
وزارت داخلہ نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کے لیے ہولڈنگ سینٹر یا حراستی کیمپ بنانے کی ہدایت دی ہے۔ اگر کوئی یہ ثابت نہیں کرپائے کہ وہ غیر ملکی نہیں ہے اور ضمانت نہیں دے پاتا ، تو اسے ان مراکز میں رکھا جائے گا۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹو: فیس بک/امت شاہ)
نئی دہلی: وزارت داخلہ نے منگل (2 ستمبر) کو ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے ‘ہولڈنگ سینٹر’ یا حراستی کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہیں ان مراکز میں اس وقت تک رکھا جائے گا جب تک کہ انہیں ان کے ملک واپس نہیں بھیج دیا جاتا۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق ، حکومت (مرکزی، ریاست، یونین ٹیریٹری، ڈسٹرکٹ کلکٹر یا مجسٹریٹ) یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا کوئی شخص قانون کے تحت غیر ملکی ہے یا نہیں اور اس سلسلے میں فیصلہ لینے کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے قائم کردہ ‘فارنرز ٹریبونل’ کے پاس کیس بھیج سکتی ہے۔ فارنرز ٹربیونل میں زیادہ سے زیادہ تین ممبران ہوں گے جو عدالتی تجربہ رکھتے ہوں گے۔
اگر کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ غیر ملکی نہیں ہے اور ضمانت نہیں دے پاتا تو اسے ہولڈنگ سینٹر میں رکھا جائے گا۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ اگر کوئی غیر ملکی سنگین جرائم کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اسے ہندوستان میں داخل ہونے یا رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کوئی بھی غیر ملکی مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر ہندوستان میں کسی بھی پہاڑی چوٹی پر نہیں چڑھ سکتا یا چڑھنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔
پرائیویٹ سیکٹر میں غیر ملکی شہریوں کو ملازمت دینے کے لیے بھی رہنما اصول جاری کیے گئے ہیں۔ کوئی بھی غیر ملکی جس کے پاس ہندوستان میں ملازمت کے لیے قانونی ویزا ہے وہ متعلقہ سول اتھارٹی کی اجازت کے بغیر بجلی، پانی، پٹرولیم جیسے شعبوں میں نجی کمپنیوں میں کام نہیں کر سکتا۔
اس کے ساتھ ہی دفاع، خلائی ٹکنالوجی، نیوکلیئر توانائی یا انسانی حقوق جیسے شعبوں میں نجی کمپنیاں مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر کسی غیر ملکی کو ملازمت نہیں دے سکتیں۔
ایک اور نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ نیپال اور بھوٹان کے شہری اگر زمینی یا ہوائی راستے سے ہندوستان میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں پاسپورٹ اور ویزا سے استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ استثنیٰ تبتی شہریوں پر بھی لاگو ہے جو پہلے سے ہی ہندوستان میں مقیم ہیں یا داخلے کے وقت متعلقہ رجسٹریشن افسر سے رجسٹر کرکے سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں — اگر وہ 1959 کے بعد لیکن 30 مئی 2003 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے اقلیتی برادریوں کے لوگ (ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی) جو مذہبی جبر واستحصال کی وجہ سے 31 دسمبر 2024 کو یا اس سے پہلے پناہ لینے کے لیے ہندوستان آئے ہیں، ان کو (چاہے وہ درست دستاویزات کے ساتھ آئے ہوں یا نہیں) چھوٹ دی جائے گی۔
ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت کیا ہے؟
غور طلب ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے منگل (12 اگست 2025) کو لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں یہ واضح نہیں کیا کہ ہندوستان میں شہریت ثابت کرنے کے لیے کون سے ‘قانونی دستاویزوں’ کی ضرورت ہے۔ وزارت نے کہا کہ شہریت کا تعین سٹیزن شپ ایکٹ 1955 اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین سے ہوتا ہے۔
دراصل، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن ایم پی سداما پرساد نے وزارت سے دیگر سوالات کے علاوہ یہ بھی پوچھا تھا کہ ‘ہندوستان میں شہریت ثابت کرنے کے لیے کن زمروں کے درست دستاویزات کی تفصیلات حکومت کے پاس ہے۔’
ریاستی وزیر داخلہ نتیانند رائے نے ایک تحریری جواب میں کہا، ‘ہندوستان کی شہریت کا تعین شہریت ایکٹ 1955 کی دفعات اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین کے مطابق کیا جاتا ہے۔’
قابل قبول دستاویزوں کی وضاحت کیے بغیر، جواب میں کہا گیا کہ شہریت ‘پیدائش (دفعہ 3)، نسب (دفعہ 4)، رجسٹریشن (دفعہ 5)، نیچرلائزیشن (دفعہ 6) یا علاقے کے انضمام (دفعہ 7) کی بنیاد پر حاصل کی جاسکتی ہے۔ شہریت کے حصول اور تعین کے لیے اہلیت کا معیار سٹیزن شپ ایکٹ 1955 اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کے مطابق ہے۔’
اس سے قبل، 5 اگست کو وزارت نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ شہریت ایکٹ، 1955 کے تحت مرکزی حکومت کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ ہر ہندوستانی شہری کو رجسٹر کرے اور انہیں قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔
وزارت نے یہ جواب ترنمول کانگریس ایم پی مالا رائے کے اس سوال پر دیا تھا، جس میں انہوں نے ان کارڈوں کی تفصیلات طلب کی تھیں، جنہیں قانون کے مطابق ہندوستانی شہری کی شناخت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
قوانین میں کہا گیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ ان شہریوں کو جاری کیے جائیں گے جن کی تفصیلات نیشنل رجسٹر آف انڈین سٹیزنز یا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) میں درج ہیں۔
لیکن قومی سطح پر این آر سی تو ہوا نہیں ہے ، اور جس ایک ریاست (آسام) میں اس عمل کو مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ، اس کا اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے ۔
واضح ہو کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں الیکشن کمیشن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہے کہ آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اسی طرح بامبے ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ آدھار کارڈ کے ساتھ ساتھ پین کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔