کو تین افراد نے ڈرایا دھمکا اوران کے  ساتھ بدسلوکی کی۔

اس کے بعد 27 اگست کی صبح پولیس اور بی ایم سی حکام کی ایک ٹیم بان گنگا علاقے میں واقع اس گھر پرپہنچی جہاں الطاف خان کی والدہ کنیز بی رہتی ہیں۔ بی ایم سی میں اپوزیشن لیڈر شبستا ذکی نے توڑ پھوڑ کو روکنے کی کوشش کی۔ انہیں بتایا گیا کہ الطاف کا گھر غیر قانونی ہونے کی وجہ سے یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔

الزام ہے کہ توڑ پھوڑ کی کارروائی کے دوران الطاف کی والدہ کنیز بی کے ساتھ مبینہ طور پر مار پیٹ  کی گئی  اور انہیں چوٹیں آئیں۔

توڑا گیا مکان الطاف کے چچازاد بھائی  ارشاد بیگ کے خاندان کا تھا۔ دی وائر سے بات چیت میں انہوں نے کہا، جب ہمارا گھر گرایا جا رہا تھا تو ہم اس کے قریب بھی نہیں جا سکے ۔ ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ ہمیں دوپہر 12 بجے پتہ چلا۔ الطاف کی والدہ کو ہاتھ اور دیگر جگہوں پر چوٹیں آئی ہیں، کیوں کہ انہیں گھر سے باہر کھینچا گیا۔ انہیں علاج کے لیے بھرتی کرانا  پڑا اور اب انہیں اسپتال سے چھٹی دے دی گئی ہے۔

الطاف کی ماں کنیز بی اور شبستا ذکی کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت پر مدھیہ پردیش ہیومن رائٹس کمیشن نے بھوپال کے کلکٹر، میونسپل کمشنر اور ایڈیشنل کمشنر آف پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے شبستا ذکی نے کہا، پی ایم آواس یوجنا کے تحت 2017 میں کنیز بی کے کے چچازاد بہن /بھائی کو زمین کا پٹہ دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے گھر بنایا۔ یہ گھر الطاف کے چچا زاد بھائی نے اپنے پیسوں سے بنایا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا،چوں کہ  الطاف نے ایک افسر کو تھپڑ مار دیا، اس  لیے وہ آئے اور اس گھر کو توڑ دیا جہاں ان کی والدہ رہتی تھیں۔ وہ بیوہ ہیں اور بارش کے اس موسم میں خاندان کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا  ہے۔

انہوں نے مزید کہا، جہاں تک دکان کا تعلق ہے، یہ میونسپل کارپوریشن نے ہی  دیا تھا۔ یہ بھی عام  بات ہے کہ انسداد تجاوزات آپریشن کے دوران ہاتھا پائی بھی ہوتی ہے۔ تاہم کسی افسر کو کسی کا گھر توڑنے کا حق نہیں ہے۔ اگر ایف آئی آر پہلے ہی درج ہو چکی تھی تو گھر نہیں گرانا چاہیے تھا۔

ہیومن رائٹس کمیشن کو بھیجی گئی شکایت میں یہ درج ہے کہ بی ایم سی نے حکومت کے اسٹریٹ وینڈر لائیولی ہڈ پروٹیکشن ایکٹ 2017 کی پیروی نہیں کی۔ شکایت کنندگان نے کمیشن سے متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کرنے اور لواحقین کو معاوضہ فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

دی وائر نے بی ایم سی کمشنر کے وی ایس چودھری سے رابطہ کیا، لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

گزشتہ چند مہینوں میں بی جے پی مقتدرہ کئی ریاستوں میں جرائم کے مبینہ ملزمین کے مکانات گرائے گئے ہیں۔ اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ  توڑ پھوڑ اس لیے کی گئی کہ عمارت  غیر قانونی تھی، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ‘بلڈوزر جسٹس’ کے خیال کو ختم کیا جانا چاہیے۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ میں عرضیاں بھی دائر کی گئی ہیں کہ حکومتوں کو من مانے طریقے سے لوگوں کا گھر توڑنے سے روکا جائے۔

(کاشف کاکوی کے ان پٹ کے ساتھ۔ اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)