سوشل میڈیا پر سامنےآئے ویڈیو میں عالمی کتاب میلے میں ایک عیسائی آرگنائزیشن ‘دی گیڈینز انٹرنیشنل’ کے اسٹال پر لوگوں کو’جئے شری رام’، ‘ہر ہر مہادیو’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مظاہرین نے ‘مفت بائبل بانٹنا بند کرو’ کے نعرے بھی لگائے اور اسٹال پر لوگوں کو عیسائی بنانے کا الزام لگایا۔
نئی دہلی: راجدھانی دہلی کے عالمی کتاب میلے میں ایک عیسائی آرگنائزیشن کی طرف سے لگائے گئے کتابوں کے اسٹال پر بدھ (1 مارچ) کو ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگاتے ہوئے کچھ لوگوں کے ذریعے توڑ پھوڑ کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے ایوانجلیکل کرسچن ایسوسی ایشن’دی گیڈینز انٹرنیشنل’ کے اسٹال کے سامنے ‘جئے شری رام’، ‘ہر ہر مہادیو’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ کے نعرے لگاتے ہوئے ویڈیو اور تصویریں اپ لوڈ کی ہیں۔
معاملہ بدھ کی دوپہر 2:15 کا بتایا جا رہا ہے۔
دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، پولیس نے کہا ہے کہ جب احتجاجی مظاہرہ ہوا تو ‘کوئی کتاب نہیں پھاڑی گئی اور نہ ہی کوئی تشدد دیکھا گیا’۔
اخبار نے یہ بھی اطلاع دی کہ مظاہرین نے ‘مفت بائبل بانٹنا بند کرو’ کے نعرے لگائے اور اسٹال پر لوگوں کو عیسائی بنانے کا الزام لگایا۔
انہوں نے مبینہ طور پر اسٹال پر لگے پوسٹر بھی پھاڑ دیے۔
نیوز لانڈری نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مظاہرین اسٹال کے چاروں طرف بیٹھ گئے اور 20 سے 25 منٹ تک وہاں سے جانے سے منع کر دیا۔ اس دوران وہ ہنومان چالیسہ کا پاٹھ بھی کر رہے تھے۔
#WorldBookFair2023 Hindutva workers refused to budge and sat on the floor sloganeering that Free Bible should not be distributed. Security and Police staff intervened to remove them from the premises. pic.twitter.com/tGrGxjxo75
— Sumedhapal (@Sumedhapal4) March 1, 2023
انڈین ایکسپریس کے مطابق، جب عیسائی کمیونٹی کے رضاکاروں نے عالمی کتاب میلے کے منتظمین سے اس بارے میں شکایت کی تو انہیں مبینہ طور پر کہا گیا کہ وہ مذہبی کتابوں کو مفت تقسیم نہ کریں۔
وشو ہندو پریشد کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ کوئی منظم احتجاج نہیں تھا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عیسائی مذہب کی کتابوں کا اسٹال لگانے والے دی گیڈینزانٹرنیشنل کے ایک رضاکارنے دی وائر کو بتایا کہ ہندوتوا کارکنوں نے بائبل کی کئی کاپیاں پھاڑ دیں اور حملہ آوروں نے ڈیوڈ نامی ایک شخص کو دھکابھی دیا۔
دی وائر نے کتاب میلے کا دورہ یہ سمجھنے کے لیے کیا کہ حقیقت میں وہاں کیا ہوا تھا۔
اسٹال پر موجود ایک اور رضاکار نے بتایا کہ ہندوتوا کارکنوں نے عیسائی کمیونٹی پر تبدیلی مذہب کا الزام لگایا۔ کارکنوں نے ان پر الزام لگایا کہ ‘تم لوگوں کو 25 ہزار روپے دے کر مذہب تبدیل کرواتے ہو’۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آزاد محسوس کرتے ہیں تو اسٹال پر موجود رضاکاروں نے کہا کہ ‘اس حد تک کہ ہمیں اپنی کہانی خفیہ طور پر سنانی پڑے گی، ورنہ ہمیں کتاب میلے سے باہر کر دیا جائے گا۔’
کتاب میلے میں پیش آنے والے اس واقعے پر یونائیٹڈ کرسچن فورم کے صدر مائیکل ولیم نے افسو س کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا، اب تو کتابوں کی تقسیم کو بھی تبدیلی مذہب سمجھا جاتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکام نے اس معاملے کو تیزی سے حل کر لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قارئین کا ایک نیا گروپ آ گیا ہے، جو کتاب میلے میں یہ دیکھنے کے لیے نہیں جاتے کہ کیا پڑھنا اچھا ہو سکتا ہے، بلکہ اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیےآتے ہیں کہ وہ کس چیز سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ یہ افسوسناک ہے۔’
عیسائی کمیونٹی کے خلاف حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے 19 فروری کو دہلی کے جنتر منتر پر کمیونٹی کے مذہبی رہنماؤں، آرچ بشپ، بشپ، پادری اور راہباؤں سمیت تمام لوگوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
غورطلب ہے کہ دہلی میں لگے عالمی کتاب میلے میں کئی اسٹال ہیں، جومذہبی تنظیموں کے ذریعے چلائی جا تی ہیں۔ ہندو، مسلم اور سکھ گروپ کے ذریعے چلائے جانے والے اسٹال بھی مفت پمفلٹ، گرنتھ اور کتابیں تقسیم کرتے ہیں۔
دائیں بازو کی تنظیم کے کارکنوں نے گیڈینز انٹرنیشنل کے اسٹال پر جو کیا، اس سےکتاب میلے میں بھگوان رام پر کتابیں بیچنے والے اپوروا شاہ متفق نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘جئے شری رام کے نعرے لگانا اور کسی کو دھکا دینا رام کا پیغام نہیں ہے۔ رام ہمیشہ امن وامان میں یقین رکھتے تھے اور بھکت کبھی بھی ‘غلط الفاظ’ یا پیغامات نہیں پھیلاتے، کل (بدھ) جو کچھ ہوا وہ غلط تھا۔
ایک اور کتاب فروش سلطان اشرف نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں پر حملوں کو دیکھتے ہوئے انہیں امید نہیں ہے کہ مجرموں کو سزا دی جائے گی۔
اشرف نے کہا، ‘میں جانتا ہوں کہ تحقیقات کا کیا فیصلہ آئے گا، قصورواروں کو بخشا جائے گا اور بے گناہوں کو پھانسی دی جائے گی۔’
دی وائر نے تبصرے کے لیے نیشنل بک ٹرسٹ سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ ان کی جانب سے جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دہلی ہائی پروفائل جی 20 چوٹی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے، جس کی نریندر مودی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے۔
(یاقوت علی کے ان پٹ کے ساتھ۔ اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)