راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ ریزرویشن کی حمایت کی ہے۔ لیکن بھاگوت سمیت سنگھ کے کئی عہدیدار ریزرویشن سسٹم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: ریزرویشن پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کے
بیان کے بعد سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر سے ہلچل مچ گئی ہے۔
اتوار (28 اپریل) کو ایک پروگرام کے دوران
موہن بھاگوت نے ریزرویشن سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل اپنے ایک مبینہ ویڈیو کو فرضی قرار دیا ہے۔ بھاگوت نے کہا کہ اس میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس ریزرویشن کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ویڈیو میں انہیں ایک میٹنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔
آر ایس ایس سربراہ نے مزید کہا کہ جب سے ریزرویشن وجود میں آیا ہے، سنگھ نے آئین کے مطابق ریزرویشن کی مکمل حمایت کی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘سنگھ کا کہنا ہے کہ ریزرویشن اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک وہ لوگ، جنہیں دیا گیا ہے محسوس کریں کہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔’
تاہم، موہن بھاگوت جس ویڈیو کو فرضی کہہ رہے ہیں، اس کی جڑ میں جائے بغیر، کیا ان کا یہ کہنا درست ہے کہ سنگھ پریوار کبھی بھی ریزرویشن کے خلاف نہیں کھڑا ہوا؟ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو بنیادی طور پر ریزرویشن سسٹم کے خلاف ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس کے اس موقف کا اظہار اکثر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور سنگھ کے دیگر عہدیداروں کے بیانات میں بھی ہوتا رہا ہے۔
یہاں آپ آر ایس ایس سے وابستہ مختلف رہنماؤں کے چار بیان ملاحظہ کر سکتے ہیں، جنہوں نے بھاگوت کے دعوے کے برعکس اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر
راہل نام کے ایک صارف نے سب سے پہلے ان مثالوں کی نشاندہی کی۔
ریزرویشن ختم ہونا چاہیے: منموہن ویدھ، 2017
جنوری 2017 میں اس وقت کے آر ایس ایس کے جوائنٹ جنرل سکریٹری منموہن ویدھ نے کہا تھا کہ ریزرویشن ایک ‘مختلف تناظر’ میں متعارف کرایا گیا تھا اور اس کی ایک ‘ڈیڈ لائن’ ہونی چاہیے۔ انہوں نے
جئے پور لٹریچر فیسٹیول میں کہا تھا کہ ریزرویشن کا نظام درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے ایک مختلف تناظر میں لاگو کیا گیا تھا، کیونکہ ماضی میں اس سماج کا استحصال کیا گیا تھا۔ لیکن اب اسے مذہبی ریزرویشن کی طرف بڑھایا جا رہا ہے۔ اگر ریزرویشن زیادہ دیر تک جاری رہا تو علیحدگی پسندی ہی جنم لے گی۔
انہوں نے کہا تھا، ‘تاریخی ناانصافی کو دور کرنے کے لیے آئین میں ریزرویشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔ امبیڈکر نے بھی کہا تھا کہ اس کا لگاتار جاری رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ڈیڈ لائن ہونی چاہیے، اس کے ہمیشہ جاری رہنے سے امتیازی سلوک کو بڑھاوا ملے گا۔’
آئین کو ریزرویشن تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے: کے این گوونداچاریہ، 2016
سال 2016 میں
دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں آر ایس ایس مفکر کے این گوونداچاریہ نے آئین کے لیے ایک نیا فریم ورک بنانے کی اپنی خواہش کے بارے میں بات کی تھی۔انہوں نے خصوصی طور پر کہا تھا کہ ریزرویشن کسی حد تک مدد کر سکتا ہے اور ‘جذباتی طور پر’ اہم ہو سکتا ہے، لیکن ‘ہمیں اس بات پر بات کرنی چاہیے کہ لوگوں کی مدد کے لیے مزید کیا کیا جا سکتا ہے۔’
نئے آئین کی ضرورت کے پیچھے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا آئین بہت مبہم، غیر مخصوص ہے اور بنیادی طور پر ہابز، لاک اور کانٹ کے مغربی فلسفے کا تسلسل ہے۔ یہ فرد مرکوز ہے… جبکہ ہماری تہذیب 4000-5000 سال پرانی ہے۔
اب ریزرویشن کی ضرورت نہیں: ایم جی ویدھ، 2015
سال 2015 میں
دی ہندو سے بات کرتے ہوئے آر ایس ایس مفکر ایم جی ویدھ نے کہا تھا کہ ریزرویشن کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اب ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ کوئی بھی ذات پسماندہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ، ایس سی اور ایس ٹی کے لیے اسے (ریزرویشن) جاری رکھیں، وہ بھی صرف 10 سال کے لیے۔ اس کے بعد اسے (ذات پر مبنی ریزرویشن) مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ذات کی بنیاد پر ریزرویشن نے ذات پات کی تقسیم کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید فروغ دیا ہے۔
ریزرویشن پالیسی پر نظرثانی کی جانی چاہیے: موہن بھاگوت، 2015
سال 2015 میں خود موہن بھاگوت نے دعویٰ کیا تھا کہ ریزرویشن پالیسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے اس پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔
سنگھ کے ترجمان ‘پنچجنیہ’ اور ‘آرگنائزر’ کو دیے ایک
انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ریزرویشن کی ضرورت اور اس کی ڈیڈ لائن پر ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے۔ اس میں سماج کے کچھ نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے، جو یہ طے کریں گے کہ کتنے لوگوں کو ریزرویشن دینے کی ضرورت ہے اور کتنے دنوں کے لیے۔
غور طلب ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات سے قبل موہن بھاگوت کے اس بیان نے سیاست میں ہلچل مچا دی تھی۔ اس وقت اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی اور سنگھ پر ریزرویشن ختم کرنے کی تیاری کا الزام لگایا تھا۔ اس وقت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے موہن بھاگوت کے بیان پر وضاحت پیش کی تھی۔ لیکن بی جے پی کو انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑا اور جے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس کے اتحاد کو بڑی جیت ملی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس شکست کے چند گھنٹے بعد ہی کم از کم تین بی جے پی ایم پی، جن میں سے دو بہار سے تھے، نے ہار کے لیے ریزرویشن پالیسی پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ‘بے وقت’ کےتبصروں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
تب مدھوبنی کے ایم پی حکم دیو نارائن یادو اور بکسر کے ایم پی اشونی کمار چوبے نے کہا تھا کہ اس بیان کے بعد لوگ ‘بی جے پی کو آر ایس ایس کا غلام’ سمجھنے لگے تھے۔
اس کے بعد کانگڑا کے ایم پی اور ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شانتا کمار نے بھی پارٹی قیادت پر طنز کیا تھا اور کہا تھا کہ پارٹی نے دہلی میں شکست کے بعد ‘ایماندار’ اور سنجیدگی سے غوروخوض نہ کرکے غلطی کی ہے۔ انہوں نے بھی شکست کے لیے بھاگوت کے تبصروں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ موہن بھاگوت نے 2019 میں ریزرویشن کے تعلق سے اپنے موقف کا براہ راست اظہار نہیں کیا، لیکن کہا تھا کہ ریزرویشن کے بارے میں خوشگوار ماحول میں بات چیت ہونی چاہیے۔
غور طلب ہے کہ موہن بھاگوت نے ریزرویشن کو لے کر اب تک جو بھی بیان دیے ہیں، ان پر ہمیشہ ہنگامہ ہوتا رہا ہے۔ اس بار بھی کانگریس نے ریزرویشن کو لے کر بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے جس کے بعد موہن بھاگوت نے وائرل ہو رہے ایک مبینہ ویڈیو کو فرضی قرار دیا ہے۔