ٹوئٹر کے شریک بانی اور سابق مالک جیک ڈورسی نے کہا ہے کہ اس سوشل پلیٹ فارم کو ہندوستانی حکومت کی جانب سے کسانوں کی تحریک کو کور کرنے اور حکومت پر تنقید کرنے والے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کے لیے ‘متعدد درخواستیں’ موصول ہوئی تھیں۔
جیک ڈورسی اور ٹوئٹر کا لوگو۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: ٹوئٹر کےشریک بانی اور سابق مالک جیک ڈورسی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس پلیٹ فارم کو ہندوستانی حکومت کی جانب سے
کسانوں کی تحریک کو کور کرنے اور حکومت پر تنقید کرنے والے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کے لیے ‘متعدد درخواستیں’ موصول ہوئی تھیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹوئٹر کو ‘بند’ کرنے اور ملک میں اس کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
تاہم، الکٹرانکس اور آئی ٹی کے وزیر مملکت راجیو چندر شیکھر نے ڈورسی کے دعووں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے دور میں ٹوئٹر’ہندوستان کے قوانین کی بار بار اور مسلسل خلاف ورزی’ اور بعض اوقات ‘غلط جانکاری پھیلاتاتھا۔’
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ،یہ بات قابل غور ہے کہ
ٹوئٹر کے نئے سی ای او ایلن مسک کا بھی ہندوستان کے سوشل میڈیا قوانین کے بارے میں یہی نظریہ ہے، جنہوں نے انہیں ‘سخت’ کہا تھا۔ اس سال اپریل میں مسک نے کہا تھا کہ وہ ٹوئٹر ملازمین کو جیل بھیجنے کا خطرہ مول لینے کے بجائے حکومت کے بلاک کرنے کے احکامات پر عمل کریں گے۔
مسک ممکنہ طور پر انڈیا کے انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) رول، 2021 کا حوالہ دے رہے تھے، جس کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کے ایک سینئر نمائندے کو – جسے چیف کمپلائنس آفیسر کہا جاتا ہے – کو ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے پر ممکنہ طور پر جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
سوموار کی رات دیر گئے یوٹیوب چینل
بریکنگ پوائنٹس کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران جب ان سے ٹوئٹر کے سی ای او کے طور پر غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے موصول ہونے والے دباؤ کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈورسی نے کہا، ‘ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جس نے کسانوں کی تحریک کے دوران، خاص طور پرحکومت کی تنقید کرنے والے صحافیوں کے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کے لیےہم سے کئی درخواستیں کی تھیں اوریہ ظاہر کیا گیا تھا، جیسے–’ہم ہندوستان میں ٹوئٹر کو بند کر دیں گے’، جو کہ ہمارے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے؛یہ بھی کہا گیا کہ ‘ہم آپ کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے ماریں گے’، جو انہوں نے کیابھی؛ یہ بھی کہا گیا کہ ‘اگر آپ قواعد پر عمل نہیں کریں گے تو ہم آپ کے دفاتر بند کر دیں گے’ اور آپ دیکھیں گے کہ یہی ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔’
رپورٹ کے مطابق، 2021 میں، جب ملک میں کسانوں کی تحریک اپنے عروج پر تھی، مرکز نے ٹوئٹر سے مبینہ طور پر خالصتان لنک کے لیےتقریباً 1200 اکاؤنٹ کو ٹوئٹر سے ہٹانے کے لیے کہا تھا۔ اس سے قبل اس نے ٹوئٹر سے 250 سے زائد اکاؤنٹ کو بند کرنے کوکہا تھا۔
ٹوئٹر نے کچھ اکاؤنٹ کو بلاک کرکے جواب دیا تھا، لیکن بعد میں انہیں ان بلاک کر دیا، جس سےآئی ٹی کی وزارت ناراض ہوگئی تھی۔ بعد ازاں اپنے جواب میں ٹوئٹر نے اپنے پلیٹ فارم پر اظہار رائے کی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے ان اکاؤنٹ کو بلاک کرنے سے انکار کردیا تھا۔
تاہم، اس کا جواب حکومت کو اچھا نہیں لگا تھا، جس نے کہا تھا کہ ٹوئٹر ‘قواعد کی عدم تعمیل کا جواز پیش نہیں کر سکتا’۔
مئی 2021 میں وزیر اعظم اور مرکزی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے کانگریس کی سازش کا الزام لگاتے ہوئے حکمراں پارٹی کے رہنماؤں کی کچھ پوسٹ کو ٹوئٹر کے ‘
مینیپولیٹیڈ میڈیا‘ بتانے کے کچھ دن بعد دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کی ایک ٹیم (جو مرکز کی وزارت داخلہ کے تحت کام کررہی تھی۔ ) ٹوئٹر انڈیا کے دہلی اور گڑگاؤں کے دفاتر پر ن
وٹس دینے کے لیے پہنچ گئی تھی۔
ڈورسی کے دعووں کا جواب دیتے ہوئے راجیو چندر شیکھر نے کہا کہ ٹوئٹر سے کوئی بھی جیل نہیں گیا اور نہ ہی اس پلیٹ فارم کو’بند’ کیا گیا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ‘2020 سے 2022 تک قانون کی تعمیل کرنے میں بار بار ناکام رہے اور آخر کار جون 2022 میں انہوں نے
قوانین پر عمل کرنا شروع کیا۔
چندر شیکھر نے کہا، ڈورسی کے دور میں ٹوئٹر کوہندوستانی قانون کو قبول کرنے میں دشواری تھی۔ اس نے ایسا برتاؤ کیا جیسے ہندوستان کے قوانین اس پر لاگو نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا، ‘ ایک خودمختار ملک کے طور پر ہندوستان کو اس بات کو یقینی بنانے کا حق ہے کہ ہندوستان میں کام کرنے والی تمام کمپنیاں اس کے قوانین پر عمل کریں۔’
انہوں نے کہا کہ مرکز 2021 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران اکاؤنٹ کے بارے میں حکم جاری کرنے پر ‘مجبور’ تھا، کیونکہ ‘بہت ساری غلط معلومات اور قتل عام کی رپورٹ تھیں، جو یقیناً فرضی تھیں’۔
انہوں نے کہا، ڈورسی کے دور میں ٹوئٹر پر جانبدارانہ سلوک کرنے کی سطح ایسی تھی کہ انہیں ہندوستان میں اپنے پلیٹ فارم سے غلط معلومات کو ہٹانے میں دشواری ہوئی، یہ تب تھا جب انہوں نے امریکہ میں اسی طرح کے واقعات کے حوالے سے خود ایسا کیا تھا۔
آن لائن سینسر شپ کا بڑھتا ہوا رجحان
رپورٹ کے مطابق،2014 سے 2020 کے درمیان ہندوستان کی جانب سے – مختلف عدالتوں اور حکومت سے – ٹوئٹر سے مواد ہٹانے کے قانونی مطالبات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اتفاق سے، حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا کمپنیوں کو جاری کردہ مواد کو روکنے کے احکامات کی تعداد میں بھی اسی مدت کے دوران
تقریباً 2000 فیصد اضافہ ہوا ہے، جیسا کہ پارلیامنٹ کے ساتھ شیئر کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے، جو ہندوستان میں آن لائن سینسرشپ کے بڑھتے رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔
سال2021 کے پہلے چھ مہینوں میں ٹوئٹر کو مختلف ہندوستانی عدالتوں اور حکومت نے 4900 سے زیادہ ٹوئٹ کو بلاک کرنے کو کہا تھا۔
یہ اعداد و شماراس وقت کسانوں کے جاری احتجاج پر ‘اشتعال انگیز’ ٹوئٹ شیئر کرنے کے سلسلے میں
250 سے زیادہ اکاؤنٹ کو بلاک کرنے اور کمپنی کو حکومت کے کووڈ سے نمٹنے کے سرکاری طریقے کی تنقیدکرنے والے ٹوئٹ کو ہٹانے کے
حکم سے میل کھاتا ہے۔
جولائی 2022 میں ٹوئٹر نے اپنے پلیٹ فارم پر پوسٹ کیے گئے کچھ مواد کو ہٹانے کا حکم دینے والے کچھ سرکاری پیغامات کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی۔ حکام کی طرف سے طاقت کے غیر متناسب استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کمپنی نےآئی ٹی ایکٹ 2000 کی دفعہ69(اے) کے تحت جاری کردہ وزارت کے مواد کو روکنے کے احکامات کے خلاف
کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔