معروف قلمکار اور کارکن ارندھتی رائے نے نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں کے یہاں چھاپے ماری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر 2024 میں بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو ملک میں جمہوریت کا نام ونشان نہیں رہے گا۔
ارندھتی رائے۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: گزشتہ دنوں نیوز کلک سے وابستہ 50 لوگوں کے یہاں چھاپے ماری کے خلاف صحافیوں نے بدھ کو نئی دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں احتجاج کیا، دریں اثنا معروف قلمکار اور کارکن ارندھتی رائے نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال ایمرجنسی کے مقابلے بہت زیادہ خطرناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی صرف ایک محدود یا مقررہ مدت کے لیے ہی لگائی جا سکتی ہے، لیکن بی جے پی اور نریندری مودی کے جمہوریہ کی نوعیت، آئین اور لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش، اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ بلا روک ٹوک جاری رہ سکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ،’اگر بی جے پی 2024 میں انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو ہندوستان میں جمہوریت کا نام ونشان نہیں رہے گا ۔’
انہوں نے کہا کہ مین اسٹریم میڈیا کو میڈیا نہیں کہا جا سکتا۔ نیوزکلِک کے بانی پربیر پرکایستھ اور ویب پورٹل کے ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کی
گرفتاری کے بارے میں انہوں نے کہا،’ڈیجیٹل میڈیا میں بہت بے باک صحافی ہیں جنہوں نے صحافت کا ایک نیا اسلوب پیش کیا ہے اور حکومت اس سے شدید خطرہ محسوس کر رہی ہے۔’
رائے نے کہا، ‘ابھی صحافت اور دہشت گردی کے درمیان کوئی باؤنڈری (سرحد) نہیں بچی ہے۔’ انہوں نے بغیر کسی وضاحت کے صحافیوں کے آلات ضبط کرنے پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے کے تحت یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں پڑ رہی ہے کہ ان کا گناہ کیا ہے۔
انہوں نے حکومت کی طرف سے متعارف کرائے جارہے نئے آئی ٹی ایکٹ کے خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا اور کہا کہ وہ آئی ٹی ایکٹ لا رہے ہیں، جس میں حکومت فیصلہ کرے گی کہ کیا فیک نیوز ہے اور کیا نہیں ہے۔
رائے نے مزید کہا کہ نیوز کلک سے وابستہ لوگوں کے یہاں چھاپے ماری سے پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت بہت ڈری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اب سے لے کر دسمبر تک (جب پانچ ریاستوں میں انتخابات ہوں گے) اور دسمبر سے مئی تک (جب لوک سبھا انتخابات ہوں گے) بہت سے لوگوں کو گرفتار کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے یہاں چھاپے ماری اور گرفتاریوں کو حکومت کی طرف سے بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ بہت گمبھیر بات ہے کہ آپ صحافیوں کو اس طرح گرفتار کر رہے ہیں، انہیں دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔ اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ کوئی توجہ ہٹانے والی بات نہیں ہے۔
اسی پروگرام میں پہنچے مؤرخ رام چندر گہا نے دی وائر سے کہا کہ مودی کی طرح اندرا گاندھی بھی تاناشاہ (ڈکٹیٹر) تھیں۔ انہوں نے کہا، ‘لیکن مودی کے برعکس وہ اکثریت پرست نہیں تھیں۔ وہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرتی تھیں۔ ہم نے اس قسم کی حکومتیں پہلے بھی دیکھی ہیں اوروہ گزر چکی ہیں۔ یہ بھی گزر جائے گی۔
وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ نیوز کلک اور اس سے وابستہ لوگوں کے یہاں چھاپے ماری کئی معنوں میں غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا،’اگر آپ نے کسی چینی شہری سے فنڈنگ لی ہے تو اسے یو اے پی اے کا کیس نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے تو وزیر اعظم نے پی ایم کیئرز فنڈ میں چینی کمپنیوں سے فنڈنگ لی ہے، اڈانی کی غیر ملکی کمپنیاں تو ایک چینی شخص ہی چلا رہا تھا، اس لیے اس بنیاد پر یو اے پی اے کا کیس نہیں بنایا جا سکتا۔’
انہوں نے کہا،’اتنے سارے آزاد صحافی جنہوں نے نیوز کلک کے ساتھ کوئی پروگرام کیا ہے تو آپ ان کے یہاں چھاپے مار دیں گے، ایف آئی آر یا عدالتی احکامات کے بغیر ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل ضبط کرلیں گے، تو یہ بالکل ہی غیر قانونی ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے آزاد میڈیا کو ڈرانے اور دھمکانے کی بے شرم کوشش ہے اور یہ کامیاب نہیں ہو گی۔’
دریں اثنا، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے راجیہ سبھا ایم پی منوج جھا نے مرکزی حکومت کونشانہ بناتے ہوئے کہا، ‘ایسا کرکے آپ نے ثابت کردیا کہ آپ ڈرے ہوئے ہیں۔ ۔تاناشاہ جب ڈرتا ہے نہ تو ڈر کی کھیتی کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کھیتی میں اب فصل نہیں ہوگی۔