فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں دو اور سیتا پور، لکھیم پور کھیری، غازی آباد اور مظفر نگر ضلع میں ایک ایک کیس درج کیا گیا ہے۔ اتر پردیش پولیس نے ان معاملات کی تحقیقات کے لیے 12 جولائی کو ایک ایس آئی ٹی بھی تشکیل دی ہے۔
محمد زبیر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)
نئی دہلی: فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں درخواست کی ہے کہ ان کے خلاف اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں درج چھ ایف آئی آر کو رد کیا جائے۔
نئی عرضی میں زبیر نے تمام چھ مقدمات میں عبوری ضمانت کی اپیل بھی کی ہے۔ اتر پردیش میں درج کیے گئے ان چھ معاملات میں سے دو ہاتھرس ضلع میں اور ایک ایک سیتا پور، لکھیم پور کھیری، غازی آباد اور مظفر نگر ضلع میں درج ہیں۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، عرضی میں کہا گیا ہے کہ اگر ایف آئی آر رد نہیں کی جا سکتی ہیں تو انہیں دہلی میں درج ایف آئی آر کے ساتھ جوڑ دیا جائے، جہاں زبیر کو پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا۔
اتر پردیش پولیس نے صحافی محمد زبیر کے خلاف درج کئی مقدمات کی شفاف تحقیقات کے لیے 12 جولائی کو ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لاء اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے بتایا تھا کہ ایس آئی ٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ زبیر کے خلاف مقدمات کی تیزی سے جانچ کرے اور عدالت میں چارج شیٹ داخل کرے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (جیل خانہ) ڈاکٹر پریتندر سنگھ ایس آئی ٹی کی سربراہی کریں گے، جبکہ انسپکٹر جنرل امت ورما اس کے رکن ہوں گے۔ جانچ میں مدد کے لیے ایس آئی ٹی میں تین ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس یا انسپکٹر نامزد کیے جائیں گے۔
صحافی زبیر کے خلاف اتر پردیش کے سیتا پور، لکھیم پور کھیری، غازی آباد، مظفر نگر اور ہاتھرس اضلاع میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے معاملے میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ زبیر نے مبینہ طور پر کچھ نیوز چینلوں کے صحافیوں پر طنز کیا تھا۔
اس کے علاوہ ان پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹ ڈالنے کا الزام بھی ہے۔
سیتا پور میں زبیر کے خلاف ہندو شیر سینا کے ضلعی صدر بھگوان شرن کی تحریر پر تعزیرات ہند کی دفعہ 295 (اے) (جان بوجھ کر مذہبی جذبات بھڑکانا) اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایک ٹوئٹ میں محمد زبیر نے کٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ملک کے سرکردہ فیکٹ چیکرس میں سے ایک زبیر، جو فرضی خبروں کوخارج کرنے والی جانکاریاں ٹوئٹ کرنے کے لیےمعروف ہیں، کے خلاف دہلی اور اتر پردیش پولیس نے دو ہفتوں کے اندر کئی مقدمے درج کیے ہیں۔
گزشتہ سال 25 نومبر کو آشیش کٹیار نامی صحافی نے لکھیم پور کھیری میں زبیر کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔ اپنی شکایت میں انہوں نے زبیر پر ٹوئٹ کے ذریعے اپنے چینل (سدرشن ٹی وی) کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
گزشتہ 11 جولائی کو اس معاملے میں لکھیم پور کھیری ضلع کی ایک عدالت نے زبیر کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، لکھیم پور کھیری پولیس نے عدالت کی ہدایت پر 18 ستمبر 2021 کو محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی 16 مئی 2021 کو کیے گئے ایک ٹوئٹ کے لیے ان پر دفعہ 153اے (دو گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت الزام لگایا گیا تھا۔
اس ٹوئٹ میں زبیر نے بتایا تھا کہ انتہا پسند دائیں بازو کے چینل سدرشن ٹی وی نے 2021 میں غزہ پٹی پر اسرائیلی بمباری کی رپورٹنگ کے دوران مشہور مدینہ مسجد کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویر کا استعمال کیا۔
زبیر کے خلاف دیگر اضلاع میں بھی اسی طرح کے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ اس سے پہلے 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سیتا پور میں درج مقدمے میں زبیر کی عبوری ضمانت میں اگلے احکامات تک توسیع کر دی تھی۔
اس کے بعد، بنچ نے صحافی زبیر کی الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کو چیلنج دینے والی عرضی کو حتمی سماعت کے لیےتقریباً دو مہینے بعد سات دسمبر کے لیےلسٹ کیا اور اتر پردیش حکومت سے کہا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر جواب داخل کرے۔
ہاتھرس کی عدالت نے زبیر کو 27 جولائی تک عدالتی حراسٹ میں بھیجا
دریں اثناء یوپی کے ہاتھرس کی ایک عدالت نے جمعرات کو محمد زبیر کو 27 جولائی تک عدالتی حراست میں بھیج دیا۔ زبیر پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام ہے۔
محمد زبیر کو سخت سیکورٹی کے درمیان جمعرات کی سہ پہر ہاتھرس کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ شیوکماری کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے انہیں 27 جولائی کو پیش کرنے کے احکامات کے ساتھ عدالتی حراست میں بھیج دیا۔
زبیر کو ہاتھرس صدر کوتوالی پولیس اسٹیشن میں درج ایک کیس کے سلسلے میں دہلی پولیس کے ذریعے وارنٹ کے تحت تہاڑ جیل سے ہاتھرس کی عدالت میں لایا گیا تھا۔
بتادیں کہ 14 جون 2022 کو دیپک شرما نامی ایک دائیں بازو کے کارکن نے الزام لگایا کہ انہوں نے چار سال قبل ایک ٹوئٹر پوسٹ میں ہندو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچایا تھا۔
زبیر کے وکیل امنگ راوت کے مطابق چونکہ یہ مقدمہ چار سال پرانا ہے، اس لیے گرفتاری ’بد نیتی‘ پر مبنی ہے اور یہ قدم ’سیاسی دباؤ‘ کے تحت اٹھایا گیا ہے۔
ہاتھرس میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے امنگ راوت نے کہا کہ آج کی سماعت میں انہوں نے عدالت سے اپیل کی کہ تفتیشی افسر کو ‘تکنیکی ماہر’ ہونا چاہیے، کیونکہ یہ معاملہ آئی ٹی سے متعلق ہے۔
سماعت کے دوران پولیس کے اعلیٰ افسران اور ضلع کے دیگر اعلیٰ افسران عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے محمد زبیر کی ضمانت عرضی پر فیصلہ محفوظ رکھا
دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کو 2018 میں ایک ہندو دیوتا کے بارے میں محمد زبیر کی طرف سے کیے گئے ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کے معاملے میں ان کی ضمانت کی عرضی پرفیصلہ جمعہ کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جانگلا نے ملزم کے ساتھ ساتھ استغاثہ کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ایک مجسٹریل عدالت نے 2 جولائی کو اس کیس میں ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور انہیں 14 دن کی عدالتی حراست (جے سی) میں بھیج دیا تھا۔
دہلی میں درج مقدمے میں سب سے پہلے گرفتار کیا گیا تھا
معلوم ہو کہ محمد زبیر کو گزشتہ 27 جون کو آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام) اور 153 (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت دہلی پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کیا تھا۔
گزشتہ 2 جولائی کو دہلی پولیس نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش اورثبوت کوضائع کرنے اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت نئے الزامات شامل کیے ہیں۔ یہ الزامات انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے لیے تحقیقات میں مداخلت کا دروازہ کھولتے ہیں۔
زبیر کی گرفتاری 2018 کے اس ٹوئٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی ، جس میں 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا۔
زبیر کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر میں کہا گیاتھا کہ، ہنومان بھکت نامی ٹوئٹر ہینڈل سے محمد زبیر کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئےایک ٹوئٹ کو شیئر کیا گیا تھا ۔ اس ٹوئٹ میں زبیر نے ایک تصویرپوسٹ کی تھی۔ جس میں سائن بورڈ پر ہوٹل کا نام ‘ہنی مون ہوٹل’ سے بدل کر ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ زبیر نے ‘2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل… 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل…’ لکھا تھا۔
اس سلسلے میں دہلی پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق، ٹوئٹر صارف ہنومان بھٹ نے سال 2018 میں زبیر کی جانب سے شیئر کیے گئے ایک فلم کے اسکرین شاٹ والے ٹوئٹ کے بارے میں لکھا تھا کہ ، ہمارے بھگوان ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ ہندوؤں کی براہ راست توہین ہے کیونکہ وہ (بھگوان ہنومان) برہمچاری ہیں۔ پلیز اس شخص کے خلاف کارروائی کریں۔
بعد میں اس ٹوئٹر ہینڈل کو
ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
اب یہ ہینڈل دوبارہ ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے ،تاہم زبیر سے متعلق ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ 2 جولائی کو ایک ہندو دیوتا کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کرنے کے الزام میں محمد زبیر کوعدالت نے 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔
دریں اثنا،
دی وائر کی ایک تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ نے زبیر کے خلاف شکایت درج کروائی ہے وہ ٹیک فاگ ایپ اور گجرات کے بی جے وائی ایم لیڈر سے منسلک ہے۔
زبیر کی گرفتاری گجرات میں ہندو یووا واہنی کے ریاستی صدر اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ (بی جے وائی ایم) کے کنوینر وکاس اہیر سے جڑے گمنام اور غیرمصدقہ اکاؤنٹ کے ایک نیٹ ورک کی برسوں سے جاری مہم کا نتیجہ ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)