آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے جس ٹوئٹ کو ‘مذہبی جذبات کو بھڑکانے والا بتانے کا دعویٰ کرتے ہوئےان کوگرفتار کیاگیا ہے، وہ معروف ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی کامیڈی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا ایک سین ہے، جس میں ‘ہنی مون ہوٹل’ کے حرفوں میں پھیر بدل کرتے ہوئے ‘ہنومان ہوٹل’ لکھا گیا تھا’۔
زبیر کا2018 میں کیا گیا ٹوئٹ اور فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا پوسٹر۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر/وی کی پیڈیا)
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو دہلی پولیس نے جس توہین آمیز ‘ہنی مون ٹو ہنومان ہوٹل’ کے سائن بورڈ کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر گرفتار کیا ہے، وہ 1983 کی ایک ہندی کامیڈی فلم کا سین ہے، جس کی ہدایت کاری معروف ہدایت کار رشی کیش مکھرجی نے کی تھی۔
زبیر کو سوموار کو تعزیرات ہند کی دفعہ 153 (فساد بھڑکانے کے ارادے سے اکسانا) اور 295 (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کیا گیا کام) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
اے این آئی کے مطابق، پولیس کے ذریعے ان کی گرفتاری کی وجہ 2018 کا ایک ٹوئٹ ہے جس میں زبیر نے ایک
ہوٹل کے سائن بورڈ کی تصویر شیئر کی تھی۔
زبیر کا ٹوئٹ 24 مارچ 2018 کا ہے اور چار سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔
پولیس نے سوموار کو یہ بھی کہا کہ تفتیش کے دوران زبیر کا طرز عمل’مشتبہ’ پایا گیا، جس کی وجہ سے ‘اس کیس میں سازش کا پردہ فاش کرنے کے لیے’ حراست میں پوچھ گچھ کی ضرورت تھی۔
جس ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعےاس حوالے سےپولیس شکایت کی گئی وہ اکتوبر 2021 میں بنایا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس سے صرف ایک بار ٹوئٹ کیا گیا ہے۔ یہ ٹوئٹ 19 جون کو زبیر کو نشانہ بناتے ہوئے کیا گیا۔
ٹوئٹ میں ہوٹل کے سائن بورڈ کی تصویر، جس نے دہلی پولیس کو زبیرکی گرفتاری کے لیے آمادہ کیا، کا استعمال
2018 میں انڈین ایکسپریس کے ایک مضمون کی مرکزی تصویر بنانے کے لیے بھی کیا گیا تھا، اور مذہبی طور پر مشتعل لوگوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔
درحقیقت، جیسا کہ ٹوئٹر صارف @SquareGas نے بتایا، یہ تصویر 1983 کی ہندی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کے ایک سین کا اسکرین شاٹ ہے جس کی ہدایت کاری رشی کیش مکھرجی نے کی تھی، جسے اس وقت کے سینسر بورڈ نے ضابطے کے مطابق منظوری دی تھی اور تب سے ٹیلی ویژن پراسےمتعدد بار دکھایا جا چکا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے زبیر انہیں’ہندو فوبک’کے طور پر پیش کرنے والی ایک منظم مہم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب انہوں نے سوشل میڈیا پر بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ بیان والا ویڈیو پوسٹ کیا۔
اس کے بعد نوپور شرما نے الزام لگایا کہ انہیں جسمانی نقصان اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے لیے زبیر کی رپورٹنگ ذمہ دار ہے۔ اس کے بعد ہیش ٹیگ محمد زبیر قومی سطح پر ٹرینڈ کرنے لگا اور اتر پردیش میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ ایف آئی آر ان کی جانب سے ہندوتوا لیڈروں کو ‘
نفرت پھیلانے والا‘ کہنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
تاہم، اب ان کے پرانے طنزیہ ٹوئٹ بھی بغیر کسی سیاق و سباق کے گردش کر رہے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ زبیراس طرح کے ٹوئٹ کے لیے معروف ہیں، جس میں ہندو مذہب کی توہین ہوتی ہے۔
جس ٹوئٹ کے لیے زبیر کوابھی گرفتار کیا گیا ہے، وہ ان کی طنزیہ سیریز کا ایک حصہ ہے،جس میں ہر ایک کا ایک خصوصی حوالہ ہے۔
ستمبر 2018 میں، زبیر نے بی جے پی کے جھنڈے کے بغل ایک چھت پر بیٹھے بندروں کے ایک جوڑے کی تصویر پوسٹ کی، جس میں ایک بندر کی دم اس بینرکے اس حصے کو ڈھک رہی تھی جس پر نریندر مودی کا چہرہ تھا، پوسٹ کا کیپشن تھا ‘بجرنگ بلی کی آرتی کرنا شروع کرو’،’ہنومان چالیسہ’ کا پاٹھ کرو، بندر کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔
اس ٹوئٹ کو اب ہندو بھگوان ہنومان اور بی جے پی کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ اس میں اس وقت یوگی آدتیہ ناتھ کے ایک بیان کو طنز کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یوپی کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ ،میں یہاں آیا تھا تو مجھ سےکہا گیا کہ یہاں پربندر بہت پریشان کرتے ہیں۔ میں نے کہا، ‘ بجرنگ بلی کی آرتی کرناشروع کرو، ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرو، بندرکبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔
زبیر کے ٹوئٹ میں بھی وہی بات تھی اور انہوں نے مزاحیہ لہجے میں یہ تبصرہ کیا تھا۔
اسی طرح 2018 میں زبیر نے ایک ترمیم شدہ تصویر پوسٹ کی،جس کا کیپشن تھا ‘سنجے دھرتراشٹر کو مہابھارت کے کروکشیتر جنگ کی فیس بک لائیو ویڈیو دکھاتے ہوئے: بپلب دیب’
اس طنز کا مقصد براہ راست تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب دیب کو نشانہ بنانا تھا، جنہوں نے اسی دن یہ بیان دیا تھا کہ
مہابھارت کے وقت بھی انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ٹکنالوجی موجود تھی۔ اس وقت بہت سے لوگوں نے اس پر میم بنائے تھے، جنہیں یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اپریل 2018 میں، سمبت پاترا نے ایک ٹوئٹ کیا۔ جس میں اس نے لکھا تھا، ریپ قانون سے بچنے کے دو آسان طریقے: 1) نابالغ بن جاؤ، 2) مذہب تبدیل کرلو، میرا مطلب ہے سیکولر بن جاؤ’.. محفوظ ریپ کرنے کی گائیڈ بک۔’
اس ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے زبیر نے لکھا تھا، رام راجیہ میں ریپ قانون سے بچنے کا آسان طریقہ اس کا بھگوان رام سے موازنہ کرنا ہے۔ جیسا کہ اناؤ کے بی جے پی ایم ایل اے نے کہا، میرے او پر تو الزام لگا ہے، الزام تو بھگوان رام پر بھی لگا تھا۔
ہندوتوا کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ٹوئٹ بھگوان رام کی توہین ہے، جبکہ زبیر نے صرف بی جے پی ایم ایل اے کا حوالہ دیا تھا جو گینگ ریپ کیس میں ملزم ٹھہرائے گئے تھے۔ (2019 میں، ایم ایل اے کو اس معاملے میں قصوروار ٹھہرایا گیا ۔)
چار سال پرانے اس ٹوئٹ پر کارروائی کرنے کے لیے، ہندوتوادیوں کے اکاؤنٹ سے اس مہینے کے شروع میں دہلی پولیس کو ٹیگ کیا گیا تھا۔
زبیر کے اور بھی ٹوئٹ ہیں جن میں انہوں نے اس وقت کے واقعات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے، جن کا مقصد ہندو مذہب کی توہین کرنا نہیں تھا، لیکن اب برسوں بعد ہندوتواوادی سیاق و سباق کے بغیر ان پوسٹوں کوہندو مذہن کی توہین کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)