محبوبہ مفتی نے ایک بیان میں ملک کی اقلیتوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش اور ہندوستان کے حالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں بنگلہ دیش میں ہمارے ہندو بھائی ظلم و جبر کا شکار ہیں،یہاں (ہندوستان میں) ہم اقلیتوں پر ظلم کر رہے ہیں۔
محبوبہ مفتی (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/یوتھ پی ڈی پی)
نئی دہلی: جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے اتوار (1 دسمبر) کو ملک میں اقلیتوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش اور ہندوستان کی صورتحال میں کوئی فرق نہیں ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مفتی نے کہا کہ دونوں ممالک میں اقلیتوں کو ظلم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
محبوبہ مفتی نے اتوار کو جموں میں کہا، ‘ہم سن رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں حالات بہت خراب ہیں اور وہاں ہمارے ہندو بھائیوں کو ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں (ہندوستان میں) ہم اقلیتوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ تو فرق کیا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘ہم اتنا بڑا ملک ہیں، ایک سیکولر ملک ہیں جس کی شناخت پوری دنیا میں ہے۔ لیکن بنگلہ دیش اور ہم میں کیا فرق ہے اگر ہمارے ملک میں اقلیتوں کو ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شیولنگ ڈھونڈنے کے لیے مسجدیں گرائی جاتی ہیں۔’
مفتی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ظلم کے خلاف لکھنے والوں کو جیل بھیج دیا جا رہا ہے، وہیں ہندوستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، عمر خالد کئی سالوں سے جیل میں ہیں۔
مفتی نے کہا کہ انہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت سیکولر ہے اور مفتی نے انہیں ‘جاگنے’ کے لیے کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے رہنما گاندھی جی سے لے کر جواہر لعل نہرو اور مولانا آزاد تک، چاہے سردار پٹیل ہوں یا امبیڈکر جی، ان تمام لیڈروں نے اس ملک کو ہندوؤں، سکھوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کا گھر بنایا۔ یہ سب کا گھر ہے، مشترکہ گھر ہے، جس کے لیے گاندھی جی نے اپنی جان دے دی ۔ آج لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہمیں 1947 کے حالات کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔’
مفتی نے کہا کہ نوجوان نوکریوں، بہترہیلتھ سروس اور اچھی تعلیم کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن انہیں نہیں مل رہا ہے۔ تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے کیونکہ یہ لوگوں کو پَر دیتی ہے لیکن آپ (حکومت) نہیں دے رہے۔ آپ ہماری سڑکیں، ہماری گلیاں نہیں ٹھیک نہیں کر رہے، آپ مسجد کو گرا کر اس میں مندر ڈھونڈ رہے ہیں۔
سنبھل واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو لوگ مارے گئے ان کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ‘کوئی دکان پر کام کر رہا تھا، کوئی اپنے ٹھیلے پر، لیکن انہیں مار ڈالا گیا، انہوں نے انہیں گولی مار دی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی اس پر بات بھی نہیں کر سکتا، ورنہ عمر خالد کی طرح جیل میں ڈال دیا جائے گا، جو پچھلے چار سالوں سے سلاخوں کے پیچھے ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی سننے والا نہیں ہے۔’
اجمیر شریف درگاہ کو بھائی چارے کی سب سے بڑی علامت بتاتے ہوئے مفتی نے کہا، ‘تمام مذاہب کے لوگ وہاں جاتے ہیں۔ یہ 800 سال پرانا ہے جہاں ہندو، مسلمان، سکھ سب جاتے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی چارے کی علامت ہے۔ اگر آپ ہماری گنگا جمنی ثقافت کی علامت تلاش کرنا چاہتے ہیں تو اجمیر شریف جا کر دیکھیں۔ دیکھیے ہماری ہندو مائیں، بہنیں اور بیٹیاں کیسے سر جھکاتی ہیں۔ اس سے بڑی (بھائی چارے کی) کوئی مثال نہیں ہے۔’
مفتی نے کہا.. ‘اب، آپ اس کے پیچھے جا رہے ہیں، اسے کھود رہے ہو اور اس کے نیچے مندر تلاش کر رہے ہیں۔ میں سمجھ نہیں پا رہی ہو کہ یہ کب تک کام کرے گا۔’
مفتی نے الیکشن کمیشن سے انتخابات میں ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار میں ‘تبدیلی’ کے بارے میں بھی سوال اٹھایا اور لوگوں سے اس بارے میں سوچنے کو کہا۔
انہوں نے کہا، ‘لوگوں کو حکومت کے ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے منصوبے کا اندازہ ہو گیا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس میں کچھ گڑبڑ ہے کہ ووٹنگ کے دوران ووٹنگ کا فیصد مختلف ہوتا ہے اور نتائج مختلف ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں؟ ایک ریاست کو چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ اپوزیشن بات نہ کر سکے۔’
انہوں نے کہا، ‘اس بارے میں خدشات ہیں اور الیکشن کمیشن اس بات کا جواب نہیں دے رہا ہے کہ اگر شام 6 بجے پولنگ ختم ہونے کے وقت ووٹنگ کا فیصد 58 فیصد تھا تو پھر تین گھنٹے بعد68 فیصد اور گنتی سے ٹھیک پہلے 70 فیصد کیسے ہوجاتا ہے؟ میرے خیال میں لوگوں کو بیدار ہونے اور اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔’