نہ ہی وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر داخلہ کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ایسے طاقتور مظاہرہ کے اٹھ کھڑے ہونے کی امید رہی ہوگی۔اب عالم یہ ہے کہ وزیر اعظم ملک گیر این آر سی کے منصوبہ سے ہی انکار کر رہے ہیں، جبکہ ان کے ہی وزیر داخلہ نے پارلیامنٹ میں اس بابت بیان دیا تھا۔
شہریت ترمیم قانون اوراین آر سی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہرلال نہرو یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس جیسے الگ الگ اداروں کے طالبعلموں کا خود سے اٹھ کھڑا ہوامظاہرہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری سیاست میں کچھ غیرمعمولی ہو رہا ہے۔
یہ نریندر مودی کی پہلے سے اندازہ لگائی گئی سیاست نہیں رہ گئی ہے، جس کی خاصیت اقلیتوں کو آزادی کے بعد سب سے جارحانہ طورپر نشانہ بناکر ہندوتوا کی سیاسی صف بندی کو نئی اونچائی پر لے جانے کی کوشش ہے۔یہ کافی اہم ہے کہ طالبعلموں کے مظاہرہ کے ساتھ-ساتھ سطح کے نیچے چھٹپٹا رہی علاقائی اور ضمنی قومی شناخت کی سیاست ایک بار پھر مضبوطی کے ساتھ ابھر رہی ہے۔
مودی اور امت شاہ کی موجودہ مصیبتوں کی شروعات سی اے اے کولے کر آسام اور شمال مشرق کی نسلی جذبات کو پڑھ پانے کی مکمل ناکامی سے ہوئی ہے۔2019کی انتخابی کامیابی کے گھمنڈ میں مودی اور شاہ دونوں کو ہی یہ لگا کہ انہوں نے آسام میں ہندو-مسلم میں درارپیدا کرکے نسلی دراروں کو کامیابی سے بھر دیا ہے۔
سی اے اے کا مقصد صاف طور پر ضروری کاغذات پیش نہ کر پانے کی وجہ سے این آر سی سے باہر رہ گئے 19 لاکھ لوگوں میں شامل ہندوؤں کو بچانا تھا۔ لیکن شاہ کو آسام اور شمال مشرق نے زبردست جھٹکا دیا جہاں حال کی دہائیوں کا سب سے بڑا مظاہرہ اٹھ کھڑاہوا۔اس علاقے نے نسلی سیاست پر اپنی اکثریت پسند ایجنڈے کو لادنے کی بی جے پی کی کوششوں کو سیدھے سیدھے خارج کر دیا۔
مودی کو بھی ایسا ہی جھٹکا لگا، جنہوں نے جھارکھنڈ انتخابی مہم کے دوران اپنے جلسوں میں خاصا وقت آسام کے لوگوں کو یہ یقین دلانےمیں خرچ کیا کہ وہ ان کی روایتوں، زبان اور ثقافتی پہچان کو خطرے میں ڈالنے والی کسی چیز کی اجازت نہیں دیںگے۔این آر سی اور سی اے اے ان کی انتخابی مہم کا بڑا حصہ تھا۔ ایک طرح سے اس پیغام کا ایک ہدف جھارکھنڈ کے قبائلی کمیونٹی بھی تھے، جہاں سطح کے نیچے ایک ایسی ہی کشیدگی پنپ رہی تھی۔
آدیواسی بی جے پی کے وزیراعلیٰ رگھوبر داس، جن کی امیج امت شاہ اور مودی کے ذریعے عوام پر تھوپ دی گئی ایک باہری آدمی کی تھی، کوکرسی سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کمر کسے ہوئے تھے۔یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ اپنے ہی اسمبلی حلقہ میں داس کی توہین آمیز ہار کچھ حصوں میں جھارکھنڈ کے رائےدہندگان کے ذریعے پھرسے اپنی قبائلی پہچان کے اظہار کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی جھارکھنڈ کے 28 قبائلی سیٹوں میں سے صرف دو سیٹ جیت پائی۔
ایک حد تک، شیوسینا کے ذریعے خود کو مودی-شاہ کی قیادت میں بی جے پی کی ننگا اکثریت پسندی سے دور لےکر جانا اور خود کومراٹھی مانس کے علاقائی جذبہ کے اصلی نمائندہ کے طور پر پیش کرنا علاقائی سیاست کے ایک ابھر رہے وسیع رجحان کے مطابق ہے جو’ایک ملک، ایک تہذیب، ایک رہنما’-جس کی سوغات امت شاہ نریندر مودی کو دینا چاہتے ہیں-کے چوکھٹے کے خلاف خود کو کھڑا کررہی ہے۔
اس لحاظ سے ادھو ٹھاکرے کے ذریعے جامعہ کے طالبعلموں پر پولیس کے حملے کاموازنہ جلیاں والا باغ سے کرنا، دھیان کھینچنے والاہے۔ ادھو نے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے اپنے الفاظ کا انتخاب کافی سوچ سمجھ کر کیا تھا۔کچھ بھی ہو، اس مبالغے کا ایک خاص مقصد تھا اور اس کے ذریعے شیوسینا تنگاکثریت پسند قوم پرستی کے نام پر لوگوں کے خلاف کئے جارہے غیرضروری حملے کے خلاف خبردار کرنا چاہتی تھی۔
2019 کی جیت نے مودی اور آرایس ایس کے ان سربراہوں میں یہ تاثر بڑھاچڑھاکر بھرنے کا کام کیا کہ بی جے پی کی یہ جیت نمایاں طور پر ایک ہندتووادی ایجنڈے کے حق میں ملا مینڈیٹ ہے، جس میں اس کیاکثریت پسند ایجنڈے کو تیزی اور جارحانہ طورپر نافذ کرنے کی مانگ چھپی ہے۔
شاہ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ بی جے پی صرف تین طلاق کو آئینی جرم بنانے، آرٹیکل 370 کو ختم کرنے، سی اے اے-این آر سی اور رام مندرجیسے وعدوں کو پورا کر رہی ہے۔ لیکن نہ ہی وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر داخلہ کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ایسے طاقتور مظاہرہ کے اٹھ کھڑے ہونے کی امید رہی ہوگی۔
اب عالم یہ ہے کہ وزیر اعظم ملک گیر این آر سی کے منصوبہ سے ہی انکار کر رہے ہیں، جبکہ ان کے ہی وزیر داخلہ نے پارلیامنٹ میں اس بابت بیان دیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت ہندوستان اور بیرون ممالک سی اے اے کے خلاف خود اٹھ کھڑے ہوئے مظاہرہ کے دھماکےکے بعد یکساں سول کوڈ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دےگی۔
ملک سے باہر ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں کو ذلیل کرنے پر آمادہ ایک شدت پسند ہندو کے طور پر بن رہی اپنی امیج کو لےکر مودی ضرور فکرمند ہوںگے۔ جس طرح سے مودی نے ملک گیر این آر سی یا حراستی مراکز کی تعمیر کی کسی اسکیم کے ہونے سے انکار کیا، وہ شاید غیر ملکی میڈیا کو پیغام دینے کے لئے ہی تھا۔ملک میں، یقینی طور پر لوگوں کو یہ پتہ ہے کہ وہ سچ نہیں بول رہے ہیں۔ بہر حال بی جے پی کے منشور کی تمام اکثریت پسند وعدوں کو نافذکرنے کی اہمیت اب سب کو، جس میں شاید بی جے پی بھی شامل ہے، سمجھ میں آ رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملک گیر مظاہرہ نے علاقائی جماعتوں میں نے نئی توانائی پیدا کردی ہے، جوآنے والے وقت میں زیادہ سے زیادہ جارحانہ ہوںگے۔ حالانکہ، کانگریس 2019 سے تیز رفتاری سے ہوئی تبدیلیوں سے ابھی بھی سن پڑی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی وہ علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے، جیسا ہم نے مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں دیکھا۔
اس بات کے لئے مطمئن رہا جا سکتا ہے کہ مودی اور شاہ اپنی سیاست کو اتنی جلدی نہیں چھوڑ یںگے اور وہ اکثریت پسند قوم پرستی کومضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہیںگے-کم سے کم ہندی پٹی میں جہاں ضمنی-قومیت یا نسلی تہذیب جیسی چیز اس طرح سے نہیں پائی جاتی ہے، جیسے مشرق، شمال-مشرق اور جنوب میں پائی جاتی ہے۔
ویسے یہ صاف ہے کہ بی جے پی کو ہندوستان کی متنوع تہذیب کوہندی، ہندو، ہندوستان کی ایک چھتری کے نیچے لانے کےلئے جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے۔اس منصوبہ کو آگے بڑھانے کی کوشش بےترتیب طریقے سے کی گئی ہے۔ کبھی کبھی تو بس تھاہ لینے بھرکی سطح پر۔ اس کی ایک مثال این ڈی اے کے ذریعے جنوبی ہندوستان میں ہندی تھوپنے کی کوشش ہے، جس کی وہاں سخت مخالفت ہوئی۔
بنگال اسمبلی انتخاب بی جے پی کے لئے ایک بڑا امتحان ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی وہاں لوک سبھا کے ووٹ-فیصد کو پھر سے دوہرانےاور اس کو سیٹوں میں بدلنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں؟ ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے رجحان اور دہیب انتخابات کے انتخاب سے پہلےسروے سے ایسا لگتا ہے کہ صوبائی سطح پر بی جے پی کا کھیل بگڑ رہا ہے۔
سی اے اے کے خلاف ملک گیرمظاہرہ اور وسیع پیمانے پر بنی اس سمجھ نےکہ آئین کی بنیاد پر حملہ کیا جا رہا ہے، یہ سب ملکر ہندوستانی سیاست کو ایک اہم نکتے پر لے آئے ہیں۔ایک سطح پر ہمیں مودی اور امت شاہ کا شکرگزار ہونا چاہیےکہ اقلیتوں کے خلاف لگاتار چلائی گئی مہم نے ہندوستان کے تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو بیدار کرنے کا کام کیا ہے۔ وہ ہندوستان کے آئین کے تباہ ہو جانے کے اصلی خطروں کو پہچاننے لگے ہیں۔
اس پس منظر میں علاقائی اور ضمنی-قومی شناخت کی بڑھتی رفتار نئی سیاست کے لئے ایک مضبوط زمین تیار کر رہی ہے۔ تمام وسائل اورہندو ووٹ بینک کے باوجود مودی اور شاہ اس کو ہلکے میں نہیں لے سکتے ہیں۔تباہی کے قریب کھڑی معیشت اور بےروزگار نوجوانوں کی بڑھتی ناامیدی مرکز سے باہر کی طرف جانے والی سیاست کے لئے ایندھن کا کام کرےگی۔