فلم میں منٹو کی کہانیوں کے کردار بھی پیش ہوۓ ہیں-یہ بھی اپنا اثر چھوڑنے میں ناکام ہیں- انہیں دیکھتے ہوۓ کئی بار ایسا لگا کہ ہم فلم کی بجائے اسٹیج پلے دیکھ رہے ہیں۔
نندتا داس کی “منٹو” دیکھ کرمیں تھیٹر سے تشنہ لب نکلا-یہ فلم دیکھ کر مجھے تھوڑی مایوسی ہوئی-ایک عرصہ بعد میں ایک ایسی فلم دیکھنے گیا تھا جس کے ریلیز ہونے کا مجھے انتظار تھا- میری زبان کے ایک ادیب پر بالی ووڈ میں فلم بنے جس کا اسکرپٹ ایک معروف اور سنجیدہ اداکارہ نے لکھا ہو اور ڈائریکٹ بھی کیا ہو،اور آج کا ایک سپراسٹار مرکزی کردار نبھا رہا ہو تو اس فلم میں دلچسپی نہ لینا میرے نزدیک کفر سے کم نہیں-منٹو صرف میری زبان کے ادیب نہیں بلکہ بر صغیر کی تمام زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کے نمائندہ افسانہ نگار تھے-
بھلا ہو ترجمہ نگاروں کا خاص کر ہندی اور انگریزی زبانوں کے لکھنے والوں کا کہ آج منٹو اپنے تعارف کے لئے کسی فلم کے محتاج نہیں-اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کہ فلم ایک پاورفل میڈیم ہے جس کے ذریعہ دیا گیا پیغام عوام الناس تک پہنچتا ہے-نندتا داس کی کوشش اس لحاظ سے آدھی کامیاب ہو سکی ہے-پوری اس لئے نہیں کہ فلم اتنی سست ہے کہ انٹرول تک پہنچتے پہنچتے ناظر بور ہو چکا ہوتا ہے-شاید یہی وجہ ہے کہ زبردست پبلسٹی کے باوجود دیکھنے والوں کی بھیڑ نہیں اُمڑی-دہلی سے قریب گریٹر نوئیڈا کے جس سنیما ہال میں میں نے یہ فلم دیکھی وہاں میرے علاوہ پانچ سو سیٹوں والے سنیما ہال میں محض دس بارہ لوگ بیٹھے تھے-
میں یہ فلم صرف اس لئے نہیں دیکھنے گیا تھا کہ یہ ایک ادیب کی زندگی پر بنائی گئی فلم ہے بلکہ اس لئے بھی دیکھنے گیا تھا کہ اپنی موت کے63سال بعد بھی منٹو زندہ ہیں اور کسی نہ کسی حوالے سے ہماری سیاست اور معاشرت پر اثر انداز ہو رہے ہیں-وہ اُس داستانِ خوں چکاں جو ہم پر گزری ہے کہ چشم دید گواہ تھے لہٰذا ان کی تحریریں ہمارے لئے دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں-وہ ہندوستان میں کس قدر مقبول ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2012 میں جب ان کا صد سالہ جشن ولادت منایا گیا تو ہندوستان کی تمام قابل ذکر یونیورسٹیوں میں تقریبات کا انقعاد ہوا اور تمام اہم زبانوں میں ان پر مذاکرے ہوۓ-
ہندوستان اور پاکستان کے نام پر نفرت کی جو دیوار کھڑی کی گئی ہے 70سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے سیاست داں اسے باقی رکھنے بلکہ مستحکم کرنے کا کام لگاتار کئے جا رہے ہیں- عوام کی اکثریت–سرحد کے دونوں طرف–ان کی باتوں کا اثر بھی قبول کرتی ہے-مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی سوچ ذرا الگ ہے-وہ محبت اور یگانگت میں یقین رکھتا ہے جس کا اظہار وہ نت نۓ بہانوں سے کرتا رہتا ہے- مزے کی بات یہ ہے کہ نفرت سے بھرے ماحول کے باوجود اس طبقے کو بھی عوامی سطح پر خاطر خواہ پزیرائی ملتی رہتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دل کے نہاں خانے میں محبت کی چنگاری ابھی بجھی نہیں ہے-
منٹو اسی چنگاری کی علامت ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ جب گلزار کی نظموں کا کیسٹ “مراسم” جاری ہوتا ہے تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں- گوگل اپنے آپ کو پروموٹ کرنے کے لئے ایسی ویڈیو فلم جاری کرتا ہے جس میں ہندوستان میں بیٹھی ایک ہندو لڑکی اپنے دادا کو پاکستان میں موجود بچپن کے مسلمان دوست سے ملوانے کی کامیاب کوشش کرتی ہے- ہندوستان میں اردو سے زیادہ ہندی، انگریزی اور دیگر زبانوں کے پبلشرز منٹو کی کتابیں چھاپتے رہتے ہیں-آج منٹو مارکیٹ کی ضرورت ہیں- نندتا داس کی فلم اس ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے-
مگر مجھے اس فلم سے مایوسی اس لئے ہوئی کہ تخلیق کار نے اسے صرف اُن لوگوں تک محدود کر دیا ہے جو اردو ادب سے واقف ہوں،اس کے ادیبوں کو جانتے ہوں اور منٹو کے افسانے پڑھ رکھے ہوں-اتنی امیدیں ہم عام فلم بینوں سے نہیں کر سکتے ہیں،وہ بھی ہندی فلم دیکھنے والوں سے-ہندی فلموں میں بایوپِک یعنی کسی شخصیت پر مبنی فلم کا رواج ابھی نیا نیا ہے-نندتا نے پہلے ہی راؤنڈ میں اپنے ناظرین کو ایک ہیوی ڈوز دے دیا ہے-فلم میں بہت سارے زندہ کردار پیش کئے گئے ہیں مگر ان کے تعارف کی کوئی صورت پیدا نہیں کی گئی ہے-جیسے احمد ندیم قاسمی کا کردار کئی بار پردے پر آتا ہے جسے صرف ندیم کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے- ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں ہندوستان کیا پاکستان میں بھی عام لوگ احمد ندیم قاسمی سے واقف ہوں گے مجھے شبہ ہے-پاکستانیوں کی نئی نسل علامہ اقبال کو بھی ان کا کلام گانے والوں کے حوالے سے جانتی ہے-
کچھ یہی معامله جدن بائی کے کردار کے ساتھ ہوا ہے-اس کردار کے ساتھ ایک جوان لڑکی کو دکھایا گیا ہے اور فلم بین سے یہ امید کر لی گئی ہے کہ وہ جان لیں کہ یہ نرگس ہے- اگر نرگس کو کسی بہانے سے متعارف کرایا گیا ہوتا اور جدن بائی کے کردار سے غزل کے جو دو تین اشعار پڑھواۓ گئے ہیں انھیں غزل یا گانے کے طور پر پیش کیا گیا ہوتا تو دیکھنے والوں کی دلچسپی باقی رہتی-اسی طرح فیض کے اشعار کئی جگہ پر استمعال ہوۓ ہیں جنہیں گانے کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا مگر پتہ نہیں کس مصلحت کے تحت فلم میں گانے نہیں رکھے گئے ہیں- فیض کی “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” پیش کی بھی گئی ہے تو فلم ختم ہونے کے بعد جسے سننے کے لئے سنیما ہال میں کوئی نہیں رُکا-
فلم میں منٹو کی کہانیوں کے کردار بھی پیش ہوۓ ہیں-یہ بھی اپنا اثر چھوڑنے میں ناکام ہیں- انہیں دیکھتے ہوۓ کئی بار ایسا لگا کہ ہم فلم کی بجائے اسٹیج پلے دیکھ رہے ہیں-اسٹیج ایک الگ میڈیم ہے جس کے شائقین کی ذہنی سطح فلم کے ناظرین سے بہت اونچی ہوتی ہے- فلم میں منظر کشی کی جو گنجائشیں ہیں نندیتا نے ان کا فائدہ نہیں اٹھایا ہے- فلم میں جاوید اختر نے بھی ایک کردار نبھایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس پروجیکٹ سے جڑے ہوۓ تھے- مگر ایسا لگتا ہے کہ نندتا نے ان سے اسکرپٹ پر کوئی مشورہ لینے کی ضرورت نہیں سمجھی ورنہ ہمیں کچھ اور اچھا دیکھنے کو ملتا-
جو بات ناظرین کو فلم سے باندھے رکھتی ہے وہ اس میں کام کرنے والوں کی اداکاری ہے- نوازالدین صدیقی نے اتنی عمدہ اداکاری کی ہے کہ دیکھنے والوں کے لئے سعادت حسن منٹو کی شخصیت پوری طرح سے اُبھر کر سامنے آجاتی ہے- اسی طرح ایک نسبتاً کم معروف اداکارہ رسیکا دُگل نے بھی صفیہ منٹو کے کردار میں جان ڈال دی ہے- گو کہ مجھے اس فلم سے مایوسی ہوئی ہے اس کے باوجود میں یہی چاہوں گا کہ خراب صحیح منٹو جیسے حقیقی کرداروں پر فلمیں بنتی رہیں- چنگاری کو بھڑکائے رکھنے کی یہ ایک بہترین صورت ہے-
The post
منٹو: ایک ایماندارانہ کوشش،مگر مایوس کن فلم appeared first on
The Wire - Urdu.