شہریوں کو فرض شناسی کی ترغیب دینا آمرانہ طرزحکومت کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس کو پہلی بار اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران متعارف کرایا تھا۔ اس کے بعد سے عام شہریوں کے حقوق کو پامال کرنے والی حکومتوں نے اکثر اپنے فرائض کی تکمیل کے بجائے شہریوں کے فرائض اور اس کی اہمیت پر ہی زور دیا ہے۔
راشٹرپتی بھون کو انڈیا گیٹ سے جوڑنے والا نئی دہلی کا راج پاتھ جگہوں کے نام تبدیل کرنے کے بی جے پی کے مشغلہ کا تازہ ترین ہدف بنا ہے، اب اس کو ‘کرتویہ پتھ’ کے نام سے جانا جائےگا۔
کسی ایسی سڑک کا نام بدلنا، جو نیک نیتی سے نہ بنی ہو،صرف کاغذوں پر ہونے والی تبدیلی محض نہیں ہے۔ یہ سڑک نریندر مودی کے دیرینہ منصوبے ‘سینٹرل وسٹا پروجیکٹ’ کا ایک حصہ ہے اور اس سے متعلق اپنے ایجنڈے کے بارے میں وہی واضح طور پر بتا سکیں گے۔
دریں اثنا، زیادہ تر بی جے پی ممبران سے بھری غیر منتخب نئی دہلی میونسپل نے 7 ستمبر کو ایک خصوصی اجلاس میں نام تبدیل کرنے کی اس تجویز پر مہر ثبت کی۔
برطانوی دور حکومت میں کنگز وے کے نام سےمعروف اس سڑک کو آزادی کے بعد راج پتھ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کو بیچ سے تقسیم کرنے والے جن پتھ،جو پہلے کوئنز وے کے نام سے جانا جاتا تھا، کے ساتھ مل کر یہ دونوں راستے نئی جمہوریہ کے اس سماجی معاہدے کی نمائندگی کرتےتھے، جس کی خودمختاری اس کے شہریوں کے ہاتھوں میں تھی۔
ان خودمختار شہریوں نے سینٹرل وسٹا کو ان بندشوں سے آزاد کیا، جو پچھلے نظام نے اس پر عائد کی تھیں۔ اس کے وسیع لان اب ان کے تھے ، جہاں وہ دن ہو یا رات، پکنک، کھیلنے، گھومنے غرض کہ سیر و تفریح اور آئس کریم کھانے کے لیے آیا کرتے تھے۔
وہ کسی سرکاری حکم یا حد کے پابند نہیں تھے، بس خوشگوار موسم اور یہاں آنے کی کوئی سواری فراہم ہو جائے، بس اتناکافی تھا۔ تاہم، اب یہ سب ختم ہورہا ہے۔ کرتویہ پتھ پر آزاد شہریوں کے لیے بہت کم جگہ ہے۔
گزشتہ ماہ یوم آزادی کے خطاب میں وزیر اعظم مودی نے حکومت کی جانب سے اس سماجی معاہدے کو نبھانے کے مطالبات کو ایک طرف رکھ دیا اور اس کے بجائے لوگوں سے ان کے فرائض کی تکمیل پر اصرار کیا۔
شہریوں کو فرض شناسی کی ترغیب دینا آمرانہ طرز حکومت کا محبوب مشغلہ حصہ ہے اور اس کو پہلی بار ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی نے ہندوستانی آئین میں شامل کیا تھا۔ اس وقت سے جن حکومتوں کو عوام کے حقوق کو پامال کرنے کے باعث تنقید کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے اکثر شہریوں کے فرائض کی اہمیت پر ہی زور دیاہے۔
راج پتھ کا نام بدل کر ‘کرتویہ پتھ’ کرنا حقوق پر فرائض کو ترجیح دینے کی سرکاری کوشش کی ہی علامت ہے۔ اس ‘ نام کرن’ کے ساتھ ہی ایک طرح کا ‘شدھی کرن’ بھی آئے گا، جس میں آئس کریم فروشوں کو وہاں ٹھیلہ گاڑی لانے سے روک دیا جائے گا، لان میں پکنک پر پابندی ہوگی۔
اس نام کی تبدیلی کا ایک خطرناک پہلو بھی ہے۔ ایک جمہوری نظام میں حقوق کو اقتدارکے خلاف وہ دعویٰ سمجھا جاتا ہے، جو آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ شہری ان سے محروم نہ ہوں۔
اس طرح ‘راج پتھ’ نام کو اس حقیقت کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اس سڑک کے آس پاس واقع اس کے اداروں کا جواز صرف اس حد تک تھا کہ وہ عام لوگوں کے حقوق کو برقرار رکھتے تھے۔ دوسری طرف ‘کرتویہ’ پر زور دینے کا نیا شگوفہ اقتداریا حکمرانی کا بوجھ عام شہریوں پر ڈالنا ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل کا الزام بھی انہی کےسر آتا ہے اور حکومت کی ذمہ داری سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
نام بدلنے سے لے کر شکل و صورت بدلنے تک
بلاشبہ، پہلے نام کی تبدیلی کا مشق کا ایک سیاسی ایجنڈا بھی تھا۔ 2015 میں اورنگ زیب روڈ اے پی جے عبدالکلام روڈ بن گیا۔ ہندوتوا کے شدت پسندوں کی نگاہ اب اکبر روڈ اور ہمایوں روڈ پر ہے۔ ریس کورس روڈ،جہاں وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ واقع ہے، وہ لوک کلیان مارگ بن گیا، حالانکہ بہت سے لوگوں نے اس کے جواز پر سوال بھی اٹھایا تھا۔
تین مورتی بھون – جہاں نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری واقع ہیں – کو ملکی وراثت کےقوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بدصورت خلائی جہاز کی شکل دے کر’پردھان منتری سنگرہالیہ’ بنا دیاگیا ہے۔ اس سے قبل پرگتی میدان میں بھی اسی طرح کی تخریب کاری دیکھنے میں آئی تھی، جب مودی حکومت نے وہاں تاریخی ہال آف نیشنز پویلین اور دیگر ڈھانچے کو گرا کر ایک بڑی عمارت تعمیر کی تھی، جو شپنگ کنٹینرز کے ایک بڑے سے ڈھیر کی طرح نظر آتی ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی نے تاریخی شہر الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا ہے، اور اس طرح کی مزید تبدیلیاں ان تمام ریاستوں میں کی جانی ہیں جہاں پارٹی اقتدار میں ہے، خاص طور پر یوپی، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں۔وہاں نام کی تبدیلی کا ایک اور پیمانہ طے شدہ ہے،جس میں بی جے پی لیڈروں نے نریندر مودی کی طرف سے 2014 میں دیے گئے ‘1200 سال کی غلامی’ کے حوالہ کو مغل دور یا دیگر مسلم ناموں کو ‘نوآبادیات کی علامتوں’ کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
‘حکمرانوں کے دور کا خاتمہ’
نامعلوم عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ راج پاتھ کا نام بدل کر ‘کرتویہ پتھ’ رکھنا ‘حکمران طبقے کے لیے یہ پیغام ہے کہ حکمرانوں کا دوراب ختم ہوچکا ہے۔’ ان کا یہ دعویٰ لوگوں کے کھان پان، اظہار رائے کی آزادی، قوانین وغیرہ پر حکومت کے بڑھتے ہوئے کنٹرول کے سامنے ٹکتا نظر نہیں آتا۔ عام لوگوں کی بات الگ ہے، لیکن نریندر مودی نے توبی جے پی کی تنظیم کو بھی ‘حکمرانوں کے راج’ میں بدل دیا ہے، وہیں ان کی ناک کے نیچے ‘حکمرانوں’ کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر شہری ڈیزائن کے معاملے کی بھی بات کریں تو ہندوستان اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہاں حکومتی وزراء اور اعلیٰ عہدیداروں کو سرکاری خرچ پر قومی دارالحکومت کے مرکز میں بڑے بڑے بنگلے دیے جاتے ہیں۔ درحقیقت، رائے سینا ہل پر وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کی منصوبہ بندی کر کے مودی نے اصل میں ‘اپنی ‘رعایا’ پر طاقت کے اسی خیال کو تقویت دی ہے جیسا کہ نوآبادیاتی راج میں اسی شہر میں ہوا تھا۔
سال 2018 میں آئی اپنی کتاب نیگوشیئٹنگ کلچرس: ڈیلہیس آرکٹیکچر اینڈ پلاننگ فارم 1912 ٹو 1962 میں پلار ماریہ نے درج کیا ہے کہ کس طرح دہلی کی طاقت کا مرکزرائے سینا ہل ہے:
رہائش گاہ کے نظام میں اقتدار کے طے شدہ اور روایتی اصولوں کی پیروی کی گئی: زیادہ با وقار اور اعلیٰ عہدے والے یورپی باشندے رائے سینا ہل کے سب سے نزدیک تھے، اور جیسے جیسے رہائشیوں کی سماجی حیثیت میں تبدیلی آتی ، ویسے ہی ان کی قربت (رائے سینا ہل) سے بھی ہوتی۔ایسے ہندوستانی، جو حکومتی نظام کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے وہ رائے سینا ہل اور بعض اوقات نئی دہلی سے بھی دور کی بستیوں میں آباد تھے۔
رہائش کا یہ استحقاق ‘حکمراں’ کو ‘رعایا’ سے الگ کرتا ہے اور دارالحکومت کی عدم مساوات کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ سڑکوں کے نام ۔ ذیل کی تصویرمیں اس شہر کے نوآبادیاتی منصوبہ سازوں کے ذریعے نئی دہلی میں بنگلوں کی تقسیم کا 1920 کا منصوبہ دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھلے ہی سڑکوں کے نام اور مکینوں کی جلد کا رنگ بدل چکا ہے، بنگلے اور ان میں رہنے والوں کا طبقہ جوں کا توں قائم ہے۔
مودی کی جانب سے استعمار کی ان بدصورت علامتوں سے دور ہٹنے ،یا اپنے وزراء کو (دوسری جمہوریتوں کی طرح) اپنی رہائش تلاش کرنے کے بارے میں کہنے اور ان عمارتوں کا ‘رعایا’ کے ذریعے بہتر استعمال کرنے کے بارے میں کہنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں پید ا ہوتا۔ عوام کے لیے مودی کے پاس صرف ‘کرتویہ’ ہیں۔ باقی شہری اتھارٹی اور اس کے عہدیداروں کے لیے ہے، جو یہ فیصلہ کریں گے کہ کب، کہاں اور کتنے شہری — جن کا فرض اقتدار کی اطاعت کرنا ہے — جمع ہو سکتے ہیں۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)